سکردو میں آئے ہوئے آج تین دن ہو چکے ہیں اوریہاں پر جس
ہوٹل ( مشہ برام )میں ٹہرے ہوئے ہیں وہ قدرتی نظاروں کو دلفریب بنانے میں
اپنی مثال آپ ہے ہر صبح ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھ کر پہاڑوں کی چوٹیوں سے
بادلوں کو اٹھکھیلیاں کرتے ہو ئے دیکھنا ایک ناقابل فراموش نظارہ ہوتاہے
برف سے ڈھکی ہوئی اونچے پہاڑوں کی چوٹیاں یہاں کے لوگوں کے بلند حوصلوں کی
امین ہیں جو حکومتی بے حسی اور سخت مشکلات میں اپنی زندگی گذار رہے ہیں
28ہزارمربع میل سے زیادہ رقبہ پر پھیلے ہوئے گلگت بلتستان کے تقریبا 18لاکھ
عوام اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں جنت نظیر یہ خطہ سیاحوں کی جنت ہے
مگر یہاں تک پہنچنے کے لیے صرف جہاز ہی واحد زریعہ ہے اور ہر کوئی اس سواری
سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا جبکہ بل کھاتی ہوئی سڑک پر سفر کرنا کمزور دل
افراد کے بس کی بات نہیں ہے ناشتہ کی ٹیبل پر علاقہ کی معروف شخصیت آغا
مبارک علی موسوی اور آغا سید علی رضوی سے گپ شپ روٹین کا حصہ بن چکی تھی یہ
ایسی شخصیات ہیں جن کے اندراپنے علاقے کا دردکوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ابھی
کچھ عرصہ قبل حکومت نے گلگت بلتستان کی عوام کوگندم پر دی گئی سبسڈی ختم کی
تو انہوں نے بھر پور دھرنا دیا جسکے بعد حکومت نے مجبور ہو کر اس علاقہ کے
لیے گندم کی سبسڈی بحال کردی یہاں کی عوام احسان فراموش نہیں بلکہ انکی
نسلیں بھی اپنے محسنوں کا احسان اتارنے میں مصروف ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے
یہاں پر ذوالفقار علی بھٹوکے بعد اسکے لٹیرے جانشینوں کو بھی اس خطہ کی
عوام نے جان سے لگائے رکھا اور یہاں پر آج بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے مگر
اس نام نہاد حکومت نے یہاں کی عوام کو اسی محرومیوں سے دوچار رکھا جوانکی
حکمت عملی تھی اگر آپ سکردو آئیں تو آپ کویہاں پر وزیر اعلی کا حلقہ بھی
کسی کھنڈر کامنظر پیش کرتا ہوا ہی نظر آئے گااور اب عوام کئی دہائیوں کے
بعد پیپلز پارٹی کی حکومت سے سخت نالاں لگ رہے ہیں اتوار کے روز یہاں پر
یاد گار چوک میں وحدت مسلمین کا جلسہ تھااور اکثریت کا خیال تھا کہ گلگت
بلتستان کی تاریخ میں اتنابڑا اور منظم جلسہ پہلے کبھی نہیں دیکھا اس جلسہ
میں ملک بھر سے آئے ہوئے مختلف دینی جماعتوں کے رہنماؤں نے اظہار یکجہتی
کیا اتنے بڑے جلسہ کودیکھ کر ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ اب گلگت بلتستان
کی عوام اپنے حقوق کی جنگ خود لڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں یہاں کی عوام
چاہتی ہے کہ اس علاقہ کواب ایک صوبے کا درجہ دیا جائے یہاں کی عوام کو
بااختیار کیا جائے ووٹ کا حق دیکر گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینٹ
میں نمائندگی دی جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ گلگت بلتستان کوسیاحت کی نظر
سے دیکھا جائے سڑکوں اوریل کا نظام لایا جائے تاکہ پاکستان اور پاکستان کے
باہر سے سیاح یہاں پر آسانی سے پہنچ سکیں اور قدرتی حسن سے مالامال اس
علاقہ کو دیکھ سکیں یہاں پر ایک بات سب سے حیرت انگیز ہے کہ جرائم کی شرع
نہ ہونے کے برابر ہے لوگ اپنے گھروں کو تالا نہیں لگاتے اپنے گاڑیوں کو لاک
نہیں کرتے اور اپنی دکانوں میں چوروں پر نظر رکھنے کے لیے سی سی ٹی وی
کیمرے بھی نہیں لگاتے گلگت بلتستان کو چارممالک کی سرحدیں لگتی ہیں جن میں
سے چین اور بھارت اہم ہیں اگر یہاں پراچھی سڑک تعمیرکردی جائے تو بھارت
اورچین کے درمیان جو تجارت ایک لمبے سفر کے بعد اختتام پذیر ہوتی ہے وہ چند
گھنٹوں کے سفر کے بعد ہی منزل مقصود تک پہنچ جائیگی ان تجارتی سرگرمیوں سے
نہ صرف گلگت بلتستان کے عوام کی محرومیوں دور ہونگی بلکہ پاکستان کواس
تجارتی سرگرمیوں کی بدولت جو زرمبادلہ حاصل ہوگا وہ بھی پاکستان کو معاشی
طور پر مستحکم کریگامگر یہ تب ہی ہوگا جب یہاں کی عوام بااختیار ہوگی اور
یہاں کی عوام بااختیار کب ہوگی اس بات کا اندازہ اتوارکے روز ایم ڈبلیو ایم
کے جلسہ کو دیکھ کر لگانا اب مشکل نہیں رہا یہ جلسہ یہاں کے وزیر اعلی مہدی
شاہ کے لیے خطرے کی گھنٹیاں تھا اب گلگت بلتستان کی عوام اپنے حقوق کے لیے
متحد ہو چکے ہیں سکردو کے جلسہ میں سنی اتحاد کونسل ،منہاج القران ،اہلحدیث
اور اہلسنت کے قائدین نے بھر پورشرکت کی اور سب نے متحدہو کر ایک پلیٹ فارم
سے ملک دشمنوں کے خلاف ووٹ کی طاقت سے عوام کو نجات دینے کا فیصلہ کیا ان
تما م دینی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا کریڈٹ اگر کسی کو
جاتا ہے تووہ ایم ڈبلیو ایم کے شعبہ سیاسیات کے سیکریٹری ناصرعباس شیرازی
ہیں جن کی اپنے شعبہ میں پوری گرفت ہے اورجب وہ بات کرتے ہیں تو دلائل سے
کرتے ہیں جوسیدھی سننے والے کے دل پر اثر کرتی ہے جبکہ علامہ راجہ ناصر
عباس دوسری سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی طرح چھپ کر نہیں بیٹھتے بلکہ عوام
کے اندر رہنے کے عادی ہیں سکردو میں جلسہ کے اختتام پرجب وہ سٹیج سے
اترکراپنی گاڑی میں بیٹھے تو عوام کے جوش اور جذبہ کودیکھ کر عوام میں شامل
ہو گئے جنہوں نے انہیں اپنے کندھوں پر اٹھاکرتقریبا ایک کلو میٹر کا فاصلہ
پیدل طے کیا گھنٹہ گھر چوک سکردو میں ہونے والا یہ تاریخی جلسہ گلگت
بلتستان کے وزیر اعلی اور انکی جماعت کے لیے خطرے کی گھنٹیاں ہیں کیونکہ جب
عوام تبدیلی کے لیے اپنے گھروں سے نکل پڑتے ہیں تو پھر کوئی بھی انکے راستے
کی دیوار نہیں بن سکتا۔ |