یوم تکبیر کا تقاضا

 اندرونی سازشوں کیخلاف بھی نعرہ تکبیر بلند کرنا ہوگا

28مئی 1998ء کو جب بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے اپنی جوہری دھماکوں سے نعرہ تکبیر بلند کیا تو ہر پاکستانی یہی سمجھ رہا تھا کہ اب پاکستان ناقابل ِ تسخیر ہوگیا․․․ اب کسی بھی جارح کو ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں ہوگی․․․ اب کوئی بھی ہمیں اپنی طاقت کا زعم نہیں دکھا سکے گا۔ مگر آج 28مئی 2014ء کو ایٹمی پاکستان اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ہمارے وہ تمام دعوے اب محض خام خیالی ہی معلوم ہوتے ہیں۔بعض مبصرین اور تجزیہ نگار جو اس وقت بھی ایٹمی دھماکوں کے حق میں نہیں تھے آج پھر انہیں موقع ملا ہے اور وہ ببانگ دہل کہتے پھرتے ہیں کہ اس ایٹمی طاقت کا کیا فائدہ جس نے پوری دنیا کو ہمارا دشمن بنا ڈالا۔ وہ کندھے اُچکا کے کہتے ہیں کہ ایٹمی قوت بننے سے قبل صرف بھارت ہمارا دشمن تھا اب امریکہ، یورپ، اسرائیل سمیت بہت سے ممالک پاکستان کو اپنی آنکھ کا کانٹا سمجھتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اب ان کی منطق بھی درست نظر آتی ہے ․․․

مگر سوال یہ ہے کہ ہم اس نہج تک پہنچے کیسے جہاں ہر کوئی ہم پر انگلیاں اٹھا رہا ہے اور افواج پاکستان سمیت پوری قوم غیریقینی صورتحال کا شکار ہے۔ہم نے خطے میں تو طاقت کا توازن قائم کرلیا مگر ہمارے اندر موجود دشمن نے ہمیں برباد کرکے رکھ دیا۔ یہ اندرونی دشمن کون ہے کہ جس نے ہمیں اندر سے اتنا کمزور اور بے بس کرکے رکھ دیا کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہمیں اپنی سلامتی کی فکر کھائے جارہی ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل ہمیں یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ پچھلی دہائی کے دوران ہمیں جو قیادت میسر آئی اور اس نے جو فیصلے کئے وہ ایٹمی پاکستان کے وقار کے شایان شان ہرگز نہ تھے۔ 9/11کے بعد جب بش نے ٹیلی فون پراس وقت کے صدر پرویز مشرف کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کودنے کا حکم دیا تو اس نے کسی چوں چراں کے باوجود تعمیل میں سر جھکا لیا۔ کیا ایٹمی پاکستان کے وقار کا یہی تقاضا تھا ․․․؟ اس وقت اگر ہماری قیادت جرأت سے ڈٹ جاتی تو امریکہ ہمارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا تھا۔ مگر مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر قومی سلامتی اور وقار کا سودا کرلیا۔ پھر ڈرون حملے ہماری سالمیت کا مذاق اڑانے لگے ․․․ اور آخر کار ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردی کی جنگ افغانستان سے پاکستان منتقل کردی گئی۔افغانستان میں موجود دہشت گردوں کو بھی پاکستان منتقل کردیا گیا ۔ امریکی اور بھارتی ایجنسیوں نے انہیں اسلحہ، گولہ بارود اور پیسہ فراہم کرکے افواج پاکستان کی صلاحیت کو کمزور کرنے کا مشن سونپ دیا۔

آج جس شدت اور تیزی سے یہ دہشت گرد ہمیں اندر سے کاٹ رہے ہیں، اس سے ہمارے مثبت سوچ رکھنے والے حلقے بھی بڑی حد تک تشویش میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ دشمن جو آج تک ہم پر براہِ راست حملے کی جرأت نہ کرسکا تھا، آج ہماری صفوں میں سرد جنگ بپا کرکے ہماری تباہی کا نظارہ کررہا ہے۔ ہماری قیادت کے غلط فیصلوں کی بدولت مسلح افواج جن کی تاریخ پیشہ ورانہ صلاحیت اور جرأت سے بھری پڑی ہے کو تضحیک کا نشانہ بنایا جارہاہے۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی جسے اسی سال خود امریکہ کے ایک معروف ادارے نے پیشہ ورانہ صلاحیتوں، ڈسپلن اور کامیابیوں کے حوالے سے نمبر ون قراردیا ہے ، جس کا نمبر سی آئی اے سے بھی پہلے ہے اور جس کے آٹھ درجے نیچے بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ہے، پر کڑی تنقید بلکہ تذلیل کی جارہی ہے۔ دشمن نے ہمارے ہی ہاتھوں ہماری موت کا بندوبست کردیا ہے۔ وہ دہشت گرد جو خود کو اسلام کا نام لیوا گردانتے ہیں، اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کی جان لے رہے ہیں۔ اپنی ہی فوج کی دفاعی صلاحیتوں پر حملے کررہے ہیں ․․․ اوپر سے تنقید کا ایک سونامی ان اداروں کو مسلسل ڈستا جارہا ہے۔ یہ درست ہے کہ سیکورٹی میں سقم کے حوالے سے تحقیقات ہونی چاہئیں جن کی بنیاد پر آستین میں موجود سانپوں سے نجات حاصل کی جائے اور آئندہ تمام کمزوریوں پر قابوپانے کی کوشش کی جائے۔ مگر حد سے زیادہ تنقید بھی مناسب نہیں۔ تنقید کرنے والوں کو وہ وقت بھی نہیں بھولنا چاہئے جب 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد بھارت کی پوری فوجی طاقت ہماری سرحدوں پر چڑھائی کیلئے اکٹھی ہوگئی تھی ۔ اس نے دس ماہ تک ہماری سرحدوں پر محاصرہ کئے رکھا مگر اسے ہماری افواج کی صفوں میں کہیں بھی کوئی کمزوری یا سقم نظر نہیں آیا۔ اس نے ہماری بری ، بحری اور فضائی افواج کو ہمہ وقت چوکس اورتیار پایا۔ مختصر وقت میں دشمن کیخلاف سرعت سے صفیں باندھ لینا اور اسے واپس جانے پر مجبور کردینا ہماری افواج کی دلیری اور تیاری کا مظہر تھا۔ اس کے بعد بھی اس نے ہمیں غفلت میں نہ پایا۔ ممبئی حملوں کے بعد اس نے سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیا ں بھی دیں اور اپنے جہازوں کو ہائی الرٹ بھی کیا مگر ہمارے شاہین سرحدوں کی نگہبانی کرتے رہے۔ ہماری افسر اور جوان دشمن کی گنوں اورتوپوں کی گولیوں اور گولوں کو اپنے سینوں پر روکنے کے لئے بے تاب رہے ۔ ہماری بحریہ گہرے پانیوں میں ہندو آبدوزوں کی راہ تکتی رہی مگر دشمن کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ ایک انچ بھی آگے بڑھ سکے۔ ہماری افواج کی اس بہادری اورمضبوط صف بندی کو توڑنا دشمن کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے ’’کولڈ اسٹارٹ اسٹریٹجی‘ کے تحت براہِ راست حملے کی بجائے بالواستہ حملے کی منصوبہ بندی کی مگر افواج پاکستان اور سب سے بڑھ کر ایٹمی پاکستان کے سامنے اس کے تمام عزائم خاک ہوگئے۔

معروف بھارتی تجزیہ نگار ارون دھتی رائے نے بھی اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ پاک فوج کی اہلیت، عزم اور پیشہ ورانہ معیار کے پیش نظرپاکستان کو میدان میں شکست نہیں دی جاسکتی لہٰذا اسے اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔ دشمن آج اسی تھیوری پر گامزن ہے۔ اس نے ہمارا پانی بند کرکے ہمیں بنجر بنا ڈالا، ہماری معیشت تباہ ہوگئی، ہمیں مختلف گروہوں میں تقسیم کرکے یہاں انارکی کو فروغ دیا۔ دہشت گردعناصر کی پشت پناہی کرکے اندرونی خلفشار کو پروان چڑھایا۔ ہماری افواج کے امیج کو متاثر کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کی گئی۔ دشمن جانتا ہے کہ اگر وہ عوام کے دلوں میں افواج کے خلاف نفرت پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو یہ پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔ دہشت گردی کے واقعات اور سب سے بڑھ کر افواج پاکستان پر تنقید کی فضا سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمن اپنی اس چال میں کامیاب رہا۔

ہمیں اپنی ایٹمی صلاحیت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اپنی قوت اور اصل ہتھیار یعنی افواج پاکستان کیخلاف دشمن کی سازشوں اور چالوں کے خلاف بھی نعرہ تکبیر بلند کرنا ہوگا۔ ہمیں دشمن کے اس پراپیگنڈہ کے ساتھ نہیں بہنا چاہئے جو ہماری وطن، افواج اور ایٹمی قوت کیخلاف سونامی کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔اس سے پہلے کہ یہ سونامی ہمارے قومی وقار اور وجود کو اپنے ساتھ بہا لے جائے ہمیں مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی ایٹمی پاکستان کے وقار کا خیال رکھتے ہوئے امریکہ سمیت کسی بھی طاقت کے سامنے اپنی معذرت خوانہ روش بدلنی ہوگی۔انہیں پاکستانی قوم کی کسی خوبی کا اندازہ ہی نہیں۔اٹھارہ کروڑ عوام، جرات مند افواج، بیش بہاوقدرتی وسائل اور سب سے بڑھ کر ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے ہمیں دنیا کی ایسی باوقار قوم ہونا چاہئے جو کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتی ہے نہ ڈکٹیشن لیتی ہے۔ اگر ہمارے حکمران وطن عزیز کی ان خوبیوں کا ادراک کرلیں تو کبھی کسی کو پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوگی۔
Ibn-e-Shamsi
About the Author: Ibn-e-Shamsi Read More Articles by Ibn-e-Shamsi: 55 Articles with 34784 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.