الطاف حسین کا پاسپورٹ،ایم کیوایم کی طاقت پرسیاسی نقطہ نظر

12 مئی پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن اور متحدہ قومی موومنٹ کے دامن پر بدنما داغ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ 2007ء میں اس روز وکلاء تحریک کے دوران اس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کو کراچی آنے سے روکنے اور سابق حکمران پرویز مشرف کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لئے ، پارٹی نے کراچی میں اپنی خوفناک قوت کا مظاہرہ کیا تھا۔ درجنوں بے گناہ لوگوں کی جان لی گئی تھی اور کراچی کو خوں ریز کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایم کیو ایم کے دباو کی وجہ سے ہی اس واقعہ کی نہ تو غیر جانبدارانہ تحقیقات ہو سکی ہیں اور نہ ہی اس دن عام لوگوں کے اجتماعات پر اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کا ارتکاب کرنے والوں کا سراغ لگایا جا سکا ہے ۔

اس سال اس روز جب ملک بھر کے وکیل اور سیاسی کارکن اس یوم سیاہ کی یاد منا رہے تھے ، متحدہ قومی موومنٹ ایک بار پھر کراچی کو بند کرنے اور شدید احتجاج کرنے کی دھمکیاں دے رہی تھی۔ اس بار ان دھمکیوں کی وجہ نزول یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو قومی شناختی کارڈ اور پاکستانی پاسپورٹ جاری کرنے میں روایتی تساہل سے کام لیا ہے ۔ ایک سیاسی معاملہ کو وزارت داخلہ کے بیورو کریٹس کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے ۔ جس کے نتیجے میں اب ایم کیو ایم کے ممبران قومی اسمبلی و سینیٹرز اہم قومی معاملات پر گفتگو کرنے کی بجائے پارلیمنٹ ہاوس میں دھرنے دے رہے ہیں۔
یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ کو تماشہ لگانے ، خبروں کی زینت بننے اور کراچی کو بند کرنے کا ڈھنگ آتا ہے ۔ اب اس کا مظاہرہ ان خبروں کے تناظر میں کیا جا رہا ہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے الطاف حسین کو شناختی کارڈجاری کرنے میں تساہل سے کام لیا جا رہا ہے ۔الطاف حسین کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے 4 اپریل کو پاکستانی پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ کے لئے درخواست دی تھی اور ان کے پاس اس کی رسید بھی موجود ہے ۔ وزارت داخلہ نہ صرف یہ کہ اس حقیقت سے انکار کرتی ہے بلکہ اس نے برطانیہ میں نادرا کے سربراہ کو فوری طور پر برطانیہ سے پاکستان طلب کر لیا ہے ۔ اس تنازعہ کا پس منظر یہ ہے کہ برطانیہ میں سابق پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے نادرا ٹیم کو ہمراہ لیا اور الطاف حسین کے گھر جا کر ضابطے کی کارروائی مکمل کروائی۔ اس مقصد کے لئے جو مشینری استعمال ہوتی ہے ، وہ بھی سفارتخانہ سے الطاف بھائی کے گھر لے جائی گئی۔

واجد شمس الحسن ایک منجھے ہوئے صحافی ہیں تاہم بشرط استواری بے نظیر بھٹو نے انہیں 1994ء میں پہلی مرتبہ برطانیہ میں پاکستان کا ہائی کمشنر مقرر کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہونے کے ساتھ ہی ان کا عہدہ بھی ختم ہو گیا۔ تاہم انہوں نے لندن کو ہی اپنا مسکن بنا لیا اور بے نظیر بھٹو کے گشتی سفیر و مشیر اور سیکرٹری کے طور پر جلا وطنی کے دوران ان کے لئے خدمات سرانجام دیتے رہے ۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت بحال ہونے پر انہیں دوبارہ برطانیہ میں پاکستان کا ہائی کمشنر بنا دیا گیا۔ ملک میں حکومت تبدیل ہونے کے باوجود میاں نواز شریف نے بھی انہیں اس عہدہ سے علیحدہ نہیں کیا تھا تاہم الطاف حسین کو پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کرنے کے تنازعہ پر انہیں علیحدہ کیا گیا ہے ۔

یوں تو ایم کیو ایم کے قائد کو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے ۔ یہ درست ہے کہ الطاف حسین 1992ء سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ انہوں نے سیاسی پناہ کے بعد وہاں کی شہریت بھی حاصل کر لی ہے ۔ پاکستانی قانون کے تحت پاکستانی نڑاد برطانوی شہری دہری شہریت رکھنے کے حقدار ہیں۔ اس طرح کسی بھی پاکستان کو برطانوی شہریت اور پاسپورٹ حاصل کرنے کے باوجود پاکستانی پاسپورٹ دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس مقصد کے لئے درخواست دہندہ کو درخواست گزار بن کر خود چل کر سفارتخانہ یعنی حکومت پاکستان کی خدمت میں حاضر ہو کر ’’ استدعا ‘‘ کرنا پڑتی ہے ۔ الطاف حسین کے معاملہ میں واجد شمس الحسن کی کرم فرمائی سے معاملہ الٹا ہو گیا اور سفارتخانہ مطلوبہ مشینری اور اہلکاروں سمیت الطاف بھائی کے دولت کدے پر حاضر ہو گیا۔

اس میں تو شک نہیں ہے کہ پاکستانی وزارت داخلہ کو اس معاملہ کو مسئلہ بنا کر غیر ضروری الجھن پیدا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن وزارت داخلہ میں سرکاری افسر وہی کرتے ہیں جو اوپر کا اشارہ یا گنجلک قواعد کا تقاضہ، کہتا ہے ۔ اس حالت میں جو بات زیادہ ناقابل فہم ہے وہ یہ کہ ایک سیاسی پارٹی کے رہنما اور عام آدمی کو بااختیار بنانے کے دعویدار الطاف حسین اور ان کی پارٹی کو آخر عام آدمی کی طرح رویہ اختیار کرنے میں کیا مشکل درپیش ہے ۔ برطانیہ میں الطاف بھائی محفوظ ہیں اور چلتے پھرتے بھی ہیں۔ اگر وہ بنفس نفیس سفارتخانہ تشریف لے آتے تو ان کی شان میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی بلکہ اس سے ان کا قد ہی بلند ہوتا۔

اس کے برعکس اس مسئلہ کو انا کا سوال بنا کر ایم کیو ایم ایک بار پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ صرف اپنی اسٹریٹ پاورکو ہی سیاسی قوت سمجھتی ہے اور ایک شخص کے لئے اس طاقت کا غلط یا صحیح استعمال کرنے پر ہر وقت آمادہ و تیار رہتی ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ نے جس طرح الطاف حسین کو ایک اوتار کا درجہ دیا ہے ، وہ پارٹی کے سیاسی پیغام اور کردار کے لئے نہایت مہلک ثابت ہو رہا ہے ۔ اس کے باوجود الطاف حسین اور ان کے رفقاء اس گرداب سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں ہیں بلکہ ہر آنے والے دن کے ساتھ خود کو زیادہ سے زیادہ مشکل میں گرفتار کر رہے ہیں۔

اس پس منظر میں پاکستانی پاسپورٹ کے لئے درخواست کو مسئلہ بنا کر دھمکی آمیز انداز اختیار کرنا ، متحدہ اور اس کے قائدین کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔ دنیا کی تاریخ کے سب بڑے لیڈر عام آدمی کی طرح زندگی گزارنے اور اپنی انکساری کی وجہ سے ہی عظمت کی دائمی بلندیوں کو پہنچ سکے ہیں۔ الطاف حسین کو اگر عظیم بننے کا شوق ہے تو انہیں بھی یہ سبق سیکھنا ہو گا۔ایم کیو ایم کے مختلف رہنماوں نے پاکستانی پاسپورٹ کے حصول کے حوالے سے الطاف حسین کی کوششوں اور ارادوں کے حوالے سے مختلف بیان دئیے ہیں۔ تاہم یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ الطاف حسین فی الوقت پاکستان آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ پاکستان میں وہ کئی خطرناک مقدموں میں مطلوب ہیں اور اسلام آباد میں حکومت سے ابھی تک سلسلہ جنبانی قائم نہیں ہو پا رہا ہے ۔

Syed Arif Nonari
About the Author: Syed Arif Nonari Read More Articles by Syed Arif Nonari: 12 Articles with 7795 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.