ابن صدیقی
انتہا پسند ہندوؤں نے بھارتی پارلیمانی انتخابات میں اپنی فتح کے جشن کے
دوران بنگلور میں متعدد مساجد پر حملے کئے ،توڑ پھوڑسے زبردست خوف و ہراس
پھیل گیا ،مسلمان جان کے خوف سے گھروں میں دبک گئے لوگوں کا خیال ہے انتہا
پسندوں نے ابھی ٹریلرچلایا ہے فلم چلنا ابھی باقی ہے ٹریلرسے ہی اندازہ
لگایا جا سکتا ہے فلم کتنی سنسنی خیزہوگی ۔ یعنی انتہا پسندوں نے فتح کا
جشن اس انداز سے منایا کہ انسانیت شرما گئی۔۔۔دیویاں حیرت زدہ رہ گئیں اور
’’بھگوان‘‘ نے بھی بادلوں میں اپنا منہ چھپا لیا لیکن متعصب ہندوؤں کو شرم
تک محسوس نہ ہوئی حالانکہ عبادت گاہ کسی بھی مسلک کی ہو ،کسی بھی مذہب کے
ماننے والوں کی۔۔اس کا احترام سب پر واجب ہے لیکن ہندوستان میں یہ کیا
ہورہا ہے ؟ وہ بھارتی مسلمانوں کے سماجی و معاشرتی استحصال پر آوا ز بلند
کریں نہ کریں مگر مذہبی حقوق کیلئے تو کچھ بولیں جب بھی مسلمانوں پرظلم
ہوتاہے انسانی حقوق کی تنظیمیں شاید لمبی تان کر سو جاتی ہیں۔ان کا ضمیر تک
نہیں جاگتا ۔انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار نہ جانے کیوں اندھے ،گونگے
اور بہرے بن جاتے ہیں لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں یا ر! بھارت میں یہ کس قسم کا
الیکشن تھا کہ اتر پردیش جیسے مسلم اکثریتی صوبے میں ایک بھی مسلمان
پارلیمنٹ نہیں پہنچا نصف صدی کی سیاست میں ایسی’’ انہونی ‘‘پہلی مرتبہ ہوئی
ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نریندرمودی جیسے ایک متعصب انتہا پسند ہندو کا
برسر ِ اقتدار آنا پاکستان اور دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے خطرے کی گھنٹی
ہے ا یہ بات بھی ہر شک و شبہ سے بالا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور
سیکولر ہونے کا نام نہاد دعوےٰ کرنے والے ملک میں بھارت میں آبادمسلم، سکھ
، عیسائی ،پارسی ، بدھ اور دیگر مذاہب پر مشتمل اقلیتیں ہمیشہ مشکلات سے
دوچاررہیں،ان کا معاشی ،معاشرتی اور مذہبی استحصال کسی نہ کسی انداز میں آج
بھی جاری ہے انتہا پسند ہندوؤں کے بھارتی پارلیمانی انتخابات میں اپنی فتح
کے نشہ میں جشن کے دوران بنگلور میں متعددمساجدپرحملے تو اور بھی خطرناک
بات ہے اس سے مذاہب کے درمیان تصادم کا خطرہ بڑھ گیاہے جو خود بھارت کے
اپنے مفاد میں نہیں ان میں مسلسل بے چینی سے بھارت اور ا س کے پڑوسی ممالک
کے حالات کبھی پر سکون نہیں رہ سکتے۔نریندرمودی جیسے متعصب اور انتہا پسند
ہندورہنما کا بھارت کی وزارت ِ عظمیٰ پرفائزہونا ان کیلئے ایک امتحان بھی
ہے اورخطے میں مستقل امن کے لئے مستقل سوالیہ نشان بھی ہے اب دیکھنا یہ ہے
کہ نئے بھارتی وزیر ِ اعظم اقلیتوں کے مال وجان کا تحفظ،مذہبی و شخصی آزادی
و رواداری کیلئے کیا کرتے ہیں ؟۔ بر ِصغیرمیں پائیدارامن کیلئے نریندرمودی
کی ترجیحات کیا ہیں کیاوہ ٹھوس اقدامات کرنا پسندکریں گے ؟ اس کے ساتھ ساتھ
مقبوضہ کشمیر وہ کیا حکمت ِ عملی تیار کرتے ہیں جس سے کشمیریوں پر ظلم و
ستم بند اور ریاستی جبرکا خاتمہ ہو سکے کیونکہ ان کی اخلاقی ذمہ داری بھی
بنتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتاہے کہ نریندرمودی کشمیریوں جدوجہد حریت کو برداشت
نہ کریں اور اپنے مزاج کے عین مطابق کشمیری مسلمانوں کو ریاستی جبر وستم کا
نشانہ بنائیں یا پھرحالات کی نزاکت کااحساس کرتے ہوئے مذاکرات سے تمام
مسائل کا حل تلاش کریں بہرحال وزیر ِ اعظم بننے کے بعد نریندرمودی کو بہت
سے مسائل اورچیلنجزکا سامنا کرنا پڑے گا وزیر ِ اعظم میاں نواز شریف نے فون
کرکے نریندرمودی مبارکباددیتے ہوئے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے
پاکستان نے تو ہمیشہ ہر بھارتی حکمران اور بھارت کے ساتھ خیر سگالی کے
جذبات کااظہار کیا اب گیند نریندرمودی کی کورٹ میں ہے وہ پاکستان سے
خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں یا نہیں ۔۔ میاں نواز شریف نے تو سب سے پہلے ان
کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے ۔ فتح کا نشہ اترے تو نئے بھارتی وزیر ِ
اعظم کو ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنا چاہیے مساجدپرحملے، ،توڑ پھوڑاور
اقلیتوں کا استحصال ان کے چہرے کے بدنما داغ بھی بن سکتے ہیں۔ |