متحدہ قومی موومنٹ کی اپنے قائد
سے اظہارِ یکجہتی ریلی نے دعوے ٰ کے مطابق اپنا ہی تمام سابقہ ریکارڈ توڑتے
ہوئے انسانی سروں کا جمِّ غفیر جمع کر دکھایا۔ میلوں طویل اس ریلی نے حلقۂ
سیاست میں تہلکہ تو مچایا ہی ساتھ ساتھ ان نام نہاد مخالفین کی آنکھیں بھی
کھول دیں جو بارہا یہ کہتے رہے ہیں کہ ایم کیو ایم عوام میں اپنا اعتماد
کھو رہی ہے یا کھو چکی ہے؟ تبت سینٹر سے شروع ہونے والی یہ ریلی میلوں طویل
یعنی کہ تین ہٹی پُل تک پہنچ رہا تھا اور کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ریلی
کے کچھ حصے ڈاک خانہ اسٹاپ تک پھیلا ہوا تھا۔ اطراف کی عمارتوں پر بڑی
تعداد میں بینرز اور پلے کارڈز آویزاں تھے جن پر جناب الطاف حسین سے اظہارِ
یکجہتی کے لئے نعرے ، مطالبات اور اشعار درج تھے۔ یہ بینرز اور پلے کارڈز
اردو اور انگریزی زبان میں تحریر کیئے گئے تھے جو ایم کیو ایم کے مختلف
سیکٹرز، زونز کی جانب سے لگائے گئے تھے۔ ریلی کے شرکاء اور ریلی کے بارے
میں زیادہ کیا لکھا جائے بس اتنا کہ متحدہ نے اپنے ہی سارے ریکارڈ کو توڑتے
ہوئے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ انسانی سروں کا سمندر اور وہ بھی شارٹ
نوٹسز پر بلانا ایم کیو ایم کا ہی وطیرہ رہا ہے۔ورنہ ہمارے ملک میں تو
عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کو پیسے دے کر یا زبردستی جلسہ گاہوں تک
پہنچایا جاتا ہے ۔ ظاہر ہے یہ جملہ بھی میرا نہیں اور نہ ہی میں یہ الزام
اپنے سر لینا چاہوں گا بلکہ گاہے بگائے اور جب جب جلسے جلوسوں کا موسم ہوتا
ہے تو میڈیا تو براہِ راست زبردستی لائے ہوئے لوگوں کی آواز سنا دیتا ہے
اور اخبارات میں بھی اس کا خوب چرچا ہوتا رہا ہے ۔اور اگر میری بات بُری لگ
رہی ہو تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ۔ جلد ہی آموں کی طرح جلسوں کا موسم بھی آ
جائے گا تو یہ نظارا ضرور دیکھئے گا۔ویسے کل ہی کراچی میں تین اور ایک جلسہ
فیصل آباد میں ہوا تھا تو آپ نے شریکوں کی تعداد دیکھ لی ہوگی۔ ویسے
توالطاف حسین اور ایم کیو ایم کے لئے اتنا ہی لکھنا کافی ہوگا کہ:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
اور یہ بھی تو فرق ہے ملکی سیاست اور ایم کیو ایم کی سیاست میں کہ ہر پارٹی
کا سربراہ الیکشن جیت کر چاہتا ہے کہ وہ ملک کا وزیراعظم بنے اور ایسا ہوتا
ہی رہا ہے جبکہ الطاف حسین اپنے چاہنے والوں یعنی کہ نچلے طبقے سے اُٹھا کر
لوگوں کو ایوانِ بالا تک لاتے رہے ہیں۔ اور انہیں ہی وزیر بناتے رہے ہیں۔
کبھی خود کو وزیراعظم یا صدر کا امیدوار نہیں بنایا اور آج بھی یہ ریت و
رواج برقرار ہے۔ اگر حالات و واقعات کو مدنظر رکھا جائے اور ریت و رواجوں
کو ملحوظِ خاطر رکھ کر سوچا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ مستقبل میں بھی
قائد ایم کیو ایم کسی کُرسی کے دعویدار نہیں ہیں۔ بلکہ انہوں نے توکے ایم
سی سے لے کر سینیٹ تک کے ایوانوں میں مظلوم ، نچلے طبقے کے عوام کو پہنچایا
ہے اور یہ سلسلہ آج بھی ہنوز جاری و ساری ہے۔حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کے
قائدنے انٹرنیشنل سطح پر صلاحیتوں اور گونا گوں خوبیوں کے زیور سے آشنا
نوجوانوں کو ایوانوں تک پہنچا کر انہیں وہ مقام دلوایا جو وہ کبھی خواب میں
بھی شاید نہیں سوچ سکتے تھے۔ مجھے یہ لکھنے میں کوئی قباحت نہیں کہ پاکستان
کی دوسری سیاسی پارٹیاں بھی ایم کیو ایم کی تقلید کرتے ہوئے اپنے کارکنوں
کو اوپر لائیں۔انہیں ان کا حق دیں تاکہ ملک حقیقی معنوں میں ترقی کی
شاہراہوں پر گامزن ہو سکے اور جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے سے جمہوریت
پروان نہیں چڑھے گا بلکہ پِسے ہوئے لوگوں کو اوپر لانے سے ہی حقیقی جمہوریت
پروان چڑھے گا۔
خواب اور حقیقت کا دہرا معیار نہیں ہونا چاہیئے اور نہ ہی خواب منظور وسان
صاحب کی طرح دیکھنا چاہیئے بلکہ اگر خوابوں کی بات کی جائے تو بجا طور پر
یہ کہا جا سکتا ہے کہ ۲۰؍لاکھ جانوں کا نذرانہ پیش کرکے یہ ملکِ خداد اد
حاصل کیا گیا اور جب سے اس عرضِ پاک کو نیک نیت سربراہ میسر نہیں آ سکا۔
۱۸؍ مارچ ۱۹۸۶ء کو ایک ایسی تحریک نے جنم لیا جسے آج دنیا بھر میں متحدہ
قومی موومنٹ کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ یہ نظریاتی تحریک اپنی ہی
بنائی ہوئی طلباء تنظیم آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹ آرگنائزیشن کے بطن سے
معرضِ وجود میں آیا۔ جس کے قائد و رہبر الطاف حسین ہیں۔ اور بلاشبہ اس
تحریک اور اس لیڈر نے قوم کے تشخص کو اُجاگر کیا اور لوگوں کے مائنڈ سیٹ کو
تبدیل کر دیا جس کا ثمر آج کا فقید المثال ریلی کی صورت میں آپ کے سامنے
ہے۔ لوگوں کا اژدھام بتا رہا ہے کہ فکر و فلسفے کی سوچ اور حقیقت پسندی و
عملیت پسندی کے نظریئے اور قائد کی دانش مندانہ فکر و فلسفۂ محبت رنگ لے
آئی ہے۔ لوگ جاگ چکے ہیں ۔ نبیل گبول نے کل ریلی میں کیا خوب کہا ہے کہ ’’
کراچی والے ملنگ ہیں۔ نہ چھیڑ ملنگا نوں ‘‘
پاکستان کے ہر شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ اس کے پاس پاکستان کا شہری ہونے
کی تمام دستاویزات، پاسپورٹ اور شناختی کارڈ موجود ہو۔ جس ملک میں کسی
پارٹی کے قائد کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کرنے میں اس قدر لیت و لعل
کا مظاہرہ کیا جاتا ہے وہاں سوچیئے کہ عام پاکستانیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا
جاتا ہوگا۔ بس یہی ٹرننگ پوائنٹ ہے سوچ کی، اگر سوچ لیا تو آپ کی آنکھیں
کھل جائیں گی، اور حقیقت خود ہی سو پردوں سے بھی آپ پر آشکارا ہو جائے گا۔
الطاف حسین کوئی عام پاکستانی تو نہیں جنہیں شناختی کارڈ کے حصول میں اس
قدر دقت پیش آئے، وہ ایک ایسے سیاسی جماعت کے قائد ہیں جو کروڑوں
پاکستانیوں کے دلوں میں بستے ہیں، ایسے رہنما ہیں جو پاکستان کے طول و عرض
میں سب سے زیادہ مقبول ہیں، ایسے رہنما کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا جاری
نہ ہونا دستورِ پاکستان ، آئین پاکستان اور قائد ایم کیو ایم کے کروڑوں
چاہنے والوں کی توہین ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیئے کہ وہ بناء وقت ضائع کیئے
انہیں فی الفور شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا اجراء کرے تاکہ عام لوگوں کو
بھی یہ محسوس ہو کہ ملک میں یکساں قانون رائج ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ متحدہ قوم موومنٹ ہی ملک کی وہ واحد جماعت ہے جس پر نہ
صرف کراچی اور اندرون سندھ بلکہ پاکستان کے دیگر قومیتوں کے حامل عوام نے
کھل کر اعتماد کیا ہے، اس کی ایک وجہ بھی یہ بھی ہے کہ یہ وہ قائد ہے کہ
سات سمندر پار بیٹھ کر بھی اپنے کارکنوں اور اپنے عوام کا درد اپنے سینے
میں قائم و دائم رکھے ہوئے ہے۔ عوام کی بھلائی کے لئے آج بھی پاکستان میں
رابطہ کمیٹی اور تنظیمی سطح پر احتسابی عمل جاری ہے۔ تبت سینٹر کی قائد سے
یکجہتی ریلی میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ
وہ اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ریلی میں شرکت کی۔ اور یہ ریلی ایم
کیو ایم کی مخالف پارٹیوں کے تابوت میں بھی آخری کیل کی مانند ہے۔ ریلی کی
کامیابی دیکھ کر بھی اگر آنکھیں نہیں کھلتیں تو اس پر سوائے افسوس کہ اور
کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اس شخصیت پر لکھنے لکھانے کا سلسلہ تو جاری ہے اور
لکھنے والے سعی کریں تو کتاب بن سکتی ہے مگر یہاں پر اختتامِ کلام بس اتنا
کہ: ’’ تجدیدِ عہدِ وفا بھی ہوگیا، سیاسی ساکھ بھی ظاہر ہوگئی اور یہ بھی
واضح ہو گیا کہ ان کے چاہنے والوں کی آج بھی کمی نہیں۔ کروڑوں عوام کے دلوں
کا مسیحا ہے۔ جو عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتا ہے، مظلوموں کے حقوق کی
جنگ مسلسل لڑ رہا ہے ۔ حقیقت میں قربانی اور جد و جہد کا نام ہی الطاف حسین
‘‘ہے۔ |