ایک ارب 20کروڑلو گوں کا ملک بھارت کو آزاد ہوئے اُتنا ہی
عرصہ ہوا ہے جتناعرصہ پاکستان کو ہوا ہے لیکن آج بھارت کی معاشی و اقتصادی
پوزیشن دیکھیں تو باوجود پاکستان سے آبادی زیادہ ہونے کے بہتر حالت میں ہے
وہاں پر جمہوریت مضبوط ہے‘اختیارات عوامی نمائندوں کے پاس ہے‘ آج تک وہاں
جمہوریت پر شب خون نہیں مارا گیاہے‘1947سے آج تک صرف جمہوری حکومتیں بنتی
رہی ہے جس کی وجہ سے بھارت دنیامیں بڑی جمہوری ملک کے نام سے مشہور و معروف
ہے‘ اس کے بر عکس پاکستان میں 35سال فوجی آمریت رہی جس کی وجہ نہ صرف
جمہوری حکومتیں ناکام رہی ہے بلکہ ادارے بھی کمزور اور اقتصادی پوزیشن بھی
غیر مستحکم رہی ہے ۔ آج بھی ملک کے حالات اس نہج پر ہے کہ جمہوری حکومت کو
خطرہ ہے‘ اداروں کے درمیان اعتماد کی فضاکم ہے‘ حکومت اور فوج ایک پیج پر
نہیں ۔ ہماری بدقسمتی کہ آج بھی ملک میں جمہوری حکومت کوخطرہ ہے کہ آج یا
کل میں حکومت ختم ہوجائے گی اگر نوازشریف حکومت نے خاص کر مشرف کیس میں لچک
کا مظاہرہ نہ کیا تو فوج ٹیک آور کردے گی‘ یہ وہ افواہیں ہے جو مختلف حلقوں
کی جانب سے پھیلائی جارہی ہے ۔حکومت حلقوں میں بھی ان حد شات کا اظہار کیا
جا رہا ہے ۔ دوسری طرف آج تک یہ فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ حکومت کی لا ئن کیا
ہے اور فوج کے حدود کیاہے۔ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے‘اندررونی اور
بیرونی خطرات مو جود ہے‘ عالمی ممالک خطے میں گریٹ گیم کھیل رہی ہے اور ہم
یہ فیصلہ نہیں کر سکیں کہ طالبان سے مذاکرات کر نے چاہیے یانہیں ۔ فوج
اورحکومت کی سوچ طالبان سے مذاکرات میں نظر آرہی ہے جس کی وجہ سے مذاکرات
تعطل کاشکار ہے۔
جب تک جمہوری حکو متیں خوداس ملک میں جمہوری نظام کے لیے متفق نہ ہو گی اس
وقت تک ملک افواہوں اور ریل ڈی ریل کی چکر میں پھسا رہے گا‘ اگر ملک کا
مستقبل خودمیاں نواز شر یف کی حکومت جمہوری دیکھناچاہتی ہے تو انہیں کچھ
بڑے فیصلے کر نے پڑیں گے۔سب سے پہلے تحریک انصاف کے مطالبات کو تسلیم کر کے
فوری طور پر ایک ہفتے کے اندراندر چارحلقوں میں دھاندلی کے الزامات کوسامنے
لانا چاہیے۔ ایک سال گزر گیالیکن جمہوری حکومت یہ طے نہ کرسکی کہ الیکشن ٹر
بیونلز میں دائر پٹیشنزکے فیصلے کیے جائیں ‘قانون کے مطابق الیکشن ٹربیو نل
کو چار مہینے کے اندراندر تمام کیسز کو نمٹناچاہیے تھا لیکن آج بھی 199کیسز
ٹربیونلز میں مو جود ہے جن میں سب سے زیادہ پنجاب کے 97حلقوں میں کیسز باقی
ہے جب کہ خیبر پختونخوا کے 11 حلقوں میں فیصلہ نہیں ہوا ہے ۔سندھ اور بلو
چستان میں بھی در جنوں کیسزبندپڑے ہیں ۔ آمر یت پسند سوچ کے مالک آج
پاکستان میں جمہوریت کا مذاق اڑ رہے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی کے
الزامات کو ایک سال بعد بھی ختم نہیں کیا جاسکا‘ تمام سیاسی جماعتوں سمیت
حکومتی پارٹی مسلم لیگ ن نے بھی ٹر بیونل میں پیٹشن دائر کی ہے لیکن نہ ہی
الیکشن کمیشن اس بارے میں پر یشان ہے اور نہ ہی نادرا سے مدد لی جا رہی ہے
۔ویسے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انتخابات میں اوریجنل سیاہی استعمال نہیں ہوئی
جس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ انگوٹھوں کے نشان چیک ہو سکیں حالاں کہ عام
سیاہی استعمال ہونے والے انگو ٹھے کانشان بھی نادرا سے ویری فائی ہو سکتا
ہے اس کے لیے میکنطیسی سیاہی ضروری نہیں۔دوسری بد قسمتی ہماری یہ ہے کہ تقر
یباً ہر الیکشن کے بعد ہار نے والی سیاسی جماعت د ھاندلی کا الزام لگاتی ہے
کچھ دن شور مچانے کے بعد خاموش ہو جاتی ہے جس کو کچھ حلقے یہ تصور کر بیٹھے
ہیں کہ ہر ہارنے والی جماعت د ھاندلی کے الزامات لگاتی رہتی ہے جو نئی بات
نہیں۔ دوسری طرف بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہیں وہاں پر بھی الیکشن ہوتا ہے
لیکن اس قسم کے الزامات نہیں لگائے جاتے ہیں۔ دس سال اقتدارمیں رہنے کے
باوجود کانگرس بھارت میں انتخابات کر اتی ہے اور انتخابات میں برُی طرح ہار
جاتی ہے ۔آج تک وہاں پر خفیہ ہاتھ کی بات ہوتی ہے اور نہ ہی دھاندلی کی بات
کی جاتی ہے ۔وجہ صاف ظاہرہے کہ وہاں پر الیکشن کمیشن آزاد اورخود مختار ہو
تاہے ۔ حکومت کا کوئی کنٹرول الیکشن کمیشن پر نہیں ہو تا۔ انتخابات جد ید
طر یقے بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ اس بار بھی 70کروڑ وٹروں
میں سے 55کروڑ وٹروں نے اپنے رائے کا اظہار کیا جبکہ پاکستان میں 8کروڑ
وٹروں میں بمشکل چار سے سا ڑھے چار کروڑ وٹر ووٹ ڈالنے گئے تھے جس میں بھی
بہت سے جعلی ووٹ نکل آئیں ہے۔پاکستان میں شفاف انتخابات کے لیے ضروری ہے کہ
تمام دائر پیٹشنز کا فیصلہ جلد از جلد سنایا جائے ‘ الیکشن کمیشن کی تشکیل
نو کی جائے ‘ با ئیو میٹر ک نظام کا افتتاح بلدیاتی انتخابات سے کی جائے
تاکہ دھاندلی کامسئلہ حل ہو سکیں۔ خیبر پختونخوا حکومت نے الیکشن کمیشن کو
بلد یاتی انتخابات بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے کرانے کے لیے خط لکھا ہے لیکن
تاحال اس سسٹم کے ذریعے الیکشن کمیشن انتخابات کرانے سے گر یز کررہی ہے
جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بایؤ میٹرک سسٹم 2018ء میں جنرل الیکشن میں
استعمال ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف حکومت دھاندلی کے شکایات کو
دور کرنے اور پنجاب میں جن حلقوں میں پیٹشن دائر ہے ان میں مزید تاخیری حر
بے استعمال کر تی ہے یا غیر جانبداری کا مظاہر ہ کر تی ہے ‘ بصورت دیگر
احتجاج کا سلسلہ تیز ہو تا جائے گا دوسری سیاسی جماعتیں بھی سڑ کوں پر نکل
آئے گی جو ملک کے لیے ان حالات میں اچھا شگون ثابت نہیں ہوگا ۔ |