کیا وزیراعظم نواز شریف کو نریندر مودی کی حلف برداری میں ضرور جانا چاہئے
( مُحمداعظم عظیم اعظم, کراچی)
کیاہم اکیلے رہ کراپنے دُشمنوں کا مقابلہ
کرپائیں گے...؟
آج ہندوستان میں پاکستان کے ازلی مخالف اور ہندوستان میں ہندومسلمان فسادات
کے سب سے بڑے سازشی کردار مسلم بلڈّی(مسلمانوں کے خونی) مسٹر نریندرمودی کی
حکومت بن چکی ہے اورپاکستان کے وزارتِ خارجہ کے مطابق ہندوستانی ہائی کیمشن
کی جانب سے ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی کی 26مئی بروزپیر کو ہونے والی
تقریب حلف برداری میں ہمارے وزیراعظم میاں محمدنوازشریف کو شرکت کا دعوت
نامہ بھی موصول ہوچکاہے اورترجمان ِ وزارتِ خارجہ کے مطابق نرریندرمودی کی
تقریب حلف برداری میںشرکت کے حوالے سے غوری جاری ہے، اَب ایسے میں یہاں یہ
سوال پیداہوتاہے کہ کیا وزیراعظم نوازشریف کو پاکستان مخالف نریندرمودی کی
تقریبِ حلف برداری میںجانا چاہیے کہ نہیں ...؟اِس حوالے سے ہمارے یہاں
مختلف اقسام کی آراسامنے آرہی ہیں کسی کے نزدیک وزیراعظم کا جانا یوں ٹھیک
نہیں ہے کہ ہمارے اِس طرح کے لچکداررویئے سے نئے ہندوستانی وزیراعظم یہ
سمجھ بیٹھیں گے کہ پاکستان ہم سے دب رہاہے اور اَب اِسے مزیددبایا جائے اور
اِس سواررہاجائے مگرکچھ کاخیال یہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کو ہندوستان کے
نئے وزیراعظم مسلم بلڈّی(مسلمانوں کے خونی)مسٹر نریندرمودی کی حلف برداری
کی تقریب میں ضرورجاناچاہئے کیوں کہ ہندوستان نے دعوت دے کر پہلے دوستی کا
ہاتھ بڑھایاہے اور ہمیں بھی اِس کا مثبت جواب دیناچاہئے آج اگر ہم نے
انکارکیا تو پھر گیند ہندوستان کے کورٹ میں ہوگی اور یہ ساری دنیا میںہمارے
اِس رویئے کو منفی انداز سے پیش کرکے طرح طرح کے پروپیگنڈے کرتارہے گاتو
اَب راقم الحرف کا بھی اِس موقعہ پر وزیراعظم نواز شریف سے یہ کہنااور
اِنہیں یہ مشورہ دیناہے کہ ” مصالحت پسندی سے کام لیتے ہوئے ہمارے وزیراعظم
نوازشریف کو مسٹرنریندرمودی کی حلف برداری کی تقریب میں دونوں ممالک کے
باہمی تعاون سے خطے میں امن اور ترقی اور عوام خوشحالی کے لئے اپنے
چندانتہائی اہم نکات کے ساتھ ضرورشرکت کے خاطر ہندوستان جاناچاہئے اور اِس
تقریب میں اپنے ایجنڈے کے اہم نکات پیش کرکے ہندوستانی وزیراعظم
مسٹرنریندرمودی کو قائل کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے کہ مسٹرمودی جی۔۔۔ہم
اور آپ خطے میں اپنی اپنی ایٹمی طاقتو ں کے لحاظ سے اِنتہائی اہم ممالک ہیں
اور ہندوستان کا خطے میں خواہ مخواہ جنگی جنون میںمبتلارہنانہ صرف خطے کی
ترقی اور خوشحالی کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے بلکہ ہندوستان کے ایک ارب سے
بھی زائد اِنسانوں کو اِن کے بنیادی حقوق سے محروم رکھناہے بھی ایک بڑاجرم
ہے پہلے ہندوستان جنگی جنون سے باہر آئے اور اپنی عوام کو سہولیاتِ زندگی
مہیاکرے تو پھر ہم بھی اپنی عوام کی بہتری کے لئے سوچیں گے۔
یقین جانیئے کہ ہمارے وزیراعظم نوازشریف کی ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی
کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے نئے ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی پر یہ
تاثر ضرورجائے گاکہ میری خوشی کی ایک دعوت پر پاکستانی وزیراعظم چلے آئے
اِس کا مطلب یہ ہواکہ پاکستان ہندوستان سے محبت اوربھائی چارگی کا متلاشی
ہے مگراور نریندرمودی یہ بھی ضرورسوچیں گے کہ شاید ہم ہندوستانی ہی بُرئے
ہیں اور پھر یوں وزیراعظم نوازشریف کا ہندوستان جانے سے جہاں پاکستان میں
20کروڑ اور ہندوستان کے تقریباََ62/60کروڑ سے زائدجومسلمان ہیں اِن کا بھی
ا میج ہندوستان کے شدت پسند ہندو ¿ں میں بلند ہوگااور وہ بھی یہ سوچنے پر
ضرورمجبور ہوں گے کہ واقعی مسلمان ایک امن پسنداور محبتیںباٹنے والے دین کے
پیروکار ہیںاور یہی سوچ خطے میں یقیناایک مثبت تبدیلی کی ابتداہوگئی۔
بہرحال ...!! آج کیاہم موجودہ حالات میں اپنے اندرونی اور بیرنی خطرات میں
گِھرکر اپنے نئے او ر پرانے دُشمنوں سے مقابلہ کر پائیں گے..؟ جبکہ آج
ہمارے ایک طرف ہندوستان سے نریندرمودی دوسری طرف افغانستان سے عبداللہ
عبداللہ جیسے پاکستان کے بارے میں کھلم کھلا مخالفت کرنے اور پاکستان سے
متعلق جنگی عزائم رکھنے والے دُشمن برسرِاقتدارآچکے ہیں تو وہیں ہمار ی
تیسری طرف ایران ہے جی ہاں وہ ایران جس سے گزشتہ کئی ماہ سے ہمارے تعلقات
کا یہ حال ہے کہ یہ کبھی ٹھیک رہتے ہیں تو کبھی ہماری یا اُس کی طرف سے
کوئی شیطان اپنی شیطانی کر کے تعلقات خراب کرادیتاہے ، اَب اور یہ بھی ہمیں
وقتاََفوقتاََ ہمیں اپنی آنکھیں دکھاکر گھورنے لگاہے اَب ایسے میں جب کہ
ہمارے تینوں اطراف دُشمن گھات لگائے بیٹھاہو توکیا اِن حالا ت میں ہمیں آپس
کی چھوٹی چھوٹی رنجیشوں میں پڑکر اپنی ملی یکجہتی اور یگانگت کا شیرازہ
بکھیردیناچاہئے یااِن حالات میں کہ جب دُشمن ہم پر موقعے کی تلاش میں
ہوتوکیاایسے میں ہمیں خودکو متحد کرکے دُشمنوں کی سازشوں اورآنے والے خطرات
کا مقابلہ نہیں کرناچاہئے...؟آج یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میںہر محب وطن
پاکستانی کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے اورآئندہ کے لئے ایسالائحہ عمل
اختیارکرناچاہئے کہ جس سے ہم اپنے دُشمنوں سے مقابلہ کرسکیںاور اِن کی اپنے
خلاف بُنی گئیں سازشوں اور اِن کی جانب سے مستقبل میں آنے والے خطرات کامنہ
توڑجواب دے سکیں۔
اگرچہ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہہندوستان کے متوقعہ وزیراعظم
مسٹرنریندرمودی خصلتاََ بھی شدت پسندہندو ہیں اور اِن کا تیس سالہ سیاسی
کیئربھی اِس کا واضح ثبوت ہے کہ اِنہوں نے ہندوستان اور خطے میں جتنی بھی
سیاست کی اُس کی بنیاد پاکستان مخالفت پہ ہی قائم ہے،آج مستقبل میں
ہندوستان کے نئے متوقعہ وزیراعظم مسٹرنریندرمودی کو اِس کا کریڈٹ جاتاہے کہ
خطے میں پاکستان مخالفت ہی اِنہیں ہندوستان کا متوقعہ وزیراعظم بنانے کی
وجہ بنی ہے،ورنہ کہاں مسٹرنریندرمودی جیسا شدت پسندمردوداور کہاں ہندوستان
کی وزارتِ عظمیٰ کا منصب یہ دونوں ہی علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں۔
آج اِس سے بھی انکار نہیں ہے کہ ہندوستان کی ایک ارب سے زائدآبادی نے
مسٹرنریندرمودی کو اپنے مُلک کا مستقبل کا وزیراعظم چن لیاہے، مختصریہ کہ
اَب نئے ہندوستانی وزیراعظم مسٹرنریندرمودی کو بھی اپنی شدت پسندسیاست کو
خیرباد کہہ دنیاچاہئے اور خطے میں نئے انداز سے سیاسی شروعات کے لئے اپنی
ایسی مثبت اور تعمیری سیاست کا آغازکرناچاہئے کہ جس سے خطے میں امن کی
آشاکو فروغ حاصل ہو، اور پاکستان اور ہندوستان جو خطے میں اپنے اپنے لحاظ
سے زبردست ایٹمی طاقتوں کے حوالے سے ایک مقام رکھتے ہیں اِن دونوں ممالک کے
عوام کے مسائل حل ہوں، اور ایک لمبے عرصے سے خطے میں ہندوستانی جنگی جنون
کی وجہ سے جو جنگی ماحول بناہواہے وہ بھی ختم ہواور دونوں ممالک مثبت اور
تعمیری حوالوں سے اپنے اپنے راستوں پر ترقی کریں اور اپنے عوام کو اِن کے
غضب شدہ بنیادی حقوق دیں ، اور اپنا سارابجٹ دفاعی صلاحیتوں میں لگانے کے
بجائے یہی بجٹ اپنے عوام کی فلاح و بہبودپر خرچ کریں تویقیناپاکستان اور
ہندوستان نہ صرف خطے میں بلکہ ساری دنیامیں امن و آشی کا ایک ایساگہوارہ بن
کر اُبھریں گے کہ اِس طرح یہ دونوں ممالک رہتی دنیا تک اپنی مثال قائم
کردیں گے۔
آج دنیا اِس بات کی گواہ ہے کہ ہندوستان نے ہمیشہ پاکستان سے مخاصمت رکھی
ہے اور اِس نے ہمیشہ اپنے قول وفعل سے خطے میں خودکو پاکستان کا ایک زبردست
حاسدبناکر پیش کیاہے، اور یہ بھی کہ ہمیشہ ہندوستان نے خطے میں اپنی
چوہدراہٹ قائم کرنے اور نمبرون بننے کی چاہ میں دنیابھر میں پاکستان کی
مخالفت کو اپنے دین دھرم کا حصہ بنائے رکھااور کسی بھی لمحے کوئی ایک بھی
ایسا موقعہ اپنی زبان اور فعل سے نہیں جانے دیاکہ ہندوستان نے دنیاکے کسی
بھی پلیٹ فارم سے پاکستان کی کھل کر مخالفت اور منفی پروپیگنڈے کو ہوانہ دی
ہو۔مگرآج پاکستان سے متعلق ہندوستان کی اِس بُری خصلت کے باوجودبھی ہر
پاکستانی جو ہندوستان کو اپناایک پڑوسی گردانتاہے، اور اِس کے دُکھ اور
سُکھ کو اپناجانتاہے، آج ہر پاکستانی کی بس یہ خواہش ہے کہ ہندوستان خطے
میں امن و سکون اور ترقی اور خوشحالی کے خاطر پاکستان کی حیثیت اور اہمیت
کو اتنی ہی جانے جتنی کہ ہندوستان اپنی اہمیت اور حیثیت کو قدر کی نگاہ سے
دکھتاہے، اَب ہندوستانیوں اور ہندوستانی حکمرانوں کو خواہ وہ نریندرمودی
ہوں یا کوئی اور اِنہیں یہ بات ضرور تسلیم کرلینی چاہئے کہ خطے میں امن
وآشتی اور ترقی وخوشحالی کا خواب پاکستان کی تعبیرکے بغیر دیکھنا فضول ہے،
جب تک ہندوستان اپنے ساتھ ساتھ پاکستان کی حیثیت اور اہمیت کو اولیت اور
ترجیح نہیںدیگاتب تک خطے میں امن اور ترقی اور خوشحالی نہیں آسکتی ہے ۔ |
|