ہندستان کے نقشے کا نیا رنگ

جنوبی افریقہ میں21سالہ سیاسی تجربہ کے بعد جب بیرسٹر موہن داس کرم چند گاندھی نے سنہ 1915میں وطن واپسی پر سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو پہلے ہی دن ٹائی ،سوٹ اور بوٹ کواتار کر کھونٹی پر ٹانگ دیا اور گھٹنوں سے زرانیچی دھوتی اورچادر کا بانا اختیارکیا۔ہاتھ میں ایک لٹھیا بھی تھام لی۔ اسی سال جب ان کی گجراتی بنیا برادری کے نامورچودھری جیت پورکے ’نگرشیتھ‘ نیوتامل بی مہتہ نے ان کو کامری بائی اسکول میں بلاکر ’مہاتما‘ کا خطاب دیا، توبیرسٹرایم کے گاندھی کو کوئی تکلف نہیں ہوا ۔ ہرچند کہ جس عاجزی کا اظہار ان کے نئے لباس سے ہورہا تھا ،اس کا تقاضا تھا کہ وہ انکساری کے ساتھ خود کو’مہاتما‘ کہلوانے سے منع کر دیتے ۔ مگر نہیں کیا۔ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کیا ہوسکتی ہے کہ وکالت سے سیاست میں آنے والے مسٹر گاندھی اس حقیقت کوسمجھتے تھے کہ ہندستانی عوام کے دلوں کورام کرنا ہے تو ’مسٹر گاندھی‘ کے بجائے’ مہاتما گاندھی‘کا جادو زیادہ چلے گا۔ انہوں نے اس نسخہ کیمیا کو مسلمانوں پر بھی آزمایا اورتیربہدف پایا۔وہ خلافت تحریک کا حصہ بن گئے۔ چنانچہ مولانا محمدعلی جوہر اور مولانا ابوالکلام آزاد کے لئے بھی ’مہاتما ‘بن گئے۔ مدعا اس تفصیل کو بیان کرنے کا یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاست کے میدان میں بھی مذہب کا سکہ چلتا ہے۔ اگر ’مہاتما ‘ گاندھی نے اس سے گریز نہیں کیا تو دوسروں پراعتراض کیسے کیا جائے؟
خطائے بزرگاں گرفتن خطا است
بوقت ضرورت روا است، روا است

کانگریس اصلاًآزادی کی تحریک تھی۔ اس میں شامل ہونے کا مطلب تھا تحریک آزادی میں شامل ہوجانا۔ چنانچہ اس میں شامل آزادی کے پروانوں میں ہر مزاج اور خیال کے لوگ تھے ۔ ان میں بڑی تعداد احیاء پرست ہندوؤں کی تھی۔ گاندھی جی نے بھی اپنے طریقے سے اس ذہنیت کی آبیاری کی ۔ ہریجنوں کو ہندو بنائے رکھنا، سومناتھ مندر کی تعمیر نو، ملک کی مروجہ زبان اردو کے بجائے ہندی کو آزاد ہندستان کی زبان بنایا جانا وغیرہ، ان کے ہی کارنامے ہیں۔ مگر ان کی ہندو نوازی سیاسی زیرکی کے ساتھ تھی۔وہ راسخ العقیدہ تو تھے مگرشدت پسند نہیں تھے۔ کچھ اثر شاید ان پر مسلمان گجراتی تاجروں سے مراسم کا بھی تھا جنہوں نے ان کوجنوبی افریقہ بلا کررکھا تھا۔ چنانچہ غیرہندوؤں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتے۔ اسی کا نام سیکولرزم رکھا گیا۔ ان کی زندگی میں اور ان کے بعد کانگریس نے بھی چاہا کہ اسی ڈگر پر چلتی ہوئی نظر آئے، اگرچہ وہ بارہا لڑکھڑائی۔اس کا یہ لڑکھڑانا مسجد میں مورتیاں رکھوانے، غیر ہندو ایس سی؍ ایس ٹی کو ریزرویشن سے محروم رکھنے اور سرکاری ملازمتوں کے دروازے مسلمانوں پر تنگ کردینے سے ظاہر ہے۔ لیکن بہر حال ان کے دل ودماغ اور ووٹ پر بھی قابض رہنے کے لئے نعرہ سیکولرزم کا لگایا جاتا رہا اور کام اس کے الٹ کئے جاتے رہے۔بقول منیر نیازی:
شکوہ کریں تو کس سے، شکایت کریں تو کیا!
ایک رائگاں عمل کی ریاضت کریں تو کیا!

ڈاکٹر ہیڈگوار
آر ایس ایس کے بانی ڈاکٹر کیشو بالی رام ہیڈگوار بھی تقریباً اسی دور کی شخصیت ہیں جو گاندھی جی کا دور تھا۔ انہوں نے سنہ1925 ء میں ملک میں ہندو احیا پرستی کے لئے، بلکہ کہنا چاہئے کہ ہندوؤں کی زورزبردستی اور بالادستی قایم کرنے اور غیرہندوؤ ں کو عملا باہر کاراستہ دکھانے کے لئے آرایس ایس قائم کی۔ ہیڈگوار اور گاندھی جی میں بنیادی فرق یہ ہے گاندھی جی مقصد کے ساتھ ذریعہ کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں۔ وہ اعلا سے اعلا مقصد کو بھی حاصل کرنے کیلئے غیرمعیاری یا غیر اخلاقی ذریعہ اختیار کرنے کے خلاف تھے اور یہ انہوں نے عملاً کرکے بھی دکھایا۔ وہ کہتے تھے اعلا مقصد اعلا ذریعہ سے ہی حاصل ہوتا ہے ۔ جبکہ ہیڈگوار کے فرزندوں کا نظریہ یہ ہے کہ ذریعہ چاہے جیسا ہو، مقصد حاصل ہونا چاہئے۔ نریندر مودی کی 20 سال کی سیاست اسی نظریہ پر قائم ہے اور گاندھی کے ہندستان میں حالیہ لوک سبھا الیکشن میں اس نظریہ کا جادوچل گیا ہے۔ انہوں نے عوام کو ورغلانے اور ووٹ پانے کے لئے جس طرح جھوٹ اور فریب کا حربہ اختیار کیا،دوسروں کی پگڑیاں اچھالیں، بیجا الزام لگائے، کردارکشی کی، وہ کتنا ہی بڑا گناہ کیوں نہ ہو، بیشک ان کے اور ان کے مداحوں کے ضمیر پربوجھ نہیں ہوسکتا۔ یہ روش ہندودھرم کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ ان آدرشوں کے خلاف ہے جو رام چندر جی سے منسوب ہیں اور جن کی بدولت ان کو علامہ اقبالؔ نے ’اما م ہند ‘ تسلیم کیا ہے۔
ہے رام کے وجود پہ ہندستان کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں ان کو امامِ ہند

ہم ملک اور قوم کے لئے اس نظریہ اور وطیرہ کو سخت مضرسمجھتے ہیں جو مودی نے اختیار کیا۔اسی لئے ان کی مخالفت کرتے ہیں۔

قوم کا اتحاد
قوم متحد ہو، اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر یہ اتحاد مثبت بنیادوں پر ہونا چاہئے۔ جمہوریت میں اختلاف و اتحاد پالیسیوں کی بنیاد پرہوتا ہے۔ شخصیات ، ذات، برادری اور دھرم کے نام پر نہیں ہونا چاہئے۔ ہندوؤں کا اتحاد گاندھی جی کو بھی عزیر تھا۔ چھواچھوت کے خلاف ان کی مہم اسی مشن کا حصہ ہے۔ مگر ہیڈگوار کی تحریک مثبت بنیادوں کے بجائے منفی انداز فکر پر آگے بڑھی۔ اول دن سے ہی سنگھ نے ہندوؤں کو ورغلانے اور غیرت دلانے کے لئے نعرہ تودیش اور دھرم کا لگایا مگر کام سب ادھرم اورقوم کو توڑنے کے کئے۔ان کا سب سے نمایاں حربہ اقلیت کے خلاف جذبات کو بھڑکانا اور دشمنی کے بیج بونا ہے۔ آج ملک بھر میں مسلم اور عیسائی اقلیت کے خلاف بھولے بھالے ہندوؤں کے ذہن میں جو نفرت، حقارت اور خوف ہے، وہ اسی تحریک کا کیا دھرا ہے۔اس میں کچھ کردار گاندھی اور نہرو کے نام پرسیاست کرنے والوں کا بھی ہے۔ انہوں نے حکومت میں رہتے ہوئے اقلیت دشمن سرگرمیوں کی ان دیکھی ہی نہیں کی بلکہ سرپرستی بھی کی۔ سیکولرزم کا نعرہ تو لگایا مگر اس کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا۔ چنانچہ اسی دیو نے، جس کو وہ اپنے پیٹھ پیچھے چھپائے رہے اور دودھ پلاتے رہے، سامنے سے آکر ان کو دبوچ لیا ہے۔

مسلم قیادت کی ناکامی
ہم مسلمانوں کو بھاجپا کے کسی لیڈر سے کوئی شخصی عناد نہیں ہے۔ اختلاف ان کے سنگھی نظریہ سے ہے۔ ایمرجنسی کے دوران جیلوں میں افہام و تفہیم کا ایک دور شروع ہوا۔ جمہوریت اورقومی یک جہتی کی بقانقطہ اتحاد بنا۔ یہاں تک کہ جب ایمرجنسی کے بعد اس وقت کی جن سنگھ کو ملاکر جنتا پارٹی بنی تو مسلمانوں نے بلاجھجک ان امیدواروں کو بھی اپنا امیدوارجانا جو خالص سنگھی تھے۔ جیلوں سے رہائی کے بعد بھی جماعت اسلامی ہند نے آرایس ایس کے لیڈروں سے طویل مدت تک مکالمہ جاری رکھا۔ انفرادی تعلقات پر توان ملاقاتوں کا خوشگوار اثر نظرآیا مگر نتیجہ کچھ برآمد نہیں ہوا۔چنانچہ ایک مختصر مدت کے بعد ہر انتخاب کے موقع پر مسلم قیادت کی عمومی پالیسی یہ قرار پائی کہ مسلمان اپنا ووٹ بھاجپا امیدوار کو ہرانے کے لئے دیں، اس سے کوئی غرض نہیں کہ کس پارٹی کو جتانا ہے۔ بس جو جیتتا ہوا دکھائی دے، اس کے ساتھ ہولو۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ یہ حکمت عملی سخت ناکامی سے دوچار ہوئی اور اس سے الٹا بھاجپا کو تقویت حاصل ہوئی ۔ ان اپیلوں کے نتیجہ میں مسلم ووٹ توکہیں بھی ایک ناکے میں سے نہیں نکلا ، البتہ ردعمل کے طورپرہندوووٹ ضرور متحد ہو گیا۔ ہماری قیادت یہ قیاس کرنے میں ناکام رہی کہ 20 فیصد مسلم رائے دہندگان تو متحد ہونہیں سکتے، اگر ان اپیلوں کے ردعمل میں 20فیصد غیرمسلم متحد ہو گئے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ اسی لوک سبھا الیکشن میں اس کا مشاہدہ خوب ہوا ہے۔ مسلم ووٹ منتشر ہوگیا جبکہ 31فیصد ہندو ووٹ متحدہو گیا۔ نتیجہ سامنے ہے۔ این ڈی اے کو 336سیٹیں ملیں جن میں بھاجپا کی 282ہیں اور اس کو تنہااکثریت حاصل ہوگئی۔ یہ صرف 31فیصد ووٹ کا کرشمہ ہے۔

ان نتائج کا دوسرا پہلو یہ ہے ، جو سخت تشویشناک ہے کہ اگرچہ یہ نتائج بالغ رائے دہی کے ذریعہ حاصل ہوئے ہیں مگر جمہوریت کی روح مجروح ہوگئی ہے۔ ایک فرقہ کی بالادستی (Majoritism) اور اس پر ایک ایسے نظریاتی گروہ کا تسلط جو تکثیری معاشرے میں جمہوریت کی اصل روح یعنی’ سب کی نمائندگی اور قانون کی بالادستی‘ کے اصول کا قائل نہیں، جو عوام میں اپنی دھاک بٹھانے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کی تاریخ رکھتا ہے، کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ بھاجپا کے منشور میں یکساں سول کوڈ ، آئین کی دفعہ 370کو ختم کرنا اور رام مندر کی تعمیر شامل ہیں۔ مودی اور ان کی نظریاتی ’ماں‘ آرایس ایس کھل کر سیکولرزم کو مسترد کرچکے ہیں۔مگریہ حقیقت یاد دلاتے رہنے کی ہے کہ نئی سرکار کے حق میں صرف 31فیصد ووٹ پڑا ہے۔69 فیصد رائے دہندگان نے اس کی تائید نہیں کی ہے۔ نئی سرکار کو اخلاقاً یہ اختیار نہیں ہے کہ آئین یا قومی پالیسی کی بنیادوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے۔ سنگھی ذہنیت کیونکہ اخلاقیات کی قائل نہیں، اس لئے عوام کو ذہنی طور سے ہر صورتحال کے لئے تیار رہنا چاہئے ۔

حکمت عملی کیا ہو؟
دیکھنا یہ چاہئے کہ نئی حکومت بے روزگاری، کرپشن اور مہنگائی کے خاتمہ کے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے کیا کرتی ہے؟ ہمارا قیاس یہ ہے مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جو سپنے دکھائے ہیں، ان کی تعبیر بہت مشکل ہے۔عوام بہت جلد بددل ہوجایا کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں مسلم قیادت، صحافت اور اپوزیشن کوکیا لائن اختیار کرنی چاہئے؟

ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلم قائدین اور صحافی دوستوں نے ابھی سے مشورے دینے شروع کردئے ہیں کہ اقلیت کو مطمئن کرنے کے لئے نئی سرکار کو کیا کرناچاہئے؟ ہمارے خیال سے یہ وقت خاموشی سے مشاہدہ کرنے کا ہے۔ سال چھ ماہ گزرجانے دیجئے اور پھر سوال پوچھئے کہ بے روزگاری ،کرپشن اور مہنگائی ختم کرنے کا وعدوں کا کیا ہوا؟ان سوالات پر مہم چلانے کے لئے کمر کس لیجئے، اس کے لئے پہل کیجئے ، امید ہے کہ 2014کے چناؤ نے جو فرقہ ورانہ خلیج پیداکردی ہے ،اقلیت اپنے آپ کو علیحدہ محسوس کرنے لگی ہے، اس میں اس مہم کی بدولت کمی واقع ہوگی۔ جہاں تک ہمارے مخصوص مسائل ہیں، جن کو وعدوں وعیدوں کے باوجود ان پارٹیوں نے پورا نہیں کیا جن کو جتانے کے لئے جی جان لڑادی ، تو اس حکومت کے سامنے دست سوال کیوں درازکرتے ہیں جو پہلے ہی کہہ چکی ہے، ہمیں کسی مخصوص فرقے کے لئے کچھ نہیں کرنا اور جس کے خلاف آپ ہمیشہ ووٹ دیتے رہے ہیں۔

نوازشریف کودعوت
مندرجہ بالاسطور لکھی جاچکی تھیں کہ خبرآئی کہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے دورہ پاکستان کی دعوت کے جواب میں نریندر مودی نے ان کو 26مئی کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ نوازشریف کو اس دعوت کو قبول کرنا چاہئے ۔ یہ ایک اچھی پہل ہے جس کا بہرحال کھلے دل سے خیرمقدم کیاجانا چاہئے۔

آخری بات
ہم نے شروع میں گاندھی جی اور ہیڈگوار کا ذکر کیا تھا۔ عالم برزخ ان تک اگر خبررسانی کی کوئی صورت ہوگی، تو ان نتائج سے دونوں خوش ہونگے۔ آزادی کے بعد گاندھی جی چاہتے تھے کہ کانگریس کو توڑ دیا جائے کیونکہ اس کا کام ختم ہوا۔ اس میں شامل لیڈر اپنے اپنے نظریات کی بنیاد پر پارٹیاں بنالیں۔مگر اس وقت کانگریس قیادت کوملک پر حکمرانی عزیز تھی۔ان کا مشورہ نہیں مانا۔ اب ایک دوسرے گاندھی کے ہاتھوں کانگریس کو ختم کرنے کاکام ہوگیا ہے۔کانگریس کے قائدین کو ناگہانی گرفتار ہزاروں بے بسوں کے انسانی حقوق کی پامالی سے تکلیف نہیں ہوئی، ہم جنس پرستوں کے ’حقوق‘ کے لئے بلبلا اٹھے اور قوم کے ہاتھوں سزایاب ہوئے۔

ہیڈگواراس لئے خوش ہونگے کہ ان کا سپنا ساکار ہوا۔ آخرکار ملک کے نقشہ کا رنگ بھگوا نظرآنے لگا ہے۔ مگر بھگوا جھنڈے والوں کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہندستان کا رنگ بھگوا ہوگیا ہے۔ان کو صرف 31فیصد ووٹ ملا ہے۔ اس میں بھی بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اس گمان میں ہیں کہ مودی آئیں گے توبے روزگاری، رشوت خوری اور مہنگائی کو بہا لے جائیں گے۔خدا کرے مودی عوام کی ان آرزوؤں کو پورا کرسکیں ؟ ہم منتظررہیں گے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164223 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.