کس رزق سے موت اچھی؟

ملک میں پہلی بار ایک منتخب جمہوری حکومت الیکشن کروانے جا رہی تھی انتخابی گہما گہمی کا زور بھی عروج پر تھا مختلف سیاسی جماعتیں اپنے جلسے جلوس زور و شور سے منعقد کر رہی تھی ملک کی بڑی جماعتیں جو کئی کئی بار اقتدار میں ا ٓ چکی تھی ان کے انتخابی جلوسوں کی میڈیا کے ذریعے کوریج جاری تھی پاکستان پیپلز پارٹی اپنے کارنامے بیان کر رہی تھی مگر ان کے گلے کی ہڈی بن رہی تھی لوڈ شیڈنگ مہنگائی اور بے روزگاری جو اس وقت عوام کے سب سے بڑے مسائل تھے ملک کی دوسری بڑی جماعت جس کو بھی کئی بار اقتدار میں آنے کا موقع مل چکا تھا اس کے منشور میں لوڈ شیدنگ سے نجات اور مہنگائی بے روزگاری کا خاتمہ اور ملکی معیشت کی بہتری پہلا اقدام دیکھا جا رہا تھا ساتھ ساتھ آزاد خارجہ پالیسی اور بیرون ممالک میں پاکستان کا سافٹ اور بہتر امیج بحال کرنے کیامید دلوائی جا رہی تھی اور ایڈ نہیں ٹریڈ جیسے نعرے عام تھے کئی انتخابی جلسوں میں میاں برادران کو لوگوں سے اس بات کا حلف لیا جا رہا تھا جب ن لیگ کو اقتدار کی کشتی ملی تو انھوں نے سب سے پہلے وہی بات کی جو کوئی بھی حکومت اقتدار میں آنے کے فورا بعد کہتی ہے خزانہ خالی ہے ،ملکی معیشت خراب ہے ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور عوام کو صبر کرنا ہوگا ،حالات بہت خراب ہیں وغیرہ وغیرہ ان سب باتوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کہ عوام کو اس بات کے لئے تیار کیا جا سکے کہ اب ان کو مذید قرضوں کا بوجھ اٹھانا ہو گا اس مسائل کی گرداب میں وہ اپنا انتخابی نعرہایڈ نہیں ٹریڈ بلکل فراموش کر گئے ہر بار آنے والی حکومت جانے سے پہلے آئی ایم ایف کا کشکول توڑ کر جانے کا دعویٰ کرتی ہے اور نئی آنے والی ہر حکومت اس کشکول کو دوبارہ سے پکڑتی ہے اور اپنے پانچ سال پورے کرنے کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے عوامی کوقربان کرنے کے لئے پیش کر دیتی ہے ہر آنے والی حکومت ملکی منافع بخش اداروں کو بوجھ سمجھتی ہے اور ان کو اونے پونے داموں فروخت کر کے خزانے کو بھرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے (یہاں مثال حکومتی خزانے کی نہیں بلکہ ہمارے حکمرانوں کے اپنے خزانوں کی ہے )اس ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں کے ارکین اسمبلی کے اثاثوں کی جانچ پڑتا ل صرف رسمی کاروائی کے طور پر کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان اراکین کو کسی حکومتی ادارے کی طرف سے کاروائی کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا اتنے بڑے ٹھاٹھ، باٹھ والے سیاستدانوں کے ان اثاثوں پر اگر نظر ڈالی جائے جو انھوں نے الیکشن کمیشن یا قومی اسمبلی میں پیش کیے ہوتے ہیں تو بے ساختہ ہنسی نکل جاتی ہے کہ ہمارے اراکین اتنے غریب ہیں ن لیگ کی حکومت نے آنے سے پہلے ہی اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کر لیا تھا اور ملک کے کئی نامور ادارے جن میں پی آئی اے ،ریلوئے ،واپڈا ،سٹیل مل وغیرہ شامل ہیں ان کی اس لسٹ میں اولین ہیں جنھیں انھوں نے فروخت کرنا ہے آخر ایک عام آدمی سوچتا ہے کہ حکومت ان اداروں کو بیچ کر حاصل کیا کرنا چاہ رہی ہے کیونکہ ان کو بیچنے کے بعد بھی حکومت آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے اور ورلڈ بینک سے قرض حاصل کرنے کی باتیں کرتی اور ان سے قرضے لینے کے فیصلے کا دفاع کرتی نظر آرہی ہے جس کی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے حکومت نے مالی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے وہی حربہ آزمانے کا فیصلہ کیا ہے جو سابقہ حکومتیں استعمال کرتی رہیں اور ناکامی بار بار ان کا مقدر بنی دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس معاملے میں گزشتہ حکومتوں سے بھی ایک قدم آگے جانے کا ارادہ رکھتی ہے خبر یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے بعدعالمی بینک سے بھی مختلف منصوبوں کے لیے قرضہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور صرف یہی نہیں پاکستان اس قرضے کے بدلے عالمی بینک کے ایک گروپ کو سرکاری اداروں کے حصص بھی فروخت کریگاان اداروں میں توانائی سمیت متعدد صنعتوں سے وابستہ ادارے شامل ہونگے یاد رہے مسلم لیگ ن وہی جماعت ہے جس نے مشرف دور میں سٹیل مل کی نجکاری کے ایشو پر زور و شور سے احتجاج کیا تھا لیکن اب اسی جماعت کے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو ٹھیک کرنے ے لئے عوام کو کڑوی گولی نگلنی ہو گی اور ملک کو بہتر ٹریک پر لانے کے لئے مشکل فیصلے کرنے ہوں گے دوسری خبر یہ ہے کہ عالمی بینک نے اس قرضے کے لیے بھارت سے تجارتی تعلقات کومعمول پر لانے کا بھی مطالبہ کیا ہے.ان اقدامات کے عوض ورلڈ بینک آئندہ پانچ سال میں پاکستان کو11ارب ڈالر دیگا ایک اور انتہائی تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی ادارے کی وفاقی اورصوبائی سطح پر پالیسیوں کی تشکیل میں بھی براہ راست شمولیت ہوگی یعنی صرف 11 ارب ڈالر کے عوض ملک کی باگ دوڑ اس مالیاتی ادارے کے ہاتھوں میں تھمانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے عالمی بینک کا ادارہ بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن سرکاری اداروں میں حصص حاصل کرنیکی تیاری میں ہے۔ نجکاری کے عمل کو تیزکرنے کے لیے یہ ادارہ کم از کم 50کروڑ ڈالرکا قرضہ بھی دیگاخدا نخواستہ اگر ایسا ہو گیا تو پاکستان کی سالمیت داؤ پر لگنے کے واضح امکانات ہیں اور میاں صاحب اپنے وہ خطابات بھی یاد کریں جن میں وہ: اے طاہر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی: جیسے اشعار پڑھ کر عوام کا خون گرمایا کرتے تھے کیا ایسے اقدامات کر کے معیشت کو تو بہتر کیا جا سکتا ہے مگر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ سب کچھ کر کے پرواز میں کوتاہی نہیں آئے گی۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227124 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More