پاکستان کی دوسری بڑی اپوزیشن
جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے مئی 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے
خلاف دھرنوں کا اعلان کیا اور اسی سلسلے میں جماعت کے چیئرمین عمران خان نے
کل اسلام آباد کے ڈی چوک میں چار نکاتی ایجنڈا بھی پیش کیا۔تاہم تجزیہ نگار
سر کھجا رہے ہیں کہ جب پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے، جب ایک صوبے میں حکمرانی
ہے، تو دھرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ بات کل، عمران خان کے خطاب سے واضح ہونی
چاہیے تھی جو نہیں ہوئی۔پی ٹی آئی کے مطالبات تو اچھے ہیں کہ الیکشن کمیشن
کی از سرِ نو تشکیل ہو اور تمام جماعتیں ایک پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے
قوانین پر بحث کرے۔ لیکن دوسری طرف وہ دھرنے بھی دے رہے ہیں۔ کچھ سمجھ میں
نہیں آرہی۔
گذشتہ سال کے انتخابات ایک قائم مقام حکومت کے تحت کروائے گئے۔ آزاد اور
منصفانہ موحول میں ہوئے اور اگرچہ الیکشن کمیشن کے کام میں خامیاں تھیں،
لیکن ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں سب کچھ ٹھیک تھا اور
پنجاب میں سب کچھ خراب تھا۔ایسا ظاہر ہو رہا ہے کہ گرمیوں کے ساتھ ساتھ
پاکستان میں احتجاج کا موسم شروع ہو گیا ہے۔ حکومت پر پسِ پردہ عناصر دباؤ
ڈال رہے ہیں خاص کر کہ اس کو اگر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات، سابق صدر
پرویز مشرف کے غداری کے مقدمے اور نجی ٹی وی چینل جیو کے اینکر حامد میر پر
حملے کے تناظر میں دیکھا جائے۔لوگ سوال پوچھتے رہے کہ عمران خان صاحب اچانک
سے کہاں سے آگئے۔ یہ سارے عناصر چودھری شجاعت، طاہرالقادری اور عمران خان
دوبارہ منظرِ عام پر آئے ہیں۔ اس کی کوئی تو وجہ ہوگی؟بعض ماہرین کا کہنا
ہے کہ اس موسمِ احتجاج کا مقصد وسط مدتی انتخابات کے لیے راہ ہموار کرنا
ہے۔نواز لیگ کہہ رہی ہے کہ جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں وہ جمہوریت اور ترقی
کے خلاف ہیں۔ لیکن وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لاہور میں تحریر سکوائر
بنایا تھا اور وہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف مینارِ پاکستان کے نیچے پنکھے جھل رہے
تھے،پاکستان تحریکِ انصاف اس وقت کیوں احتجاج کر رہی ہے اس کی ایک وجہ تو
یہ ہے کہ وہ ایک سخت اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہتی ہے کیونکہ عمران خان
نے کئی بار پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون پر نورا کشتی کا الزام
لگایا ہے،بعض ماہرین کہتے ہیں کہ عمران خان خود مسلسل توجہ کا مرکزبننا
چاہتے ہیں اور اس کی تیسری وجہ پارٹی کے نوجوان کارکن ہیں جنھیں متحرک
رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی سرگرمی تو درکار ہے-
|