13 سال غیور افغانوں کے ہاتھوں پٹنے کے بعد بالآخر امریکا
کو افغانستان سے نکلنے کا باضابطہ اعلان کرنا ہی پڑا ہے۔ امریکی صدر اوباما
نے کہا ہے کہ 2016ءمیں افغانستان سے تمام فوجی نکال لیں گے۔ 2015ءتک
افغانستان میں 9800 فوجی افغانستان میں رہ جائیں گے، جبکہ 2016ءمیں صرف
امریکی سفارتخانے کی حفاظت کے لیے چند فوجی رہ جائیں گے۔ یہ سب اسی صورت
میں ممکن ہوگا جب افغان حکومت سے دفاعی معاہدہ طے پا جائے گا۔ نئے افغان
صدر سے سیکورٹی معاہدہ کریں گے۔ خودمختار اور مستحکم افغانستان چاہتے ہیں،
افغانستان میں جاری امن عمل کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم تسلیم کرتے
ہیں افغانستان بہترین جگہ نہیں اور اسے بہترین جگہ بنانا امریکا کی ذمہ
داری نہیں ہے۔ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان عوام نے کرنا ہے، امریکی
افواج نے افغانستان میں بے شمار قربانیاں دیں۔ جنگ شروع کرنا آسان مگر ختم
کرنا دشوار ہوتا ہے۔ جب اقتدار سنبھالا ایک لاکھ 18 ہزار امریکی فوجی
افغانستان میں موجود تھے۔ واضح رہے کہ اب افغانستان میں امریکی اور اتحادی
ممالک کے 51 ہزار فوجی موجود ہیں۔ غیر ملکی ذرائع کے مطابق 2014کے بعد
امریکی افواج افغانستان میں اسی صورت میں رہ سکتی ہیں، جب افغان سیکورٹی
معاہدہ طے پاجائے۔ امریکی حکام نے امریکا افغان سیکورٹی معاہدہ ہونے پر
یقین دلایا ہے کہ 2016 کے بعد کابل میں امریکی سفارتخانے کے لیے ضروری
سیکورٹی کے علاوہ اور کوئی اہلکار افغانستان میں قیام نہیں کرے گا۔ جبکہ
افغان صدر حامد کرزئی بدنامی اور طالبان کے خوف سے امریکا کے ساتھ سیکورٹی
معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کرچکے ہیں، امریکا افغان صدر حامد کرزئی پر
متعدد بار دباؤ ڈال چکا ہے کہ 2014 میں نیٹو افواج کے انخلا کے بعد
افغانستان کی سیکورٹی کے لیے امریکی افواج کی موجودگی کے حوالے سے معاہدے
پر دستخط کردے، تاہم حامد کرزئی نے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکارکرتے ہوئے
معاملہ آئندہ منتخب ہونے والے صدر کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا۔ امریکی صدر
اوباما نے چند روز قبل افغانستان کا اچانک دورہ کیا، تو حامد کرزئی نے
اوباما کا استقبال تک نہ کیا۔ امریکا اس وقت نئے افغان صدر کی آمد کا منتظر
ہے، جس کا انتخاب جلد ہونے کو ہے، کیونکہ موجودہ صدر حامد کرزئی نے اوباما
انتظامیہ کے ساتھ سیکورٹی معاہدے پر دستخط سے یکسر انکار کردیا تھا، لیکن
افغان صدارتی انتخاب کے دو صف اول کے امیدواروں عبداللہ عبداللہ اور اشرف
غنی نے صدارتی منصب سنبھالنے کے ساتھ ہی سیکورٹی معاہدے پر دستخط کا وعدہ
کیا ہے۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں امریکی صدر
اوباما کے تازہ بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے خیال میں یہ بہت
حیران کن بات ہے کہ13 سالہ عبرتناک جنگ اور بھاری جانی ومالی نقصانات کے
باوجود بھی وائٹ ہاؤس کے حکمران حقائق کو سمجھ نہ سکے اور افغانستان پر
قبضے کو طول دینے کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ اوباما کو سمجھنا چاہیے کہ
حریت پسند افغانوں کو کسی صورت میں دھوکا نہیں دیا جا سکتا کہ جارحیت کے
عنوان میں تبدیلی لاکر انہیں جہاد سے پھیر دیں، افغانستان میں غیر ملکی
استعماری قوتوں کی موجود گی جس عنوان کے تحت بھی ہو، ہمارا یقین ہے کہ ان
کے خلاف جہاد فرض عین ہے اور افغان مومن عوام استعمارکو بھگانے کی شرعاً
ذمہ دار ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ اوباما نے بگرام میں اپنی
افواج کی کامیابیوں کی ستائش کی ہے، لیکن وہ ایسے غیر ذمہ دار انہ اظہار کی
بجائے اپنی شکست کا اعتراف کرتا، کیونکہ ہرکوئی جانتا ہے کہ افغان جنگ کو
امریکی اپنی مرضی کے مطابق ختم کرنا نہیں چاہتے، بلکہ یہ افغان مجاہد عوام
کی قربانی اور سرفروشی ہے، جس نے اوباما کو مجبور کردیا کہ انہوں نے میدان
چھوڑ کر فرار کی راہ اپنائی ہے اور بغیر کسی کامیابی کے اپنی استعماری
افواج کو افغانستان سے نکالنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ اوباما کا خفیہ اور
اندھیرے کا دورہ افغانستان اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس ملک میں
امریکی افواج شکست کھا چکی ہےں، امریکی افواج یہاں کسی علاقے پر تسلی بخش
قبضہ کرنے پر قادر نہیں ہےں، تو اسی لیے امریکی حکمران غیر اعلانیہ خفیہ
دوروں پر آتے رہتے ہیں۔ خودمختار ملک پرقبضہ، قانونی حکومت کو گرانا، بندوق
کی نوک پر مغربی سیاسی، فوجی اور ثقافتی پروگراموں کا لاگو کرنا، لاکھوں
انسانوں کا قتل عام کرنا، متحد ملت کی نوجوان نسل میں گمراہی اور نفاق کی
کوشش کرنا، املاک کی قبضہ گیری، اجتماعی بے حیائی کی ترویج اور دنیا کے
نقشے میں سب سے سر بلند ملک کے عوام پر پہلے درجے کی کرپٹ انتظامیہ کا مسلط
کرنا وغیرہ امریکی جارحیت سے جنم لینے والے مصائب نا قابل برداشت ہےں۔ ہونا
تو یہ چاہیے تھا کہ امریکی افواج کے فرار کے لمحات میں امریکی سیاستدانوں
کی نمائندگی میں اوباما افغان عوام سے ان مظالم اور وحشتوں پر معافی
مانگتا، جو گزشتہ ساڑھے بارہ برس سے امریکی قیادت میں مظلوم عوام پر جاری
ہے۔ کابل انتظامیہ کے ساتھ اوباما کے سیکورٹی معاہدے کا تذکرہ پھر امریکی
صدر کے ذہن میں جارحیت کو طول دینے کا خواب ہے، جسے افغانی کسی طرح بھی سچ
ہونے نہیں دےں گے، جس طرح گزشتہ 13 سال سے امریکا کی ہر قسم کی موجودگی کے
خلاف اپنی مزاحمت کو جاری رکھا، اس صورت میں بھی جنگ طبعا ختم نہیں ہوگی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکا نے تیرہ سال میں مہنگی
ترین شکست خریدی ہے۔ کیونکہ امریکا افغانستان میں شکست کھا چکا ہے۔ گزشتہ
سال برطانوی افواج کے سربراہ جنرل سر پیٹر وال نے بھی اس امر کا اعتراف کیا
تھا کہ افغانستان میں نیٹو افواج کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح
ناکامی ہوئی ہے۔ اسی طرح نیٹو کے متعدد افسران اس بات کا بارہا اعتراف
کرچکے ہیں کہ وہ افغانستان میں جنگ ہارچکے ہیں۔ مبصرین کے مطابق امریکا
نائن الیون کے بعد افغانستان میں کامل فتح حاصل کرنے آیا تھا، لیکن
افغانستان میں تو امریکا اپنے تمام اتحادیوں سمیت شکست سے دوچار ہوا ہے۔
افغانستان میں امریکا اور مجاہدین کے مقابلے میں کسی طور بھی مطابقت نہیں
تھی، کیونکہ طالبان بالکل نہتے اور امریکا ہر قسم کے اسلحے سے لیس اور تین
درجن سے زاید ممالک کی افواج کو اپنے ساتھ لاکر افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا۔
اس کے باوجود نہتے طالبان نے دنیا کی سپر پاﺅر کہلانے والے امریکا کو چاروں
خانے چت کردیا۔ امریکا افغانستان میں طالبان کو ختم کرنے آیا تھا، لیکن
تیرہ سال بعد صورت حال یہ ہے کہ افغانستان کے تقریباً 70 فیصد علاقوں پر
طالبان کا کنٹرول ہے، آدھے سے زیادہ افغانستان میں ان کی موجودگی اس بات کی
علامت ہے کہ انہیں عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ امریکا
نہ صرف یہ کہ طالبان کو عسکری طور پر شکست نہیں دے سکا، بلکہ وہ طالبان اور
مقامی آبادی کے تعلق کو بھی ایک حد سے زیادہ متاثر نہیں کرسکا۔ امریکی کہتے
تھے: ہم افغانستان میں صرف جنگ جیتنے نہیں آئے بلکہ ہم افغان عوام کے دل
بھی جیتنے آئے ہیں، مگر وہ تیرہ سال میں نہ جنگ جیت سکے نہ دل جیت سکے۔
افغانستان میں امریکا کو ہر لحاظ سے بدترین شکست ہوئی ہے۔ امریکا کے قومی
سلامتی سے متعلق 16 ادارے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں یہ خطرہ ظاہر کرچکے ہیں
کہ 2017ءتک افغانستان پر دوبارہ طالبان کا قبضہ ہوسکتا ہے۔ اس کے معنی اِس
کے سوا کیا ہیں کہ امریکا کی جڑیں نہ کل افغانستان میں تھیں اور نہ 2017
ءمیں افغانستان میں ہوں گی۔ امریکی رپورٹ بتاتی ہیں کہ امریکا نے تیرہ سال
میں افغانستان پر 600 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔ آزاد ذرائع کا اصرار
ہے کہ امریکا نے افغانستان میں تیرہ سال میں ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ
جھونک ڈالے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا نے ایک ہزار ارب ڈالر
میں شکست خریدی ہے اور بلاشبہ یہ انسانی تاریخ کی مہنگی ترین شکست ہے۔
امریکا میں ہونے والے سروے کے مطابق60 فیصد کے قریب امریکیوں کا خیال ہے کہ
امریکا افغانستان میں جنگ ہار رہا ہے۔ امریکا افغانستان میں آیا تھا تو 87
فیصد امریکی افغانستان کے خلاف جارحیت کے حق میں تھے، انہیں امریکا کی مکمل
فتح کا یقین تھا، لیکن آج اکثر امریکی اپنے ملک کو افغانستان میں پٹتے ہوئے
دیکھ رہے ہیں، چنانچہ امریکیوں کی اکثریت اپنی فوج کو افغانستان سے نکالنا
چاہتی ہے۔ یہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مکمل شکست نہیں تو اور کیا ہے؟ |