پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات
اور معاشرتی فکری انحطاط کے اس عہد میں اس بات کا اظہار کر دینا کہ ــ؛؛
میں بھی عام آدمی ہوں ـ؛؛ اپنی جگہ اہمیت کا حامل اور اخلاقی جرات کا
مظاہرہ ہے۔ عام آدمی پارٹی پاکستان کے اعلان اور تشہیر کے بعد بڑی تعداد
میں لوگوں نے ایس ایم ایس ، ٹیلی فون ، ای میل ،شوشل میڈیا کے ذریعے اور
عام آدمی پارٹی پاکستان کے فارم بھر کر اپنے سیاسی شعور کا اظہار اس طرح کہ
؛؛ میں بھی عام آدمی ہوں ؛؛ عام عوام کی جانب سے ایسا اظہار پاکستان کی
پولٹیکل اکنامک صورتحال میں مثبت اشاریئے ہیں ۔ یہ اس امر کا بھی اظہار ہے
کہ عام عوام مقبول اور بڑی سیاسی قوتوں سے نالاں ہیں اور وہ اپنی پارٹی
بنانے کی خواہش رکھتے ہیں ۔میں بھی عام آدمی ہوں، دوسری جانب امراء اور
طبقہ اشرافیہ کے خلاف مزاحمت کا اظہار بھی ہے اور اس امر کا اعلان ہے کہ
جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور اجارہ داروں کی سیاسی پارٹیوں سے ہم بیزار
ہیں اور عوام کے ساتھ جھوٹے وعدے اور فریب کرنے والے سیاستدانوں کو مسترد
کرتے ہیں۔ ان جعل سازوں کو جو کبھی تبدیلی اور کبھی انقلاب کے کھوکھلے نعرے
لگاتے ہیں ان کی اصلیت اچھی طرح پہچان چکے ہیں ۔ ان ابن الوقت اور موقع
پرستوں اور مداریوں سے بھی واقف ہیں جو سیاسی جماعتوں کے نام پر کمپنیاں
بنا کر اشتہار بازی کرتے ہیں اور عام عوام کے مسائل اور دکھوں کا واویلا کر
کے کمپنی کی مشہوری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ عام عوام کی جانب سے عدم
پذیرائی پر یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ عوام میں شعور نہیں ہے ، ان
احمقوں کو یہ نہیں معلوم کہ عام عوام کا یہی تو اعلیٰ شعور کا اظہار ہیں کہ
وہ کھرے کھوٹے کی پہچان کا ہنر جانتے ہیں ۔مادر وطن میں سیاست کو جب سے ایک
منافع بخش کاروبا ر بنا دیا گیا ہے۔ یوسی ، تحصیل ا اور ضلع ناظم سے لیکر
ایم پی اے ، ایم این اے اور سنیٹر بننے والوں کے راتوں رات بنک بیلنس کئی
گنا بڑھ جاتے ہیں ، جدید ترین گاڑیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ کئی شہروں میں
کوٹھیاں بن جاتی ہیں ۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں میں جائیدادوں کی
خریداری شروع ہوجاتی ہے ، طاقت کا نشہ الگ ہوتا ہے ۔ اس چمک دمک ، دولت اور
شہرت کے معاشرے پر اس طرح کے اثرات مرتب ہوئے ہیں کہ اچانک ایک شخص اٹھتا
ہے بغل میں فائل دبا کر الیکشن کمیشن جا کر اپنی پارٹی رجسٹرڈ کروا لیتا ہے
اور خود ساختہ پارٹی چیئرمین بن کر اخباری بیان جاری کرنے کا شغل شروع کر
دیتا ہے اس کے سوا اسے علم ہی نہیں ہوتا ہے کہ اور کیا کرنا ہے ۔ ون مین
پارٹیوں کی بہتات ہے ۔ یہ عجیب معاملہ ہے سیاسی جماعت بنانے سے قبل ہی اس
کی رجسٹریشن ہوجاتی ہے ، الیکشن کمیشن کے کلرک حضرات پارٹی رجسٹریشن کے
امیدواروں کو خود رجسٹریشن کا؛؛ اصل؛؛ طریقہ سمجھا دیتے ہیں ۔ یہ بھی کمال
ہے رجسٹرڈ ہونے والی پارٹی کے ممبران ، آئین اور منشور مستعار لیکر وقتی
ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے ۔سبحان اﷲ ، آغاز ہی دونمبری سے ہوتا ہے اور
کوسنے عوام کو دیئے جاتے ہیں کہ عوام میں شعور نہیں عوام میری پارٹی میں
شامل نہیں ہو تے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ پارٹی رجسٹرڈ کروانے والے عوام کے
پاس بھی نہیں جاتے ہیں وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ عوام ان کے دروازے پر خود
آئے ۔سیاسی پارٹیاں عوام سے ملکر معرض وجود میں آتی ہیں ۔ پیپلزپارٹی کا
قیام پاکستان میں زندہ مثال ہے۔ جو پارٹیاں ڈرائنگ رومز میں تشکیل پاتی ہیں
اور ان کی شروعات ہی الیکشن کمیشن میں غلط بیانی ، جھوٹی دستاویزات اور
رشوت کی ادائیگی سے ہو ایسی پارٹیاں ڈرائنگ رومز میں دفن ہو کر رہ جاتی ہیں
۔سیاسی تاریخ کا حرف حرف اس بات کا گواہ ہے کہ پارٹیاں سرمایہ سے بنتی ہیں
اور نہ سرمایے سے عوامی پذیرائی حاصل ہوتی ہے، پارٹیاں نظریات ، حکمت عملی
اور عوام کی جڑت کے ساتھ بنتی ہیں اور پذیرائی حاصل کرتیں ہیں۔جب پارٹیوں
میں سرمایہ اور تجارت کے اصول (نفع و نقصان )شامل ہوجاتے ہیں پھر وہ سیاسی
پارٹیاں نہیں رہتی بلکہ منڈی کی تجارتی کمپنیوں کا روپ دھار لیتی ہیں جس
طرح کی آج کی سیاسی پارٹیاں ہیں جن میں پارٹی ٹکٹوں پر باقاعدہ بولی لگتی
ہے اور ممبران کی خریدو فروخت ہوتی ہے۔عام آدمی پارٹی پاکستان کے حوالے سے
بھی ایسے سوالات کا سامنا ہے ، کیا پارٹی رجسٹرڈ ہے ؟پارٹی چلانے کیلئے
وسائل ہیں؟ پارٹی میں کوئی اہم اور مشہور شخصیت شامل ہے؟ پاک آرمی کی بیک
کے بغیر پارٹی کیسے چلے گی۔؟ وغیرہ وغیرہ ، ایسے سوال کرنے والے معصوم
دوستوں کو جواب یہ ہی ہوتا ہے کہ عام آدمی پارٹی پاکستان کے پاس سیاسی
نظریہ کی طاقت ہے۔میں بھی عام آدمی ہوں کا نعرہ مستانہ بلند کرنے والوں میں
رجسٹریشن ہے اور عام آدمی ہی ہمارا سرمایہ اور وسائل ہیں اور عام آدمی ہی
اہم شخصیت ہے۔ میں بھی عام آدمی ہوں یہی سچا جذبہ ہے ، فتح ہمیشہ سچے جذبوں
کی ہوتی ہے اور آخری فتح عام آدمی کی ہوگی۔ |