آج مدت بعد لکھنے بیٹھا تو لکھنے
کو بہت کچھ تھا کئی سارے ایسشوز ایک ساتھ جمع تھے بجلی کی لوڈشیڈنگ ،امن
اوامان کا مسللہ ،محکموں کی ممکنہ نجکاری ،بے روزگاری،پولیو کا مرض اورپتا
نہی کیا کیا ـ ان موضوعات پر پہلے بھی بہت زیادہ لکھا جاچکا ہے۔
اور ابھی بھی گنجا ئش ہے کہ اور لکھا جائے مگر میں آج ملکی سیاست کو موزو
گفتگو بناؤ گا۔ آج کل ہر پولٹکل پارٹی انتحابات میں ہونے والی دھاند لی پر
سڑکوں پر احتجاج میں مصروف ہے کوئی کہتا ہے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی تو
کوئی کہتا کے ہم ماریں گے جیتنے والے بھی رو رہے ہیں اور ہارنے والے تو چیخ
چیخ کے رو رہے ہیں ایک طرف خان صاحب اپنا رونا رو رہے ہیں تو دوسری طرف
قادری صاحب دوبارہ حکومت کے لیے درد سر بنے بیٹھے ہیں ایک سال گزر جانے کے
باوجود انتخابی فیصلوں کو کوئی بھی ماننے سے قاصر ہے ۔۔آخر کیوں ؟ کیا
واقعی انتخابات میں بہت زیادہ دھاندلی ہوئی ؟ اور کیا حقیقت میں لوگوں کے
ووٹ چرائے گئے؟ اور کیا افتخار چوہدری اس سارے کھیل میں شامل تھے؟ قوم یہ
جاننا چاہتی ہے اور قوم کاحق بھی ہے کیونکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار لوگ
جوق در جوق گھروں سے ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے اور کافی بڑی تعداد میں نکلے
پاکستان میں اصل جمہوریت کے دلدادہ بہت سارے پاکستانی بیرون ملک سے ملک میں
جمہوری عمل کو طاقت بخشنے آے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ مختصر۔۔
الیکشن ہوئے اور ملک میں ایک بار پھر نواز شریف صاحب کی حکومت آگئی جبکہ
تحریک انصاف خیبرپختونخواہ میں اور پیپلزپارٹی سندھ میں حکومت بناسکی۱یک
سال تک حکومتیں اپنے اپنے کام میں لگی رہیں پھر دوبارہ سب کو یاد آگیا ۔۔او
ہو۔۔۔ ملک میں تو انتخابات میں شدید دھاندلی ہو ئی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں
کہ تحریک انصاف اس دوران بھی احتجاج کرتی رہی اور عدالتوں میں خوار ہوتی
رہی ۔
عمران خان دھاندلی دھاندلی کرتے رہے اور نواز شریف اپنی مستی میں لگے
رہے۔عمران لاہور کے تین حلقوں میں نادرا سے ووٹوں کی تصدیق کروانے چاہتے
تھے اور یہ بات میا ں صاحب کو گوارا نہیں تھی اور ویسے بھی جو آنکھ لاہور
کی طرف دیکھے بادشاہ سلامت کو ذرا نہیں بھاتی۔ آخر تنگ آکر عمران خان نے
اسلام آباد میں دھاندلی کے خلاف ریلی کا اعلان کر دیا ۔پھر کیا تھا کہ وہ
پارٹی جو پچھلے دور میں اپوزیشن میں لمبی لمبی باتیں کرتی تھی حکومت میں
آتے ساتھ ہی تیور بدل گئی۔قارئین نواز شریف نے حکومت میں آنے سے قبل قوم سے
چند وعدے کیے تھے آپکو یاد ہو گا جن میں عافیہ صدیقی کی رہائی بیرونی قرضوں
کا خاتمہ اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سر فہرست تھی۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ
یہ وعدے فقط وعدے ہی رہے اور قوم آج بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ سمیت تمام مسائل
سے دو چار ہے۔قومی اداروں پر اپنی مرضی کے بندے لگائے جا رہے ہیں جیسے ملک
کسی کے باپ کی میراث ہو اور اس بات کے میرے پاس ثبوت بھی ہیں۔عمران نے
اسلام آباد میں ریلی رچا نے کا اعلان کیا اور پھر کیا تھا ک ن لیگ کے چند
وزرا کی تو جیسے جان سی نکل گئی بجائے اس کے ،کے وہ محرکات تلاش کیے جاتے
کے ریلی کی ضرورت کیوں محسوس کی گی خواجہ سعد رفیق ،رانا ثنا،طلال چوہدری،
تو اس بات پے دماغ کھپاتے رہے کے تحریک انصاف کی ریلی بہت تھوڈی تھی اور یہ
ایک ناکام شو تھا۔خیر ریلی تو ہو گی اور خان صاحب نے اگلی ریلی کی تاریخ
بھی بتا دی۔میری ذاتی رائے میں دھرنوں اور ریلیوں کا یہ سلسلہ اب تھمنے نہی
والا طاہر القادری،عمران خان ،چوہدری شجاعت،شیخ رشید،اور کیچھ مزہبی
جماعتیں اپنا ایک اپوزیشن اتحاد بنانے کو ہیں اور اس سلسلے میں لیڈران کی
آپس میں ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔دوسری جانب نواز شریف جب
چاہیں مولانا فضل الرحمان والا پتہ خیبر پختونخواہ میں استعمال کر سکتے ہیں
اور پی ٹی آئی کو پریشان کر سکتے ہیں۔
مگر مجھے نہی لگتا کے عمران خان بلیک میل ہوں گے۔
پی ٹی آئی نے حکومت کو چار حلقوں میں نادرا سے انگوٹھوں کی تصدیق کا کہا ہے
تاکہ پتہ چل سکے کے جیتا کون ہے مگر حکومت توجہ دینے سے قاصر ہے مجھے ڈر ہے
کے اگر عمران خان نے باقی پارٹیوں کے ساتھ مل کر موجودہ گورنمنٹ کے خلاف
بھر پور تحریک چلا دی تو میاں صاحب کے لیے اس ڈولتی ہوئی کشتی کو پار لگانے
میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔
حکومت کو جیو والے معاملے میں بھی کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا مگر انھوں
نے جیو کا ساتھ دیا اور فوج کو زیر کرنے کے فارمولے پر کاربند رہے۔ میاں جی
شاید یہ سوچ رہے ہیں کے ۔۔۔ہنوز دہلی دور است۔۔ کے ابھی بڑا وقت پڑا ہے
معملات خود ہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ درست ہو جاہیں گے تو یہ انکی بھول ہو
گی۔۔سرحد کے پار نئے آرمی چیف کو لگایا گیا ہے جرنل وکرم سنگھ۔۔ جی وہ ہی
وکرم جس نے کشمیری عوام کا قتل عام کرنے کا حکم دیا تھا۔۔۔مودی کی سرکار آ
چکی ہے میاں صاحب کو ان سے بھی نپٹنا ہے ۔۔لیکن اگر اندرونی لڑائی ہی ختم
نہ ہوئی تو باہر والوں سے کیسے نپٹا جائے گا۔ نواز شریف کو چائیے کے اپنے
بڑے لیڈر ہونے کا ثبوت دیں اور ان چار حلقوں کے ووٹوں کی تصدیق جن کا
اپوزیشن کی طرف سے کہا جا رہا ہے انھیں کھلوانے میں نیک نیتی سے کام لیں۔۔
اگر کوئی گھروں سے باہر آ جائے تو آپ جمہوریت کے راگ الاپنے لگ جاتے ہیں یہ
اچھا مزاق ہے۔جناب کام کریں ورنا شو ٹائم شروع ہونے میں وقت نہی لگنا اور
اگر کوئی بھی تحریک زور پکڑنے میں کامیاب ہو گی تو آپ کے لیے مشکلات پیدا
ہو سکتی ہیں۔۔ طاہر القادری صاحب کو بھی ایزی نا لیا جائے ایک دن میں پچاس
سے زیادہ جلسے کرنا اور وہ بھی بڑے بڑے جلسے کرنا بچوں کا کھیل نہی۔ یہ
ٹائم ہے کے حکومت ناقدین کے منہ بند کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرے
امن او امان یقینی بنائے۔۔ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرے اور ملک میں
انتخابی اصتلاحات لیے کر آئے و رنہ وہی بات کے شو ٹائم بہت جلد آ جائے گا
اور پھر حالات کس کروٹ جاتے ہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
جملہ حقوق بحق پیبلیشر محفوظ ہیں |