سکردو کا سفر

اسلام آباد سے سکردو کا سفر تقریبا 24گھنٹے پر مشتمل تھا جس طرح سیاستدانوں نے ہماری زندگیوں کو مہنگائی ،بے روزگاری ،غربت اور لاقانونیت جیسی بے ہنگم اور نہ ختم ہونے والی سرنگ میں داخل کررکھا ہے بلکل اسی طرح سکردو کا پرپیچ راستوں کا سفر بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا مگر ایک بات کی تسلی تھی کہ اس راستہ میں کوئی ڈاکو نہیں ہیں اور نہ ہی پولیس کے روپ میں بھیڑیے ملیں گے جو بھی ملا اور جہاں بھی ملا بڑے خلوص سے ملا سڑک کے ایک طرف دریائے سند ھ کا پانی تیزی سے ہماری مخالف سمت بھاگ رہا تھا تو دوسری طرف اونچے اونچے پہاڑوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا اور ہم گاڑی میں کل 6افراد تھے جن میں سے ہم تین صحافی تھے عدنان نوائے وقت سے طیب جنگ سے اور ایک ہمارا میزبان مظاہر شکری تھا جو اسی علاقے کا رہائشی ہے مگر آجکل وہ لاہورمیں ہی قیام پذیرہے اور ایک مذہبی جماعت کے میڈیا سیل کو بڑی کامیابی سے چلا رہا ہے سکردو اور شمالی علاقہ جات کے حوالہ سے یہاں کے لوگوں کی محرومیاں اور مسائل پر تفصیلی بعد میں لکھوں گا کہ سیاحوں کی جنت اور اس جنت کے باسیوں کا اتنا برا حال کیوں ہورہاہے ابھی تو فیالحال اس خوبصورتی کو اپنی انکھوں کے زریعے اپنے اندر اتارنے کی کوشش کررہا ہوں جہاں پر صبح سے لیکر رات تک خوبصورتی کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا مانسہرہ سے بشام تک کا سفر اتنا خطرناک نہیں مگر بشام سے سکردوتک کا سفر ایک چھوٹی سے سڑک کے زریعے شروع ہوتا ہے اگر نیچھے نظر کریں تو دریائے سندھ کا سرپٹختا ہوا پانی ہے اگر اوپر نظر دوڑائیں تو آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں جیسے جیسے سفر آگے بڑھتا رہا راستہ مزید تنگ ہوتا رہا اور سڑک کبھی پہاڑکی چوٹیوں کی طرف رواں دواں ہوجاتی تھی توکبھی دریائے سندھ کے کنارے تک پہنچ جاتی تھی جب سڑک پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف ہوتی تو وہاں سے نیچے دریاکی طرف دیکھنے والوں کی ڈر سے آنکھیں بند ہوجاتی تھی اورجب ہماری ویگن دریاکے کنارے اورپہاڑوں کے دامن پر رواں دواں ہوتی تھی تو وہاں سے پہاڑوں کی چوٹیوں پر نظر ٹہرانا مشکل ہوجاتا تھا راستے میں مختلف چیک پوسٹوں سے بھی گذرہوا وہاں پر تعینات پولیس اور آرمی کے جوان انتہائی خوش اخلاقی سے پیش آئے ضلع کوہستان میں داخل ہوئے تو بہت سے خیالات ذہن میں آنا شروع ہوگئے بچیوں کے ڈانس پر کیسے انہیں بے دردری سے قتل کردیا گیا اور دہشت گردوں کے ہاتھوں ظلم اور بربریت کی مثال قائم کرکے کیسے ہمارے جوانوں کی گردنیں تن سے جداکرکے انہیں بے دردری سے شہید کردیا اتنے بڑے صدمات کو برداشت کرنا ان والدین کی ہی ہمت ہے جنہوں نے کمال بہادری سے اتنے بڑے صدمہ کوملک وقوم کے لیے برداشت کیاابھی انہی خیالات کے ساتھ ہی جڑا ہوا تھا کہ اچانک ڈرائیور نے ویگن روک دی اور کہا کہ فاتحہ پڑھ لیں پوچھا کیا ہوا تو اس نے بتایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں پردہشت گردوں نے فوجی جوانوں کو بے دردری سے شہید کرکے انکی لاشیں اسی جگہ رکھ دی تھی پورے جسم نے ایک جھرجھری لی اور ان شیہدہونے والوں کے لیے دعاکی انکے والدین،بہن بھائیوں اور عزیزوں اقارب کے حوصلے کو سلام پیش کیا۔

صبح 10 سے ہماراشروع ہونے والا سفر اگلے دن تقریبا ساڑھے دس بجے سکردوں میں اختتام پذیر ہوا یہاں پر سفید چادراوڑھے ہوئے پہاڑوں کی چوٹیوں نے ہمارا استقبال کیا تو ساری تھکن دور ہوگئی سیدھے ہوٹل میں چلے گئے جہاں پر نہا کر فریش ہوئے اسکے بعدسکردوں کی سڑکوں پرنکل گئے شنگریلاکی شام اور وہاں پرٹھنڈی ہوا نے بہت مزہ دیا اور ساتھ گرم گرم چپس اور چائے نے تو اس شام کو یادگار بنا دیا واپسی رات کا کھانا کھایا اسکے بعد یاد گار چوک کی طرف نکل گئے جہاں پر اگلے روز مجلس وحدت مسلمین کے ہونے والے جلسہ کے لیے سٹیج تیارکیا جارہاتھا اس موقعہ پر سکردوں کے باسیوں نے بتایا کہ یہاں پر جرائم کی شرع صفر ہے لوگ اپنے گھروں کوتالانہیں لگاتے چوری اور ڈاکے کا تصور بھی نہیں ہے فرقہ واریت کے نام پر کوئی قتل وغارت نہیں ہوتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں جتنے بڑے بڑے اورا ونچے اونچے پہاڑ ہیں یہاں کے لوگوں کے اندر پیار و محبت اس سے بھی زیادہ بلندیوں پرمضبوط جڑوں کے ساتھ موجود ہے یہاں پر آج دوسرا دن ہے یہاں کی خوبصورتی اور اپنائیت دیکھ دل چاہتا ہے کہ یہاں پر ہی رہائش پذیر ہو جاؤں مگر کیا کروں اپنا لاہور بھی تو پاکستان کا دل اوریہ بات تو یہاں کے بسی بھی کہتے ہیں کہ لاہور لاہور ہے ۔

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 512967 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.