قانون سازی کس کے لیے؟

ایک لطیفہ نما والی بات ہے کہ ایک خاتون اپنے شوہر کے ساتھ شناختی کارڈ کے دفتر گئیں اور متعلقہ افسر سے کہا کہ دیکھیے یہ میرے شوہر الحمداﷲ زندہ ہیں لیکن آپ کے عملے نے کارڈ میں میرے نام کے آگے بیوہ لکھ دیا ہے ،لہذا برائے مہربانی آپ میرا کارڈ درست کردیں ،متعلقہ افسر نے دراز سے ریوالور نکال کے ان کے شوہر پر فائرنگ کر کے انھیں ہلاک کردیا اور محترمہ کو کارڈ واپس کرتے ہوئے کہا کہ لیجئے آپ کا کارڈ درست ہو گیا ۔ یہ لطیفہ مجھے تحفظ پاکستان آرڈیننس کا قومی اسمبلی میں بل پاس ہونے پر یاد آیا کہ ایک عرصے سے ہمارے ملک کی عدالتوں میں لاپتا افراد کے کیس چل ہے ہیں ہر سطح کی عدالتوں کے ججز حضرات ریمارکس دے دے کر اور حکومت وقت کو مختلف تاریخوں کا پابند بناتے بناتے تھک گئے لیکن حکومت اپنی طاقتور ایجنسیوں سے ان لاپتا افراد کو بازیاب نہ کراسکی ۔کسی کے بارے میں جب بہت زیادہ شور مچتا تو پھر ایسے لاپتا افراد کی کہیں نہ کہیں لاشیں مل جاتیں تاکہ اور دیگر لاپتا افراد کے لواحقین آئندہ کے لیے سہم جائیں یا کم از کم محتاط ہوجائیں اور اپنی تحریک کو کچھ کم درجہ حرارت پر رکھیں ۔بلوچستان سے ایک محب وطن بلوچی بزرگ کی قیادت میں بلوچستان کے لاپتا افراد کے لواحقین جس میں مرد خواتین اور بچے بھی شامل ہے کے ایک قافلے نے کوئٹہ سے چل کر پورے ملک کا سفر طے کیا اور ہر بڑے شہر میں اس مسئلے کو اٹھایا اسی طرح بعض صحافیوں نے اپنے کالموں میں اس کا ذکر بار بار کیا اور شاید اسی کے نتیجے ایک اخبار کے کالم نگار جناب حامد میر کو ایک جان لیوا حملے کا سامنا کرنا پڑا ۔یہاں پر مجھے حکومت کے رویے پر شدید افسوس ہے کہ نواز شریف صاحب جب حزب اختلاف میں تھے تو لاپتا افراد کے کیمپوں میں جا کر ان کے لواحقین سے یہ وعدہ کرتے تھے کہ وہ برسر اقتدار آکر اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے ۔اور اب جب وہ وزیراعظم ہیں تو ان ہی کے دور میں لاپتا افراد کے کیمپوں پر پولیس دھاوا بولتی ہے اور خواتین کو اور ان خواتین کو جو برسوں سے اپنے پیاروں کے انتظار میں دکھوں کے دن اور غموں کی راتیں گزار رہی ہیں کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا اور ان کے کیمپ اکھاڑ دیے گئے ۔مجبوری میں بنائے گئے وزیر داخلہ جناب خواجہ آصف نے کئی بار عدالتوں کو یہ یقین دہانی کروائی کے وہ بہت جلد ان لاپتا افراد کا پتا بتائیں گے لیکن وہ بھی ناکام رہے،اب یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ حکومت کی کوئی مجبوری ہے یا اس معاملے میں مجرمانہ کوتاہی ،یا یہ کہ اس مقام تک جانے سے حکومت کے پر جلتے ہوں تو شاید وزیر اعظم کے ارد گرد کے لوگوں نے یہ راستہ سجھایا ہو کہ اس طرح کی قانون سازی کی جائے کہ ان لا پتا افراد کا لاپتا ہونا قانون کی چھتری کے نیچے آجائے اور جب 90روز کی قانونی مدت کے بعد یہ لاپتا افراد زندہ یا مردہ حالت میں اپنے سرپرستوں کو ملیں تو کسی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نے ہو سکے ۔یعنی بیوہ خاتون کا شناختی کارڈ درست کرنے کے بجائے اسے واقعتاَ بیوہ کر کے سرکاری ریکارڈکوٹھیک رکھا جائے تحفظ پاکستان آرڈیننس کی سوائے ن لیگ کے تمام جماعتیں مخالفت کررہی ہیں کہ یہ ایک ایسا قانون ہے جس میں حکومت کو یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ کسی بھی شخص کو وجہ بتائے بغیر تین ماہ کے لیے گرفتار کرسکتی ہے اور اس کی گرفتاری کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا اور اگر یہ کے اس درمیان میں تشدد کی وجہ سے یا کسی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی تو اسے بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا ۔لاپتا افراد کے مسئلے میں ہمارے ملک کی خفیہ ایجنسیاں بہت زیر بحث آئیں ہیں اس لیے اب ایک منظم منصوبہ بندی کرکے پورا منظرنامہ اور پبلک بحث کے عنوانات تبدیل کر دیے گئے یعنی اب یہ بحث عام طور پر ہو رہی ہے کہ سول اور فوجی قیادت میں فاصلہ پیدا ہو رہا ہے ،ایجنسیوں اور میڈیا کی جنگ میں کون حق پر اور کون حق پر نہیں ہے دیکھیے ان بڑے بڑے ہاتھیوں کی لڑائی کون کون لوگ مارے جاتے ہیں یعنی اب لاپتا افراد کا مسئلہ پس پشت چلا گیا ۔ویسے اس تحفظ پاکستان آرڈیننس کے حوالے سے یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے ہماری سیاسی قیادتیں اپنے دور میں کسی نادیدہ دباؤ میں آکر ایسے قوانین بنا ڈالتی ہیں کہ آگے چل کر جب وہ اقتدار سے باہر ہوتی ہیں تو خود ان قوانین کی زد میں آجاتی ہیں یعنی دوسروں کے لیے جو گڑھا کھودا جاتا ہے وہ اس میں خود گر جاتیں ہیں ۔آج کے اخبار میں ایک کالم نگار نے اپنے کالم میں آج سے ہزاروں سال پہلے مرجانے والے زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کے مر جانے کے بعد اگر ان کی قبروں پر کتبہ لکھنے کا رواج ہوتا تو کس پر کیا لکھا جاتااس میں سائنس داں،سیاست داں ،شاعر وغیرہ کے علاوہ ایک حاکم کی قبر پر کیا لکھا جاتا انھوں نے لکھا کہ ایک حاکم کی قبر کا کتبہ اس طرح کی تحریر کا ہوتا " اس نے اپنے ایک مخالف کو فکس اپ کرنے کے لیے غار کے دھانے پر ایک بڑا پتھر رکھ دیا جس میں وہ مخالف رہتا تھا مگر ایک روز ادھر سے گزرتے ہوئے خود ہی اس پتھر کے نیچے دب کر ہلاک ہو گیا"یہ اقتباس موجودہ وزیر اعظم کے چاہنے والے ایک کالم نگار کے کالم سے لیا گیا ہے جو مورخہ 16مئی بروز جمعہ کے ایک کثیرالاشاعت اخبار میں شائع ہوا ہے۔مہذب ملکوں میں قوانین عوام کی سہولت کے لیے بنائے جاتے ہیں نہ کے حکمرانوں کی سہولت کے لیے۔

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 40046 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.