ایک ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم ہوسکتی اگر نواز اور شہباز شریف چاہیں تو؟

میاں صاحب فرض کرتے ہیں آپ دونوں شدید ترین بھوک اور پیاس سے نڈھال ہیں اس لمحے اگر آپ کو یہ کہاجائے کہ دو سال بعد آپ کو چکن کڑاہی کھانے کے لیے دی جائے گی تو کیا آپ شدید ترین بھوک اور حلق سے ٹیسیں نکلتی ہوئی پیاس کو دو سال تک برداشت کرسکیں گے یہی عالم اس وقت پاکستانی عوام کا ہے جو چوبیس گھنٹوں میں بیس گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ سے لمحہ لمحہ تڑپتے ہیں یاد رکھیں کہ جس طرح بھوکااور پیاسا انسان تمام حدوں کو پھلانگ سکتا ہے اسی طرح لوڈشیڈنگ کا ستایا ہوا انسان بھی نفرت اور بیزاری کے سمندروں کو یک جنبش عبور کرسکتا ہے ۔جب تک آپ سرکاری اداروں (جو 825 ارب کے ڈیفالٹرہیں ) ٗ بزنس کیمونٹی ٗ تمام بنکوں ٗ تمام ہوٹلوں اور تمام شادی گھروں ٗ کمرشل پلازوں کو اپنی ضرورت کی بجلی سولر انرجی سے حاصل کرنے کے لیے پندرہ دن کا نوٹس نہیں دیتے اس وقت تک لوڈشیڈنگ کے مارے ہوئے لوگوں کی بدعائیں آپکا پیچھا نہیں چھوڑ سکتی ہیں۔مئی کے آغاز میں ہی لوڈشیڈنگ کا گراف انسانی برداشت سے بڑھ چکاہے اور بجلی کی قلت 4100 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے ۔ اس پر وفاقی وزیر بجلی خواجہ آصف کا یہ بیان عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے کہ عوام کو تین چار مہینے بدترین لوڈشیڈنگ کو برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیئے ۔اگر عوام کو ( جنہوں نے آپ کو ووٹ دے کر وزرات عظمی اور وزرات اعلی پر بٹھایا ہے )آگ برساتی گرمی میں ہی بھوکا پیاسا مارنا ہے تو پھر پارلیمنٹ ٗ وزیر اعظم ہاؤس ٗ ایوان صدر ٗ ڈپلومیٹک انکلیوز سمیت تمام اہم حکومتی اداروں کو لوڈشیڈنگ سے مستثنی کیوں قرار دیا گیاہے ۔ ٹھیک ہے جہاں عوام گرمی میں ننگے تن درختوں کے نیچے ہاتھ کے پنکھے جھلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور رات کو مچھروں کا تعاقب کرتے کرتے گزر جاتی ہے اسی طرح آپ اور آپ کے تمام حکومتی عہدیدار بھی( بشمول خواجہ آصف اور عابد شیر کے )عوام سے یکجہتی کااظہار کرتے ہوئے ننگے بدن بجلی کے بغیر رات اور دن گزار کر تو دیکھیں اگر چوبیس گھنٹوں بعد دماغ ٹھکانے نہ آجائے تو پھر کہنا ۔ میں یہ کہنے کی جسارت کررہا ہوں کہ اگر آپ ( شریف برادران) چاہیں تو صرف پندرہ دنوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہوسکتی ہے ۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے وفاقی اور صوبائی سرکاری و نیم سرکاری اداروں کو فوری طور پر سولر انرجی پر منتقل کرنا ہوگا کیونکہ صرف حکومتی اداروں میں تین ہزار میگا واٹ بجلی استعمال ہوتی ہے۔ گورنر پنجاب محمد سرور نے گورنر ہاوس میں تمام ائیرکنڈیشنڈ اورفالتو لائٹیں بند کرکے مثال قائم کردی ہے آپ کو بھی وزیر اعظم ہاؤس اور سیکرٹریٹ ٗ پارلیمنٹ ٗ ایوان صدر ٗ وزرائے اعلی ہاؤسز اور سیکرٹریٹ اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے ائیرکنڈیشنڈ کرکے عوام کے دکھ اور پریشانی میں شریک ہونا چاہیئے -

اس کے بعد ملک میں تین چار درجن فائیوسٹار ٗ فورسٹاراور تھری سٹار ہوٹلوں میں تین ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی استعمال ہوتی ہے بالفرض اگر فائیو سٹار ہوٹل میں دو ہزار روم ہیں تو وہ تمام کے تمام ائیرکنڈیشنڈ ہیں۔اسی طرح 8 ہزار سے زائد بنک برانچیں ائیرکنڈیشنڈ ہیں ۔ شادی گھروں کی تعداد بھی پانچ ہزار سے کم نہیں ہوگا ۔کمرشل پلازوں کی تعداد بھی ہزاروں سے کم نہیں ہے ۔ فیکٹریاں اورکارخانے بھی چوری کی بجلی کے بغیر نہیں چلتے۔ اگر حکومت کا کوئی نیا پراجیکٹ بجلی کی پیدا وار شروع نہ بھی کرے تب ان فوری اقدامات کے ذریعے لوڈشیڈنگ کو ختم کیاجاسکتا ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ وہ کام جو مسلم لیگی حکومت کو برسراقتدار آنے کے فوری بعد کرنا چاہیئے تھا اس کے بارے میں ابھی تک سوچ بچار کی جارہی ہے ۔وزیر مملکت عابد شیر کے مطابق بجلی کے بلوں کے سب سے زیادہ ڈیفالٹر وفاقی اور صوبائی محکمے ہیں جن کی بجلی کاٹنے کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں لیکن بجلی کاٹنے پر عابد شیر کو دھمکیاں دینے والے بجلی کو رات دن استعمال تو کرنا اپنا حق تصور کرتے ہیں لیکن بل ادا کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سمیت تمام سیاسی جماعتیں مل کر بھی مسلم لیگی حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہیں کیونکہ عوام کی بھاری اکثریت مسلم لیگ ن کو پسند کرتی ہے لیکن جب مسلم لیگی حکومت ہی عوام کو لوڈشیڈنگ سے فوری طور پربچانے کاارادہ نہیں رکھتی تو پھر حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کو کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتا۔اسلام آباد کے نئے ائیرپورٹ کی تعمیر پر 130 ارب روپے لاگت آرہی ہے ۔ جس ملک میں غریبوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ ہو بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ٹھنڈا پانی اور ٹھنڈی ہوا بھی نہ مل سکے نہ رات کو سکون اور نہ دن کو آرام مل سکے وہاں ایسے مہنگے پراجیکٹ احساس کمتری کا باعث بنتے ہیں۔اگر اس سے آدھی رقم بھی بزنس کیمونٹی اور عوام کو سولر انرجی حاصل کرنے کے لیے بلاسود قرضے کی صورت میں دے دی جائے تو لوڈشیڈنگ کا فوری طور پر خاتمہ ہوسکتا ہے ۔ واپڈا کی بجلی صرف اور صرف عوام کے لیے ہونی چاہیئے باقی ادارے اپنا انتظام سولر انرجی کے ذریعے خود کریں ۔آپ (شریف برادران )سے نہایت ادب سے گزارش ہے کہ آپ ملک کو معاشی استحکا م کی جانب گامزن کررہے ہیں آپ موٹرویز ٗ بلٹ ٹرین ٗ گوادرانٹرنیشنل پورٹ سمیت 25 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے منصوبوں پر کام کریں لیکن عوام کو سخت ترین گرمیوں میں لوڈشیڈنگ سے بچانے کے لیے فوری طور پر تمام وفاقی اور صوبائی سرکاری و نیم سرکاری محکموں ٗ بنک برانچوں ٗفائیو ٗ فور اور تھری سٹارہوٹلوں ٗشادی گھروں ٗ کمرشل پلازوں اور فیکٹری مالکان کو صرف پندرہ دن میں سولر پر منتقل کرنے کا نہ صرف حکم دیں بلکہ سولر انرجی کی درآمد پر عائد ہر قسم کی ڈیوٹی ختم کرتے ہوئے بنکوں سے بلاسود قرضے جاری کیے جائیں۔تاکہ عوام بھی حسب ضرورت سولر انرجی سے فائدہ اٹھاسکیں ۔ اگر یہ اقدامات اب بھی اٹھالیے جائیں میں دعوی سے کہتا ہوں کہ یکم جون سے پہلے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی اور ماہ رمضان بھی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے محفوظ رہے گا۔ اگر آپ (میاں برادران) عوام کا تھوڑا سا بھی درد رکھتے ہیں تو آپ کو شدید ترین گرمی میں عوام کو وافر بجلی فراہم کرنے کے لیے یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑے گا کیونکہ جب تک بجلی کے نئے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچیں گے عوام کی اکثریت گرمی کی شدت سے نڈھال ہوکر قبروں میں اتر چکی ہوگی ۔لیڈر وہ ہوتے ہیں جو اپنی قوم کے درد کا احساس بھی رکھتے ہوں پاکستانی قوم نے آپ کو ووٹوں کی طاقت سے اقتدار کی ایوانوں میں اس لیے بھیجا ہے کہ آپ انہیں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور بدترین مہنگائی سے فوری طور پر چھٹکارا دلائیں ۔اگر آپ ایسا نہ کرسکے تو پھر آپ اور پیپلز پارٹی کی حکومت میں کوئی فرق نہیں رہے گا ۔وہ بے حس حکمران مشہور تھے آپ بھی بے حس حکمران ہی کہلائے جائیں گے۔عوام کو اعدادو شمار کی نہیں سستی اور مسلسل بجلی کی ضرورت ہے۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 786618 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.