نریندر دامودر داس مودی نے
بھارتی گجرات کے چھوٹے سے گاؤں وید نگر کے ایک غریب گھرانے میں1950 میں
آنکھ کھولی، باپ ریلوے سٹیشن پر چائے بیچتا تھا، ماں لوگوں کے گھروں میں
کام کر تی تھی۔ اسے سکول جانے کی بجائے سٹیشن کا راستہ دکھایا گیا جہاں وہ
باپ کے ساتھ چائے بیچتا رہا، اس نے گاڑیاں دھونے کا کام کیا،ڈھابا لگایا،
بوجھ اٹھایا۔زرا ہوش سنبھالا توسنیاسی بننے کی امنگ دل میں جاگی ،اسی شوق
میں گھر چھوڑ دیا،نگر نگر کی خاک چھانی، پیٹ بھرنے کے لئے مانگ کر روٹی
کھائی۔ جوانی میں ہی ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے ایک لیڈر سے ملاقات
ہوگئی، جس نے اسے سیاست کے داؤ پیچ بھی سکھائے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ ( آر ایس
ایس) وہ جماعت تھی جسکی بنیاد رکھنے والے ڈاکڑ کیشو بالی کا نظریہ تھاکہ
تمام اقلیتیں ( مسلمان اور دیگر) اکثریتی گروہ( ہندووں) میں ضم ہو جائیں یا
بھارت کو چھوڑ دیں۔ مسلمانوں سے ہونے والی زیادتیوں اور نئے پاکستان کو حصہ
کی رقم نہ دیے جانے پر ’’ مرن بھرت‘‘ رکھنے والے گاندھی جی کو تقسیم ہند کے
جرم میں قتل کرنے والا شخص بھی اسی پارٹی کا سابق کارکن تھا،قتل کے باعث آر
ایس ایس پر پابندی لگی تو بھارتیہ جن سنگھ کے نام سے اس کی ذیلی شاخ بنالی
گئی۔ جسے کوئی خاص پزیرائی نہ مل سکی، 1980کے انتخابات میں شکست کے بعد
اتحاد ٹوٹ گیا تو بھارتیہ جن سنگھ سے بھارتیہ جنتا پارٹی BJP نے جنم لیا ،نریندر
مودی بھی اس میں شامل تھے۔ مودی1991میں بابری مسجد گرا کر رام مندر تعمیر
کر نے کی مہم میں ایڈوانی کے ساتھ رہے۔ مسلم مخالف مہم میں اتنے مقبول ہوئے
کہ2001 میں انہیں گجرات کا وزیر اعلی چن لیا گیا۔اگلے ہی سال ان کے صوبہ
میں مسلم کش فسادات شروع ہو گئے جس میں 1000 سے زائد لوگ مارے گئے۔مودی
کرپشن سے سخت خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی نظریہ پر بھی سختی سے عمل پیرا
رہے۔کوئی بینک بیلنس نہیں بنایا مگر گجرات میں مسلمانوں کی جمع پونجی
جلاڈالی گئی، مودی نے کو ئی جائیداد نہیں بنائی مگر گجرات میں مسلمانوں کی
املاک خاکستر ہو گئیں۔ کیس چلے مگر مودی بری ہو گئے، اسی جرم کی پاداش
میں2005 میں بش نے ویزہ نہ دیا بلکہ امریکہ آنے پر بھی پابندی لگادی۔
2014 کے انتخابات آئے تو مودی نے انتہا پسند ہندو سوچ اور کٹر جماعتی نظریہ
کے برعکس معاشی استحکام اور کرپشن کے خاتمہ کا نعرہ لگایا۔ ’’ اچھے دن آنے
والے ہیں‘‘ کے سلوگن سے چناؤ لڑنے والی بی جے پی بھارت کی تاریخ میں38 سال
کے بعد 543 کے ایوان میں 282 نشستیں جیت کر واحد اکثریت بنانے والی جماعت
بن گئی، کانگریس کو بد ترین شکست ہوئی، صرف 44 نشستیں مل سکیں،کئی صوبوں
میں تو’’ سیکولر‘‘ جماعت کا صفایا ہو گیا، الیکشن جیتنے پر اوباما نے مودی
کو مبارکباد دی اور امریکہ آنے کی دعوت دیتے ہوئے پابندی بھی اٹھا لی، وزیر
اعظم نواز شریف نے بی جے پی کی کامیابی پر نریندر مودی کو فون کیا اور
انہیں دورہ پاکستان کی دعوت بھی دے ڈالی ۔ بی جے پی کے نامزد وزیراعظم
نریندر مودی کی جانب سے اپنی تقریب حلف برادری میں شریک کیلئے وزیراعظم
نواز شریف کو دعوت دی گئی ہے، پیر کو تقریبِ حلف برداری میں جنوبی ایشیا کی
علاقائی تعاون کی تنظیم ’سارک‘ کے رہنماؤں کو بھی مدعو تھے۔ پاکستان کی
تاریخ میں آج تک کوئی حکمران ایسی تقریب میں شریک نہیں ہوا لیکن وزیر اعظم
پاکستان نواز شریف نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس تقریب میں شرکت کر
کے امن کی طرف پہلا قدم اٹھا دیا ۔ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات
میں بہتری کیلئے جاری جامع مذاکرات کا سلسلہ 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد
سے رکا ہوا ہے۔بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن یا ایم ایف این کا درجہ دینے کے
معاملہ پر پاکستان میں بعض حکومتی حلقے واضح طور پر اس کے خلاف ہیں تاہم
تاجراس معاملہ پر بٹے ہوئے ہیں مگر بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دیئے
بغیر بھی دونوں ممالک کے درمیان براہِ راست اور دوسرے راستوں سے تجارت ہو
رہی ہے۔سالانہ قانونی تجارتی حجم 2.6 ارب ڈالر ہے۔
وزارت عظمیٰ کے لیے بی جے پی کے امیدوار نریندر مودی کی انتخابی مہم میں
یہی پیکج ڈیل تھی، اچھے دن چاہیں تو مودی کو بھی ساتھ لینا پڑیگا ورنہ پانچ
سال راہول گاندھی سے کام چلائیے۔ نریندر مودی کو ریاست گجرات میں فسادات
میں سینکڑوں مسلمانوں کے بے دریغ قتل عام، بابری مسجد کے خلاف انتہا پسند
ہندووں کو ابھارنے پر مسلمان شاید کبھی معاف نہ کر سکیں۔ مودی نے وزارت
عظمی کا حلف اٹھانے سے قبل گاندھی جی کی سمادی پر بھی پھول
چڑھائے،پراتناکی، ہاتھ جوڑنے کے انداز سے ایسا لگ رہا تھا جیسے مودی آج اس
’’مہاتما‘‘ کا شکریہ ادا کر رہے ہوں یا شاید معافی مانگ رہے ہوں جنہیں انکی
نظریاتی پارٹی آر ایس ایس کے کارکن نے قتل کر دیا تھا۔ انتخابی نعروں اور
حکومت چلانے میں بہت فرق ہے۔ ترقی کیلئے اب انہیں ایک صوبہ تک کی محدود سوچ
نہیں بلکہ وسیع النظری درکار ہو گی ، اٹل بہاری واجپائی کے طرز عمل کو
اپنانا ہو گا۔واجپائی 1998 نواز شریف کی دعوت پر پاکستان آئے تھے،مودی کو
بھی دوستی کا ہاتھ نبھانا ہوگا، نواز شریف تو پہلے ہی بازو پھیلائے ان کی
آمد کے منتظر ہیں اگرچہ نواز شریف نے بھی اقتدار میں آنے کے فوراً بعد
بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا عندیہ دیا تھا، پاکستان اور بھارت کے
اقتصادی ماہرین عام تجزیہ نگاروں کے برعکس اس بات پر مصر ہیں کی مودی کی
سیاست اور طرز عمل ان کے ماضی سے مختلف ہو گا۔ بھارتی وزیر اعظم روایتی
سیاست سے ہٹ کر کام کریں گے جس کے لئے انہیں لینڈ سلائیڈ وکٹری دلوائی گئی
ہے۔ مودی بھارت کو اقتصادی طور پر مضبوط بنانے کے لئے ماضی کی غلطیاں
دہرانے کی بجائے خطہ میں امن کے قیام کو ترجیح دیں گے۔ ذرائع کے مطابق
امریکہ کا مشرق وسطع میں اسکے مفادات کے تحفظ کے لیے اسرائیل کی شکل میں
ایک اتحٓادی موجود ہے لیکن اسے جنوبی ایشیاء میں منموہن جیسے کمزور شخص کی
ضرورت نہیں، مغرب سمجھتا ھے کی افغانستان میں نیٹو کے انخلاء کے بعد مودی
ان کے لئے ترپ کا پتہ ثابت ہو سکتا ھے۔۔۔۔ لیکن کون جانے مودی ان کے مفادات
کا تحفظ کر سکیں گے یا بھارت کو ہی عدم استحکام کا شکار کر دیں گے ۔ |