گزشتہ دنوں نائیجریا میں ایک
گروپ بوکو حرام نے اسکولوں کی 300 لڑکیوں کو اغوا کرلیا ساری دنیا میں
میڈیا پر شور شروع ہوگیا کہ نائیجریا میں شریعت اسلامیہ کا مطالبہ کرنے
والے اسلامی انتہا پسندوں نے لڑکیوں کو اغوا کرلیا ہے۔ بار بار مسلم شدت
پسند اور اسلامی انتہا پسندوں کا نام لیا جارہا ہے ابھی تو لوگوں کو یہ
سوچنے کی فرصت نہیں ملی ہوگی کہ یہ بوکو حرام کیا ہے اور کون لوگ ہیں۔ بلکہ
عوام طو رپر کسی کو اس کی فرصت نہیں ملتی جو میڈیا کان میں پھونک دیتا ہے
وہی سکہ رائج الوقت ہوتا ہے لیکن اس مرتبہ امریکا سے ایک آواز آئی ہے کہ
خبردار ذرا بریک لگاؤ۔۔۔ پیس تھرو جسٹس (انصاف کے ذریعے امن) نامی تنظیم کے
رہنما موری سلا خان نے سوال کیا ہے کہ دنیا بھر میں ہر جگہ جہاں کسی جرم یا
غلط کام میں مسلمان ملوث ہوں تو اسلامی شدت پسند، اسلامی انتہا پسند کیوں
کہا جاتا ہے۔ موری نے سوال کیا ہے کہ
یوکرائن میں باغیوں کا مذہب کیا ہے اور ان پر حملہ کرنے والی سرکاری افواج
کا مذہب کیا ہے۔ دنیا میں دیگر مقامات پر جہاں تشدد ہورہا ہے وہاں کے
متحارب گروپوں کا کیا مذہب ہے اور مین اسٹریم یا مرکزی دھارے کے میڈیا میں
یہ نام کیوں نہیں لیے جاتے صرف مسلم ملوث ہوں تو کیوں ہمارا میڈیا مسلم
مسلم کی رٹ لگانے لگتا ہے۔
موری سلا خان نے سوال کیا ہے کہ روانڈا میں قتل عام کرنے والوں کا مذہب تو
عیسائیت تھا اور میکسیکو اور کولمبیا میں منشیات کے اسمگلروں کا مذہب بھی
عیسائیت تھا جو قتل عام کرتے پھرتے تھے۔ پھر کسی میڈیا میں عیسائی انتہا
پسند، اور شدت پسند عیسائیوں کیوں نہیں کہا جاتا تھا۔
موری سلا خان کے سوالات کے ساتھ ہی دنیا سے یہ سوال بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ
دنیا میں مظالم کی داستانیں رقم کرنے والی اسرائیلی اور ہندوستانی حکومتوں
کا مذہب کیا ہے۔ آج تک کسی خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہودی انتہا
پسندوں نے صابرہ اور شتیلا کے کیمپوں پر بمباری کردی۔ ہندو انتہا پسندوں نے
کشمیریوں کا قتل عام کردیا۔ بوسنیا میں عیسائی انتہا پسندوں نے مسلمانوں کا
قتل عام کیا۔ اگر تفصیل میں جائیں تو سی این این، بی سی سی اور دیگر مغربی
ذرائع ابلاغ میں یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ انتہا پسند مسلم جرنیل الفتاح
السیسی نے 4 ہزار مصریوں کو رابعہ عدویہ میں کچل کر ہلاک کردیا۔ انتہا پسند
مسلم رہنما بشارالاسد روزانہ مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ سیسی کو تو
اپاچی ہیلی کاپٹر اور 450 ملین ڈالر کی رقم اور شاباش دی جارہی ہے۔ کشمیر
میں ظالم کی سرپرستی کی جارہی ہے اور فلسطینیوں پر مظالم کرنے والوں کی
چاکری کی جارہی ہے۔
یہاں ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بوکو حرام کیا ہے اور کس طرح اسلام کی
بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستانیوں کو یہ بات سمجھانا بہت آسان ہے۔ کیوں
کہ وہ یہ سارے تماشے صبح وشام دیکھتے رہتے ہیں۔ 2002 میں شیخ محمد یوسف نے
یہ تنظیم قائم کی تھی نائیجرین زبان میں بوکو مغربی تعلیم کو کہتے ہیں اور
حرام تو حرام کے ہی معنوں میں لیا گیا ہے۔ ہوا یوں کہ خلافت کے سقوط کے بعد
سے پورے خطے میں مغرب کے خلاف مزاحمت او رنفرت تو پائی جاتی تھی لیکن لوگوں
کے پاس ان سے نجات کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ جب شیخ یوسف نے یہ تنظیم بنائی
تو اس کا واحد مقصد یہ تھا کہ مغربی تعلیم کو دیس نکالا دیا جائے اور اپنی
قوم کو صحیح اسلامی خطوط پر تیار کیا جائے۔ چنانچہ سیکولر تعلیم، پتلوں
وغیرہ پہننے سے اجتناب کیا گیا اور میدوگوری میں ایک بڑا قطع اراضی لے کر
بہت بڑا کمپلیکس قائم کیا گیا جس میں مسجد ومدرسہ شامل تھا۔ اہل نظر لوگوں
نے یہ ادارہ قائم کیا تھا وسیع زمین حاصل کی تھی چنانچہ چند ہی برسوں میں
نائیجریا اور آس پاس کے دیگر ملکوں سے مسلمانوں نے یہاں اپنے بچوں کو داخل
کرانا شروع کردیا۔ اس تنظیم کی مقبولیت اور اس کے مدرسہ سے فارغ ہونے والوں
کی تعداد میں تیزی سے اضافے نے جمہوریت، سیکولرازم اور مغربیت کو مسلط کرنے
والوں کی نیندیں اُڑادیں چنانچہ انہوں نے اس تنظیم میں ایجنٹ داخل کردیے۔
چند برسوں میں تنظیم کے اصل بانیان ایک ایک کر کے پر اسرار طور پر شہید
ہوگئے اور 2010 تک تنظیم کی قیادت ابوبکر شیخو نامی شخص کے ہاتھ میں آگئی
جس کی دینی صلاحیت اور علم کی سطح باقی کے مقابلے میں بالکل نہیں تھی۔ 2009
میں ہی جب انتہا پسند اور قانون شکن عناصر تنظیم میں داخل ہوچکے تھے تنظیم
کی جانب سے کسی نہ کسی بہانے سرکاری اداروں پر حملے شروع ہوگئے تھے جن میں
پولیس اسٹیشن خصوصی نشانہ تھے۔ 2013 میں امریکا نے بوکو حرام کو دہشت گرد
تنظیم قرار دیا اور حکومت نے ایمرجنسی نافذ کر کے بوکو حرام کے خلاف کریک
ڈاؤن کیا۔ اس کے بعد یہ تنظیم زیر زمین اور خفیہ وارداتیں کررہی ہے۔ آگے کی
کہانی پاکستانی قوم کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ القاعدہ، افغان طالبان،
پاکستانی طالبان، پنجابی طالبان، کراچی کے طالبان، جینز والے طالبان وغیرہ
وغیرہ۔۔۔ کارروائیاں یہی ساری ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اسلام میں عورتوں
پر ہاتھ اٹھانا، انہیں تاوان کی غرض سے اغوا کرنا یا ان کو پکڑ کر لے جانا
فروخت کرنا یا اس کی دھمکی دینا سب ناجائز ہیں۔ لیکن سارا میڈیا اس حرکت کو
اسلام سے جوڑ رہا ہے۔ اور پاکستان میں مہاجر، پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچ
کے نام پر بنی تنظیمیں جو قتل کرتی ہیں وہ کس کھاتے میں جائیں گی۔
ہمارا سوال بھی یہی ہے کہ جنرل الفتاح السیسی سے سوال کیا جائے کہ 4 ہزار
لوگوں کو ٹینکوں تلے روندنا اور ان کو جلانا تو اسلام نہیں دنیا بھر کی این
جی اوز اپیلیں کررہی ہیں ان میں مسلمانوں کی این جی اوز بھی شامل ہیں۔ ہاں
بوکو حرام سے اپیل کی جائے کہ بچیوں کو رہا کرو۔۔۔ لیکن خدا کا خوف کرو جرم
کرنے والا مجرم ہوتا ہے۔ مسلمان، عیسائی، ہندو یا یہودی نہیں۔ تو میڈیا صرف
مسلم انتہا پسند اور شدت پسند کا نام کیوں لیتا ہے۔۔۔ ایک وقت آئے گا کہ اس
میڈیا کے لیے بھی کوئی آواز نہیں اُٹھائے گا کیوں کہ یہ خود ساری آوازوں کو
دبا چکا ہوگا۔
مظفر اعجاز |