دو چار روز پہلے ایک دوست لاہور
کا چکر لگا کر آیا ہے۔ اس نے لاہور، خاص طورپر میٹرو بس کے بارے میں مزے لے
لے کر وہ قصے سنائے کہ اب اپن کا بھی میٹرو میں جھولے کھانے کو دل چاہ رہا
ہے۔ شہباز شریف پھرتیلے ہونے کے ساتھ ساتھ ماشاء اﷲ چالاک بھی بہت ہیں۔ وہ
ترقیاتی منصوبوں کے معاملے میں ’’انگریز فارمولے‘‘ پر عمل پیرا ہیں۔ اس
فارمولے کا قصہ یوں ہے کہ جب بھی انگریز کسی علاقے کو اپنی نو آبادی بناتے،
وہاں وہ ایسے منصوبوں پر فوکس رکھتے جو عوام کو نظر آئیں، جیسے سڑکیں، پل
اور بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر وغیرہ۔ اس سے ان کو فائدہ یہ ہوتا کہ جو بھی
ان کو دیکھتا وہ انگریزوں کی علاقے کے لیے ’’محنت‘‘ کا قائل ہوجاتا۔
الجزائر کی اسلامک سالویشن فرنٹ جس نے پارلیمانی انتخابات میں 90 فیصد ووٹ
حاصل کرلیے تھے، مگر الجزائری فوج نے فرانس کی مدد سے اسے کچل ڈالا۔ اس
تنظیم کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے سب سے پہلے ایک شہر کے بلدیاتی
انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، اب تنظیم کے سامنے عوامی خدمت کے کئی
راستے تھے، اس کی قیادت نے طویل غور وفکر کے بعد پہلے مرحلے میں شہر کے
بیچوں بیچ بڑا شاپنگ سینٹر تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا خیال تھا یہ
سینٹر ان کے حق میں اشتہار کا کام دے گا اور ایسا ہی ہوا، جو بھی اس سینٹر
کو دیکھتا ،اس تنظیم کا گرویدہ ہوجاتا۔ حکمران نظر آنے والے ترقیاتی
منصوبوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ ہمارے ملک کے بیشتر ڈکٹیٹر اسی فارمولے کو
اپناتے رہے ہیں۔ مشرف نے بھی عوام کو اپنی خدمات سے آگاہ کرنے کے لیے بڑے
پیمانے پر سڑکیں بنوائی تھیں۔ گیلانی نے ملتان اور ایم کیو ایم نے کراچی
میں فلائی اوور بنوائے، مگر اس معاملے میں میاں صاحبان زیادہ عقل مند ثابت
ہوئے ہیں۔ باقی حکمران زیادہ وقت آئینی اور قانونی معاملات میں پھنسے رہتے
ہیں لیکن میاں صاحبان ان چکروں میں نہیں پڑتے، ان کی توجہ سنگ بنیاد اور
افتتاح کی تقاریب پر رہتی ہے۔ صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں۔
نواز شریف صاحب ہردوسری تیسری تقریر میں موٹروے کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔
انہوں نے لاہور سے اسلام آباد تک ایک ایسی سڑک بنادی ہے جو بھی اس پر سفر
کرے گا، وہ میاں صاحب کے حق میں میٹھے بول نہ سہی تو کم از کم جلی کٹی بھی
نہیں سنائے گا۔ ن لیگ نے پوری انتخابی مہم میں موٹروے کو سر پر اٹھائے
رکھا، اس کے برعکس آپ پیپلز پارٹی کا معاملہ دیکھیں۔ بلاشبہ زرداری حکومت
نے تاریخی قانون سازی کی، آئین کو اصل شکل میں بحال کرنا پی پی کا بڑا
کارنامہ ہے، اس حکومت نے صوبوں کو اختیارات دیے اور صوبوں کے وسائل کی
تقسیم کا دیرینہ تنازع حل کرایا ،مگر چوں کہ یہ چیزیں عوام کو نظر نہیں
آئیں ،اس لیے پی پی کے سارے آئینی کارناموں پر ایک موٹروے بھاری نکلی۔
میاں صاحب اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں اس بار بھی دکھائی دینے والے
منصوبوں کی تعمیر میں جتے ہوئے ہیں۔ نواز شریف اپنی تقاریر میں ایسے کوئی
دعوے نہیں کرتے کہ وہ یہ قانون سازی کریں گے یا وہ کریں گے۔ پتا نہیں تحفظ
پاکستان آرڈیننس بھی انہوں نے کس چکر میں جاری کردیا ہے، وگرنہ قانون سازی
ان کی ترجیحات میں سرے سے داخل ہی نہیں ہے۔ البتہ وہ کبھی بھی اپنے خطاب
میں کراچی، گوادر اور دیگر بڑے شہروں تک موٹروے بنانے کا وعدہ کرنا نہیں
بھولتے۔
جمعرات کو شہباز شریف نے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کردیے ہیں، جس کے تحت
چین لاہور میں میٹرو ٹرین چلائے گا۔ لاہوریوں کی تو موجاں ای موجاں ہوگئی
ہیں، کیوں کہ اس طرح کی ٹرینیں دنیا کے صرف 40 شہروں میں ہی چلتی ہیں۔
پاکستان میں لاہور کو سب سے پہلے یہ اعزاز حاصل ہورہا ہے۔ شہباز شریف نے 27
ماہ میں منصوبہ مکمل کرنے کی خوش خبری دی ہے، کم از کم ہمیں تو ان کے اس
دعوے پر کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔ اگر قدرت کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہ ہوئی تو
جناتی وزیر اعلیٰ یقینا 27 ماہ میں ٹرین چلادیں گے۔ ہاں! اس منصوبے پر ایک
ارب 60 کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے۔ اتنی بڑی رقم کا معاملہ ضرور کھٹکتا ہے، مگر
وزیر اعلیٰ نے تسلی دی ہے کہ سارا پیسا چین دے گا۔ اﷲ کرے ایسا ہی ہو اور
کوئی قرض وغیرہ کا معاملہ نہ ہو۔ اگر چین مسافروں سے کرایہ وصول کرکے اپنی
رقم پوری کرتا ر ہے تو ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟
یہ کالم لکھنے سے پہلے اخبارات دیکھ رہا تھا۔حسب توقع کئی سیاست دانوں نے
ٹرین منصوبے پر تنقید میں حسب توفیق حصہ ڈالا ہے۔ ایک صاحب نے کہا ہے
منصوبے کی تکمیل کے لیے آبادیاں گرائی جائیں گی، جس سے ہزاروں خاندان متاثر
ہوں گے۔ ایک اور نے اخراجات کے معاملے کو اٹھایا ہے۔ ایک صاحب کو کچھ اور
نہ سوجھا تو یہی بیان داغ دیا کہ میاں برادران اپنی سیاست چمکانے کے لیے یہ
سب کچھ کررہے ہیں۔ بھیا! سیاست دان کا تو ہر کام سیاست ہوتا ہے۔ اس کی
نماز، فاتحہ، شادی بیاہ اور جنازہ تک سب سیاست ہے۔ میاں صاحبان بھی ترقیاتی
منصوبے کسی کے ایصال ثواب کے لیے تو نہیں بنوارہے، وہ بھی آخر کو سیاست دان
ہی ہیں۔ اگر وہ اپنی سیاست نہیں چمکائیں گے تو کیا آپ کی چمکائیں؟
میاں برادران کے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر دو الزامات ایسے ہیں جو واقعی بہت
سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ پہلی بات تو اخراجات کی ہے۔ اگر ان منصوبوں پر کوئی
اور ملک یا کمپنی سرمایہ کاری کررہی ہے تب تو خیر ہے ،لیکن اگر پیسا قوم کا
لگ رہا ہے ،تب یہ اعتراض ضرور ہوتاہے کہ کیا ایک دو منصوبوں پر کھربوں روپے
لٹانے سے درجنوں چھوٹے منصوبے تیار کرنا بہتر نہیں تھے؟ ان پیسوں سے تعلیم،
صحت اور دیگر بنیادی ضروریات کے کئی منصوبے شروع کیے جاسکتے تھے جن سے عوام
کو براہ راست فائدہ پہنچتا۔
دوسرا اعتراض سیاسی نوعیت کا ہے۔ مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ میاں صاحبان
نے ساری توجہ صرف لاہور پر مرکوز رکھی ہے، جس کی وجہ سے صوبے کے دیگر
علاقوں میں احساس محرومی بڑھتا جارہا ہے۔ اس الزام پر ن لیگ موقف اختیار
کرتی ہے کہ میگاپروجیکٹ دنیا بھر میں صرف بڑے شہروں تک ہی محدود ہیں۔ میٹرو
ٹرین لاہور جیسے بڑی آبادی والے شہر کو چھوڑ کر صادق آباد یا رحیم یار خان
میں تو نہیں چلائی جاسکتی۔ ن لیگ کی بات تو ٹھیک ہے،مگر شاید وہ اس حقیقت
کو بھول رہے ہیں کہ دنیا میں شہروں کی ترقی کے نام پر دیہی علاقوں کو نظر
انداز نہیں کیا جاتا۔ ترقی یافتہ ممالک میں دیہات کو بنیادی سہولتوں کی
فراہمی پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ عوام کو
اپنے گھر پر ہی سہولتیں مل جاتی ہیں اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ دیہات سے
شہروں کی طرف نقل مکانی کا سلسلہ بھی کم ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے شہروں پر
آبادی کا دباؤ کنٹرول میں رہتا ہے۔
شہباز شریف کو ملک کا سب سے محنتی اور فعال وزیر اعلیٰ سمجھا جاتا ہے، اس
میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔ بس اگر وہ کبھی کبھی لاہو رسے باہر بھی جھانک لیا
کریں تو اس سے ان کی کارکردگی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا!! |