کراچی چھن گیا تو ؟؟

سابق وفاقی وزیر داخلہ عبد الرحمن ملک کی یہ خوبی رہی ہے کہ انھیں اپنے بیانات کی وجہ سے میڈیا میں سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ، ویسے تو پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر کو سنجیدہ لینا ہی نہیں چاہیے کیونکہ اُن میں خود سنجیدگی کا عنصر کم ہوتا ہے۔ لیکن عبد الرحمن ملک صاحب اپنے متنازعہ اور مزاحیہ بیانات کی وجہ سے کافی غیر سنجیدہ لئے جاتے رہے ہیں اور اب بھی سوشل میڈیا میں بھی ان کا بڑا چرچا رہتا ہے ،لیکن کہتے ہیں کہ کبھی کبھار کسی بات کو بھی سنجیدہ لے لینا چاہیے کیونکہ ہزار باتوں میں ایک بات تو عقل کی ہو سکتی ہے۔لیکن ان کاہمیں یہ سمجھ نہیں آتا تھاکہ بیانات دینے سے پہلے ہوش میں ہوتے ہیں یا بیان دینے کے بعد ہوش کھو بیٹھتے ہیں۔بہرحال ان کا معاملہ فی الحال انہی پر چھوڑ دیتے ہیں اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔

گزشتہ دور حکومت میں ان کا دل دہلانے والا ایک بیان اخبارات میں نمایاں شہ سر خیوں کے ساتھ شائع ہوا تھاکہ "کراچی چھین گیا تو حکومت کے ساتھ خفیہ ادارے بھی ذمے دار ہونگے"اس میں قابل ذکر بات یہ تھی کہ انھوں نے طالبان کو کلین چٹ دیتے ہوئے ــ"انکشاف"کیا تھاکہ شہر قائد میں طالبان دہشتگردی نہیں کر رہے۔انھیں خفیہ اداروں سے یہ شکوہ تھا کہ "خفیہ ادارے صرف رپورٹ دیکر بری الزمہ ہوجاتے ہیں،انھیں سازش کا مقام ،وقت اور تیاری کے حوالے سے بھی بروقت آگاہ کرنا چاہیے۔اگر دشمن کی سازشوں کو بروقت روکنے کے اقدامات نہیں کئے گئے تو تاریخ ،مجھے انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں کو معاف نہیں کرے گی"۔ انھوں نے ان باتوں کی وضاحت تو کی نہیں کہ ان کے نزدیک سرحد پار دشمن کون ہیں۔؟ بھارت ، امریکہ ، روس یا اسرائیل ؟۔۔وفاقی وزیرداخلہ کے بیان میں خفیہ اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار خود ایک بڑا سوالیہ نشان تو ہے ہی لیکن سب سے بڑا حیران کن لمحہ یہ تھا کہ کراچی میں طالبائزیشن کے حوالے سے بڑھ چڑھ کر بیانات اور اطلاعات دینے والے ملک صاحب نے یکدم طالبان کو کراچی کے حالات سے بری الزما یوں قرار دے دیا تھا ؟۔

ملک صاحب یہ تو بتاتے رہے کہ کالعدم تنظیمیں کراچی میں خوں ریزی کا بازار گرم کریں گی لیکن یہ نہیں بتاتے تھے کہ جب انھیں یہ تمام معلومات ہیں توپھر ان کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت کاروائی کرنے میں تامل کیوں برت رہے ہیں؟۔کراچی کے حوالے سے پوری دنیا کویہ معلوم ہے کہ انتہا پسند جماعتیں و تنظیمیں اپنی جڑیں مضبوط کرچکی ہیں اور انھیں اپنے قدم جمانے کیلئے قوم پرست اور مذہبی جماعتوں نے طالبائزیشن کے حوالے سے مخالفت کرنے کی بنا ء پر اہم کردار کیا۔کراچی کی مختلف آبادیوں میں شدت پسندوں نے پناہ حاصل کیں اور بتدریج اپنے قدم جمانے کے علاوہ اپنے مقامی نیٹ ورک کو مضبوط کیا اور بعض علاقوں میں ان کے اپنے عدالتی نظام ہیں جہاں وہ فیصلے کرتے اور سزا و جزا دیتے ہیں۔

"طالبان" کا صیغہ استعمال کرنے کے بجائے انھیں ــ" دہشت گرد "کہنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس سے کسی خاص قومیت کی جانب نشاندہی ہونے کے بجائے مخصوص مائند سیٹ کاپتہ چلتاہے۔کراچی میں کئی دہماکے ہوچکے ہیں جس میں اب خود کش دہماکے بھی شامل ہیں۔زیادہ تر دہماکے پختون آبادیوں کے نزدیک ہوئے۔ان دہماکوں میں بخاری کالونی، پیر آباد،قصبہ کالونی،ا ورنگی میٹرو سنیما ،سائٹ میٹرول سیکٹر 5،بنارس ،مظفر آباد ،اتحاد ٹاؤن ، طوری بنگش ، منگھو پیرکے علاوہ موچکو،گلشن جمال، گلشن بونیر ، گلشن حدید ، گلشن اقبال ، سبزی منڈی ماڑی پور، کھارادر،، عزیز آباد، لانڈھی اور سرجانی ودیگر علاقے شامل ہیں۔کراچی میں حساس اداروں نے 28ایسے علاقوں کی نشاندہی کی ہے کہ جہاں ملک دشمن عناصر پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں اور پولیس کا ان علاقوں میں بلا روک ٹوک جا کر رٹ قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔بلکہ پولیس اور رینجرز کی سپورٹ کے بغیر بچوں کو پولیو کے قطرے تک نہیں پلائے جاسکتے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ کراچی کی مخصوص آبادیوں میں انتہا پسند عناصر کی موجودگی ظاہر کی جاتی ہے کیونکہ ان آبادیوں میں کراچی کے دوسرے علاقوں کی بہ نسبت خود حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے۔کوئی بھی ان آبادیوں میں آکر بس جاتا ہے اور اس کے بارے میں کوئی تفصیلات اکٹھا نہیں کی جاتی کہ آنے والا نووارد شخص کون ہے؟۔کراچی کی مختلف آبادیوں میں دہشتگردی کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن کسی بھی دہشت گرد کیلئے سب سے محفوظ جگہ وہ علاقے ہوتے ہیں جہاں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا عمل دخل کم ہو اور ان علاقوں کی سرحدیں شہر کے داخلی راستوں سے اس طرح جڑی ہوں کہ بلا روک ٹوک ، ان علاقوں سے نقل مکانی کرسکیں ، کراچی کے تینوں داخلی راستے انتہا پسندوں کے کنٹرول میں ہیں۔

رحمان ملک صاحب مسئلے کی نشان دہی تو کرتے تھے لیکن انکے پاس موبائل فون بند کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا اور ابھی تک موجودہ حکومتیں بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ کراچی میں روزگار کے لئے آنیوالے کا نہ تو سیاست سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی وہ مقامی سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔ رکشہ، ٹیکسی ، بس ،مزدا چلانے والا ، مزدور پیشہ ، ملازمت پیشہ جب فجر کی اذان کے وقت گھر سے نکلتا تو رات گئے واپس آتا ہے۔فیکٹری میں کام کرنے ولا یا محنت کش جب گھر آتا ہے تو تھکن سے اتنا چورچور ہوچکا ہوتا ہے کہ ایسے سوائے نیند کے دوسرا کوئی کام نہیں سوجتا ۔پس ماندہ معاشرے میں خواتین کا کردار انتہائی محدود ہوتاہے اس لئے ان کی بڑی تعداد عملی طور پر دنیا کی سرگرمیوں سے بے خبر رہتی ہے۔تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم اعلی تعلیم تک پہنچنے سے قبل روزگارکی تلاش میں رہتے ہیں اس لئے ان کا رجحان دیگر سرگرمیوں تک کم رہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قوم پرست اور مذہبی جماعتیں اپنے مقاصد کیلئے ان کاا استعمال کرتی ہیں ۔

کراچی میں رہنے والوں کو اب خودغور و فکر کی ضرورت ہے کہ آنیوالے دنوں میں ان کا استعمال پھر کون اور کس مقصد کیلئے کرنا چاہتا ہے اس لئے کراچی والوں کو مشورہ یہی ہے کہ وہ محتاط رہیں، کیونکہ کالعدم تنظیموں اور قوم پرستوں نے اُن کو آلہ کار بنا کر ہمیشہ جانی و مالی نقصان دیا ہے اور انھیں استعمال کیا ہے۔ عبد الرحمان ملک کے بیانات اور رضا ربانی کی جانب سے موجودہ سیٹ اپ کے حوالے سے کئے جانے والے "انکشافات"معمولی نوعیت کے نہیں کہ انھیں ماضی کی طرح غیر سنجیدگی سے دیکھا جاتا رہے، لیکن افسوس کا مقام یہی ہے کہ آج تک ان معاملات کو خود عوام نے بھی سنجیدہ نہیں لیا ،انھوں نے اپنے علاقوں میں ہونے والی پر اسرار سرگرمیوں پر آنکھیں موند لیں ہیں۔ گو کہ عبدالرحمن ملک سراسمیگی پھیلانے میں یکتا ہیں اور شائد اسی وجہ سے انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی ہے لیکن ان کے انکشافات سے کراچی کی عوام میں شدید خوف و ہراس پیدا ہوگیا تھا ۔

آج بھی کاروباری طبقہ ویسے ہی پریشان ہے جیسے گزشتہ حکومت کی غیر یقینی صورتحال اور اہم حکومتی ارکان کی جانب سے دل دہلانے والے بیانات سے مزید خوف زدہ رہتے تھے۔ کراچی کی عوام تو ویسے ہی رسی کو سانپ سمجھ لیتی ہے۔ کراچی میں سازشوں کا کوئی نیا جال نہیں بُنا جارہا ہے ، بلکہ پرانے جال کو مزید تیزی سے پھیلایا جارہا ہے ، ہم محسوس کرکے بھی خاموش ہیں ، دیکھ کر بھی آنکھیں بند کرچکے ہیں ، سن کر بھی بہرے ہیں ،ہمیں خود کو بدلنا ہوگا ، اپنی نسل اپنے بچوں کو بچانا ہوگا اور ماضی کی طرح بھینٹ چڑھانے کیلئے کراچی کی مختلف قومیتوں کو قربان گاہ کی طرف ہانکا جا رہا ہے ، یہ تمام قومیتوں کو سمجھنا ہوگا ۔ صرف اتنا سوچ لیں کہ اگر کراچی کو چھین لیا تو پھر کیا ہوگا ؟اس لئے پاکستان کے ساتھ، کراچی ۔۔ہوشیار باش !!
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744844 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.