انتخابات میں کیا پایا، کیا گنوایا

 12 مئی کی شام 5بجے، آخری مرحلے کی پولنگ ختم ہوتے ہی، ٹی وی چینلز پر بڑے زور و شور کے ساتھ انتخابی نتائج کی قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں ۔ مقصد صرف یہ ہے کہ ناظرین کے تجسس سے فائدہ اٹھایا جائے اور اشتہارات سے دولت کمائی جائے۔ ناظرین ہیں کہ اس طرح ٹی وی سے چپکے بیٹھے ہیں گویا نتائج بیان ہورہے ہیں۔حالانکہ ان تخمینوں کا کوئی بھروسہ نہیں۔ بقول غالبؔ بارہا کا تجربہ ہے کہ
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا

دور کیوں جائیں،12مئی کی ہی شام تلنگانہ اور سیماندھرا (سابق آندھرا پردیش ) میں میونسپل انتخابات کے نتائج آئے ، جنہوں نے مشاہدین کو حیرت زدہ کردیا۔ ان میں جگن کی وائی ایس آر کانگریس پارٹی اور تلنگانہ راشٹر سمیتی (ٹی آر ایس) کا صفایا ہوگیا، حالانکہ چند ماہ قبل اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں جگن کی پارٹی نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔ جگن نے جب کانگریس چھوڑی اور جب جیل گئے، جیل سے باہر نکلے تو عوام کے سیلاب نے ان کا خیرمقدم کیا تھا۔ان کی والدہ کو بھی عوام نے بہت عزت دی تھی۔ مگراب صفر ہوگئے۔ 2004کے لوک سبھا چناؤ میں بھی یہ ہوچکا ہے جب باجپئی سرکار نے ماحول سازگارسمجھ کر قبل از وقت چناؤ کرادئے تھے اور ’انڈیا شائننگ‘ کی دھوم تھی۔ تمام تر قیاس آرائیوں کے برخلاف این ڈی اے ہار گئی، حالانکہ باجپئی جی کی ساکھ خراب نہیں تھی۔ 2009 کے چناؤ میں بھی سنگھی لابی کے ہم نوا میڈیا نے یہ تاثر دیا تھا کہ یو پی اے ہار گئی ، مگر وہ دوبارہ برسراقتدار آگئی ۔دہلی کے حالیہ اسمبلی انتخاب میں شیلا دیکشت کی سرکار شاندار ترقیاتی ریکارڈ کے باوجود اقتدار سے باہر ہوگئی اور کیجریوال کی پارٹی نے سنگھیوں کا راستہ روک دیا۔ کسی سروے نے ان نتائج کے آس پاس بھی پیشن گوئی نہیں کی تھی۔دیکھنا یہ ہے کہ حالیہ لوک سبھا چناؤ میں عام آدمی پارٹی کیا گل کھلاتی ہے؟ بہر حال لب لباب یہ کہ یہ ایگز ٹ پول محض وقت بربادی کا ذریعہ ہیں۔ چنانچہ 16تاریخ تک انتظارکرنا چاہئے۔

البتہ کچھ باتیں بہت صاف ہیں جن پر گفتگو کی جاسکتی ہے۔مثال بھاجپا نے ووٹ حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حربے سے گریز نہیں کیا۔ کسی نے اس پر خوب تبصرہ کیا:’’ دیش جائے بھاڑ میں، ستّا آئے ہاتھ میں‘‘ مگر اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ہر جائز اور ناجائز حربہ استعمال کرنا اس کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ سنگھ نے ملک میں فرقہ پرستی پھیلانے کے لئے جس طرح جھوٹی تاریخ گڑھ لی، فسادات کرائے،دہشت گردی کو ہوا دی، اسی طرح اس چناؤ میں بھی جھوٹ اور فریب سے کام لیا گیا۔ افواہیں پھیلانا اس کا پرانا حربہ ہے۔ فرق یہ ہوا کہ اس مرتبہ نریندر مودی کی قیادت میں اعلاٹکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ انتخابی مہم پر بھاجپا نے پیسہ خوب خرچ کیا۔ اربوں کی کالی دولت گردش میں آگئی، جس سے افراط زر اوراس کے نتیجہ میں مہنگائی لازماً بڑھے گی۔یوں تو سنگھی کارکن ہمیشہ ہی منظم اور متحرک رہے ہیں، مگر اس بار جس طرح انکو منظم اور متحرک کیا گیا وہ بے مثال ہے ۔ جب کہ کانگریس ورکر کہیں نظر ہی نہیں آئے۔حد یہ ہے کہ پولنگ بوتھوں پر بھی نہیں تھے۔چناؤ میں کامیابی کے لئے صرف انتخابی منشور، جلسے ،جلوس اور روڈ شو کافی نہیں ہوا کرتے بلکہ ہرپارٹی کارکنوں کو ہردروازے پر دستک دینی ہوتی ہے۔ پولنگ کے دن ان کو بوتھ تک پہنچانااہم کام ہوتاہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہر محلہ میں ، ہر گاؤں میں کانگریس کمیٹیاں ہو اکرتی تھیں اور ہرسطح پر کارکن متحرک ہوتے تھے، اب کانگریس تنظیم 24اکبر روڈ تک محدودہوکر رہ گئی ہے۔پارٹی قیادت نے جب یہ دیکھ لیا تھا کہ انتخابی میدان میں آر ایس ایس کھل کر سامنے آگئی ہے اورچناؤ کی تیاری انا ہزارے کو آلہ کار بناکر کرپشن مخالف مہم سے کردی گئی ہے، تو پھر اس کو بیدار ہوجانا چاہئے تھا۔ ایسا تو نہیں کہ کرپشن سے بھاجپا لیڈر پاک صاف ہوں، مگر بھاجپا کی جارحانہ مہم کے آگے کانگریس پارٹی نے گھٹنے ٹیک دئے۔ کہاوت مشہور ہے ، ’’جو سوتا ہے، وہ کھوتا ہے‘‘۔ کانگریس ترجمان شکیل احمد نے بجا کہا ہے کہ ناکامی کے لئے تنہا راہل ذمہ دار نہیں، ہرچند کہ ان کا نتائج سے قبل یہ اعتراف حیرت انگیز ہے مگر سوال یہ بھی ہے کہ اگر کامیابی ملتی ہے تو سہرا کس کے سر باندھا جائیگا؟
اب اگریوپی اے کی شکست ہوئی ہے،جیسا کہ سمجھا جارہا ہے، تو یہ سرکار کی پالیسیوں کی نہیں، اصلاً تنظیم کی ناکامی ہوگی۔ سیدھے طور سے کہا جاسکتا ہے کہ پارٹی نے راہل کے ناتجربہ کارکندھوں پر جو بوجھ ڈالا، وہ درست نہیں تھا اور راہل نے جو تجربہ کرنا چاہا وہ کامیاب نہیں ہوا۔ بیشک راہل نے محنت کی۔ متانت، سنجیدگی اور وقار میں مودی ان کے آگے کہیں ٹکتے ، مگر مودی کے لوک لبھاون انداز تقریر اور نوجوانوں میں ایک نئی امید جگانے کے حربہ کا کانگریس توڑ نہیں کرسکی۔

اس الیکشن میں یوپی اے کے حوصلے میدان میں اترنے سے پہلے ہی پست ہوجانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ بھاجپا نے 2009کے الیکشن کی بعد ہی سرکار کے خلاف بڑے جارحانہ انداز میں ہر سطح پر مورچے کھول دئے تھے۔ اس کے مقابلے میں سرکار اور تنظیم ہرمحاذ پر پست رہی۔ بھاجپا نے جو درشت اور غیرشائستہ روش اختیار کی تھی اس سے بچنا بیشک ضروری تھا مگر الزامات کے جواب جس مستعدی سے دئے جانے کی ضرورت تھی، نہیں دئے گئے۔ مثال کے طور پر مودی ایک زمانے سے ’’شہزادے‘‘ کی رٹ لگا رتے رہے۔ پارٹی کو اس کا جواب ابھی چند روز قبل سوجھا جب ایک ٹی وی مذاکرے میں جناب م افضل نے کہا کہ راہل شہزادے نہیں ’’شہید زادے ‘‘ہیں۔ مگر جس شدت کے ساتھ اس جواب کو دوہرایا جانا چاہئے تھا ،وہ نہیں ہوا۔ حتٰی کہ افضل صاحب کے سوا کسی اورلیڈر کی زبان سے بھی یہ جواب نہیں سنا گیا۔

بی جے پی نے اپنی حکمت عملی بہت پہلے تیارکرلی تھی ۔ اس نے سمجھ لیا تھا چاہے کہ چاہے جتنا جھوٹ اور فریب کرنا پڑے،وزیراعظم، یوپی اے چیرپرسن اور راہل کی امیج کو مسخ کرنا ہی ہے۔ چنانچہ وہ اس میں لگی رہی اور بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوگئی۔ انتخاب کی تاریخوں کے اعلان سے مہینوں پہلے سے مودی نے ریلیاں شروع کردی تھیں۔پارٹی کے پاس ایسا لیڈر نہیں نکلے جو تقریرکے فن سے بھی واقف ہوں اورجن کا جواب عوام کے دل میں اتر جائے۔ جو تھے ان پر زبان بندی عاید کردی گئی۔ مثلاً راشد علوی کو خاموش کردیا گیا۔ چنانچہ انداز اور مواد دونوں اعتبار سے یوپی اے مودی کا جواب دینے میں ناکام رہی۔
سرکار نے اپنی فلاحی اسکیموں کے جو اشتہار ٹی وی پر چلائے ، وہ بھی احمقانہ تھے۔ ان سے کارگزاریوں کا کم کرپشن کا ڈھنڈورہ زیادہ پٹا۔مثال کے طور پر سوال کئے جاتے ، پل کہاں گیا، اے ٹی ایم کیا ہوا، ہوائی اڈا کہاں گیا؟ اسپتال اور اسکول کیا ہوئے، نریگا سے روزگار کا اتنا شور مگر گاؤں چھوڑ کر شہر کی طرف روانگی کیوں؟ وغیرہ۔ ان اشتہارات سے عام آدمی کی سمجھ میں یہ آہی نہیں سکتا کہ پیغام کیا دیا جارہا ہے۔
انگریزی کی ایک کہاوت ہے۔’ ’ جو چڑیا سویرے گھونسلہ چھوڑ دیتی ہے،اس کو کیڑے زیادہ ملتے ہیں۔‘‘اس لئے اگر آج بھاجپا کے چہرے پر بشاشت اور یوپی اے خیمے میں مردنی چھائی ہوئی نظرآرہی ہے تو بلا سبب نہیں۔ البتہ بھاجپا لیڈروں کے بیانات سے ایسالگتا ہے کہ بس ہندستان ان کی مٹھی میں آگیا ہے۔ چھچورا پن تو خیر بھاجپا کا اوڑھنا بچھونا بن گیا ہے مگر اس چھچور پن کے پردے میں بھی ایک اضطراب نظرآتا ہے اور لگتا ہے کہ بھاجپا ہوا میں تیر چلا رہی ہے، اس کو اندیشہ ہے کہ جو تیر چلایا ہے وہ نشانے تک پہنچے گا بھی یا نہیں۔ بقول اقبالؔ
چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام
یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات
آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر
تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات
مخبروں کی فوج

نیویارک ٹائمز کی رپوٹ ہے کہ امریکی پولیس نے قانون شکنی میں مرتکب بعض مسلمانوں کو ورغلا کر یا دھونس دھمکی دے کر مخبروں کی ایک فوج کھڑی کرلی ہے ۔ ان کا کام یہ ہے کہ مسجدوں میں، چائے خانوں میں اور تفریح گاہوں میں جائیں ، لوگوں سے بے تکلف ہوں اور جہا ں کسی مسلمان پر شک ہو، اس کی اطلاع پولیس کو دیدیں۔پولیس کے لئے کسی داڑھی، ٹوپی والے مسلمان پر شک کے لئے اتنا بھی کافی ہوسکتا ہے کہ وہ جہاز کی پرواز سے قبل کسی عزیز کو موبائل پر یہ بتارہا ہو کہ جہاز ’اڑنے ‘والا ہے اورکوئی شکی خاتون جہاز کے عملے کواطلاع دیدے۔ بہرحال ہمیں اس رپورٹ کو پڑھ کرہرگز حیرت نہیں ہوئی۔ امریکا نے مخبری کا ایک وسیع جال پہلے ہی پوری دنیا میں پھیلا رکھا ہے۔ یہ جو ای میل اور انٹرنیٹ کی سروس مفت دستیاب ہے، یہ اسی لئے ہے۔ان سب کے سرور امریکا میں ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ای میل یا انٹرنیٹ کی سرفنگ کا کسی کو پتہ نہیں چلتا، وہ غلط فہمی میں ہے۔ ہر ای میل اسکریننگ سے گزرتا ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر جو سرچ کرتے ہیں اس پر بھی نظررکھی جاتی ہے ۔جہاں کسی مشتبہ ویب سائٹ کوکھولا اور کچھ ڈاؤن لوڈ کیا، اکاؤنٹ کی نگرانی شروع ہوجاتی ہے۔ اسی کی بدولت تعلیم یافتہ نادان نوجوان گھیرے جاتے ہیں۔ ان انٹرنیٹ، ای میل، وہاٹ سیپ، وی چاٹ، وائبر اور موبائل وغیرہ سہولتوں کا استعمال کرنے والوں کو ہمیشہ باخبررہنا چاہئے کہ یہ بھی ان کی سوچ اور سرگرمیوں پر نطررکھنے کا ذریعہ ہیں۔ نادانی ان کی کوئی دلچسپی وبال جان نہ بن جائے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163232 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.