ایمنسٹی انٹر نیشنل کی پاک افواج کیخلاف گھناؤنی سازشیں

ایمنسٹی انٹر نیشنل کی بنیاد ایک وکیل پیٹر بینسین نے بظاہر اُن مملکتوں کو زجر و توبیح کو نشانہ بنانے کیلئے رکھی جواینی حکومتوں میں مختلف طریقوں سے انسانوں پر ظلم و ستم کرتے ۔ پیٹر بینسین کا جذبہ محرکہ1961ء کی پرتگالی حکومت کے ایک آمر انتونیو سالازار بنا،جس نے اپنے ملک میں آزادی رائے پر قدغن لگا رکھی تھی ، واقعہ مشہور ہے کہ لزبن شہر کے ایک ریستوران میں دو طلبہ نے آزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے جام چڑھائے تھے ، جس پر حکومت مشتعل ہوئی اور انھیں سات سال کی سزا سنا دی گئی ۔ لندن کے وکیل پیٹر بینسین نے اس واقعے سے متاثر ہوکر ایمنسٹی انٹر نیشنل کی بنیاد رکھی۔لیکن اس تنظیم پر بھی آہستہ آہستہ تعصب کے شکار سیاسی لوگ قابض ہوگئے ، اظہار رائے اور صحافت کے عالمی دن کی مناسبت سے ایمنسٹی انٹر نیشنل نے ایک بار پھر متنازعہ رپورٹ جاری کی ، جس پر مقتدر حلقوں و سیاسی جماعتوں نے شدید اعتراضات کئے۔ صحافت سے وابستہ ہونے کے سبب میرے لئے ضروری تھا کہ میں ایمنسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹ کو غیر جابنداری کے توازن میں پرکھوں ، کہ پاکستان کے حوالے سے ماضی میں ایمنسٹی انٹر نیشنل نے جس طرح متنازعہ رپورٹنگ کرکے مملکت کے عسکری اداروں کو دنیا بھر میں بد نام کرنے کی جسارت کی ہے ، آیا حالیہ رپورٹ میں ایمنسٹی انٹر نیشنل کی روش برقرار ہے یا نہیں ۔کیونکہ ایمنسٹی انٹر نیشنل کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ قومی سلامتی کے اداروں کو بد نام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔

دسمبر2012ء میں ایمنسٹی انٹر نیشنل کی جانب سے 93صفحات پر مشتمل ایک متنازعہ رپورٹ جاری کی گئی تھی، جس میں خاص طور پر پاکستانی افواج اور حساس اداروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی،خاص طور پر عسکری اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ "پاکستان انسانی حقوق کی پامالی روکنے میں ناکام ہے۔"ایمنسٹی انٹر نیشنل بحرالکاہل کی ڈپٹی ڈائرکٹر ٹرواسکاٹ نے وائس آف امریکہ سے اپنی خصوصی گفتگو میں قبائلی عوام کے حوالے سے ایسا تاثر دیا کہ جیسے پاکستانی فوج وہاں کی عوام پر ظلم و ستم ڈھا رہی ہو اور یہ علاقے پاکستان کا حصہ نہ ہوں بلکہ ان پر جبری طور پر قبضہ کیا گیا ہو ، ان کا مزید کہنا تھا کہ" پاکستانی فوج کو 2011ء میں بغیر کسی جرم کے غیر معینہ مدت تک گرفتار کرنے جیسے قوانین اور اختیارات سے قبائلی عوام پریشان اور مصیبت میں مبتلا ہیں۔"ایمنسٹی انٹر نیشنل نے دعوی کیا کہ"فاٹا کے اکثر علاقوں میں پاکستانی افواج اپنا کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں لیکن ہزاروں کی تعداد میں لاپتا قبائلی نوجوانوں کی اکثریت ایسے کیسز میں پاکستانی حکام پر ملوث ہونے کے سنگین الزمات بھی عائد ہیں"۔2012ء میں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے ایمنسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹ پر تبصرے سے گریز کرتے ہوئے وزرات خارجہ سے رجوع کرنے کو کہا لیکن ملکی سلامتی کے ادارے نے فوری طور پر ایمنسٹی انٹر نیشنل کی من گھڑت رپورٹ کا پردہ چاک کیا۔

13دسمبر2012ء کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے فوج پر لگائے جانے والے الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے اس رپورٹ کو پاکستان اور اس کی مسلح افواج کے خلاف گھناؤنی سازش و پروپیگنڈے کا حصہ قرار دیا،بیان کے مطابق مزید کہا گیا کہ" ایمنسٹی انٹر نیشنل نے یہ ایک ایجنڈے کے تحت من گھڑت کہانیوں کو توڑ مروڑ کر تیار کیا ہے"۔

اپریل2014ء میں ایمنسٹی انٹر نیشنل نے دوبارہ حامد میر کیس کو بنیاد بناتے ہوئے حساس اداروں پر الزام عائد کیا کہ صحافیوں کو ایجنسیوں سے بھی خطرات لاحق ہیں، ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ایشا بحر الکاہل کے ڈپٹی ڈائرکٹر ڈیوڈ گریفتھس کے مطابق اس رپورٹ کی تیاری کیلئے70واقعات کی تفصیل سے تحقیقات کی ہیں اور 100سے زیادہ صحافتی کارکنوں کے انٹرویو کئے گئے، جبکہ34قتل ہونے والے صحافیوں کی روداد بھی شامل کیں ہیں ، رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ متعدد صحافیوں نے ایمنسٹی کیساتھ انٹرویو میں یہ شکایت کی کہ انھیں ایسے افراد کیجانب سے ہراساں یا حملوں کا نشانہ بنایا گیا جو ان کے بقول خفیہ فوجی ایجنسی آئی ایس آئی سے تعلق رکھتے ہیں۔

آئی ایس آئی پر سنگین الزام ایک بار پھر لگایا گیا کہ وہ دہمکی آمیز فون سے لیکر تشدد ، اغوا ، عقوبت خانے ، بد سلوکیوں اور بعض صورتوں میں ہلاکت میں بھی ملوث ہیں۔دسمبر2012ء میں بھی عسکری اداروں کو مشکوک بنانے اور بین الاقوامی طور پر بدنام کرنے کی سازش کی گئی تھی جس کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایسی نام نہاد رپورٹوں کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا گیا۔جبکہ آئی ایس پی آر نے پاکستانی صحافی سلیم شہزاد قتل کیس میں ہیومن رائیٹس واچ کے ڈائرکٹر برائے ایشا بریڈ ایڈمز پر سخت تنقید کرتے ہوئے قتل میں ISIکے ملوث ہونے کے الزام کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ انھوں نے نہ صرف عدالتی کمیشن کی ساکھ کو خراب کیا بلکہ آئی ایس آئی کو بدنام کیا ، یہ واضح ہے کہ مسٹر ایڈمز کی سوچ اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت تعصب کا شکار ہے۔

ایمنسٹی انٹر نیشنل کی جانبداری کی ایک مثال اور جھوٹ کے پلندے کے حوالے سے بطور گواہ آپ سب کے سامنے خود کو ذاتی طور پر پیش کرونگا کہ16 نومبر2012ء میں کٹی پہاڑی کراچی میں ایک دہشت گردی کے واقعے میں مجھے نشانہ بنایا گیا ، جس میں ایک گولی پیشانی ، ایک جبڑے ، ایک گردن اور ایک کندھے میں لگنے سے شدید زخمی ہوااور کئی ماہ بستر علالت پر رہا ،قابل ذکر بات یہ ہے کہ میں اُس وقت روزنامہ جنگ کا باقاعدہ ادارتی لکھاری ، کالم نویس تھا اور اپنے اوپر ہونے والے حملے کی مکمل روداد بھی روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحے پر شایع کی ، لیکن اس واقعے پر ،منافقت کے تحت خاموشی اختیار کرلی گئی ،وگر جنگ کے ادارتی صفحے کے کالم نویس کے شدید زخمی ہونے پر ا علاج تو درکناردارے کے کسی بھی ایک فرد کا نہ پوچھنا ، میڈیا ہاؤس کی" نیک نیتی" کی روشن مثال ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کہاں سو رہی تھی کہ مجھ سے انٹرویو نہیں لیا ، اس لئے کہ میں فوج اور اپنے عسکری اداروں کے بجائے جنگ کے خلاف بیان دیتا۔جنگ و جیو گروپ کس مصلحت کے تحت خاموش رہے اور کیا مفادات حاصل کئے اس سے آج تک مجھ سمیت سب لاعلم ہیں ۔

میرا کالم روزنامہ جنگ میں "جوئے شیر تیشہ سنگ براں ہے زندگی"اشاعت 27نومبر2012ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ انھیں میرے ساتھ ہونے والے دہشت گردی کا پتہ نہ تھا ، اس لنکhttps://e.jang.com.pk/pic.asp?npic=11-27-2012%2FLahore%2Fimages%2F11_05.gif پر مکمل کالم بھی پڑھا جا سکتا ہے۔

ایمنسٹی انٹر نیشنل کا یہ رویہ انفرادی ہی نہیں بلکہ عالمی طور پر مسلم امہ کے ساتھ یکساں روا رکھا جاتا ہے، ایمنسٹی انٹر نیشنل تصویر کا صرف وہی رخ دکھاتا ہے جو اس کی ضرورت کے عین مطابق ہو ، مثال کے طور 2006ء میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا اور سینکڑوں فلسطینی و لبنانی مسلمان شہید کرڈالے ، لیکن اسرائیل کی اس وحشیانہ جارحیت پر ایمنسٹی انٹر نیشنل خاموش رہی۔2010ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف مظاہروں میں بھی تنظیم کو کوئی ظلم و ستم نظر نہیں آیا ، مغربی ممالک کیجانب سے مسلم ممالک پر جارحیت پر ایمنسٹی انٹر نیشنل خاموش رہتی ہے لیکن مسلم ممالک ، ایران ، سوڈان ،شام ، لیبا حکومتوں کے خلاف آئے دن ایمنسٹی انٹر نیشنل تحقیقی رپورٹس"جاری کرتی رہتی ہے۔The hands of cruelty -abuses by armed forces and Taliban in Pakistan Tribal areas جیسی نام نہاد رپورٹس میں پاکستانی افوان کو بدنام کرنے کی بین الاواقوم سازش کا حصہ بنائی جاتی ہے کہ جیسے پاکستانی افواج کے ہاتھوں قبائلی عوام اور پاکستانی شہریوں کی جان و مال کا خطرہ اور ان پر ظلم و ستم کیا جا رہا ہے۔

ایمنسٹی انٹر نیشنل کی تحقیقاتی رپورٹس میں پاک فوج کو منفی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے جبکہ امریکہ، برطانوی اور نیٹو افواج کی جارحیت ، ابو غریب جیل ،گوانتا نومو جیل اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کی غیر انسانی حرکات پر کوئی رپورٹ تیار و جاری نہیں کی جاتی۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی یہ تنظیم امریکہ و مغربی استعمال کی آلہ کار بن چکی ہے مثلا ایمنسٹی انٹر نیشنل امریکہ کی سربراہ ، سوشین نونسلSuzanne Nossol، سابق نائب امریکی وزیر داخلہ اور اپنے دور میں امریکی جنگوں کی حامی تھیں۔مسنگ پرسن کے حوالے سے بھی ایمنسٹی انٹر نیشنل کی یکطرفہ رپورٹس جانبدارنہ ہیں ، ایمنسٹی انٹر نیشنل خودساختہ کرداروں پر مشتمل رپورٹس بنا تی ہے اور اپنی رپورٹس کے ذریعے سیاسی مقاصد اور خطے میں عدم استحکام کو فروغ دینے پر یقین رکھتی ہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی جانب سے بار بار عسکری اداروں اور فوج پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے منفی پروپیگنڈے کا مقصد وہی ہے جو جنگ و جیو گروپ نے حامد میر پر حملے کے بعدپاک فوج کے خلاف روا رکھ کردنیا میں پاکستان کی بدنامی کا سبب بنا۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کو اپنی گھناؤنی سازشوں سے باز رہنا اور خاص طور پر صحافیوں کے کندھے پر بندوق رکھ کر نشانہ لگانے کی احمقانہ حرکت سے گریز کرنا چاہیے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 754038 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.