آج اہل وطن کے آگے سب سے بڑا اور اہم سوال یہ ہے کہ سوشل
میڈیا کی بے مہار آزادی مقدم ہے یا با وقار ملک کی آزادی مقدم ہے؟ آزادی
رائے یا آزادی بے راہ روی ضروری ہے، وطن کی خارجہ پالیسی کا احترام ضروری
ہے یا بے لگام سوشل میڈیا وقت کی ضرورت ہے یا ملکی استحکام؟
قحاشی سے لبریز اور اپنی ثقافت کی نفی کرنے والے پروگرام بیچنے میں فائدہ
ہے، یا ملک کی معتبر پالیسیاں بیچنے میں؟
پاکستان کے تاریخ ساز اکابرین اور مشاہیر پر کیچر اچھالنا جائز ہے یا نیم
برہنہ ایکٹروں کو ٹی وی اسکرین پر نچانا جائز ہے۔ اپنی ہی تاریخ کا مذاق
اڑانا اپنے جغرافیے پر زد لگانا تفریح ہے یا نئی نسلوں کو تاریخ اور
جغرافیے کا احترام سکھانا تعلیم ہے۔
ذرا سوچو اشتہار چلا کر پیسے وصول کرنا مجبوری ہے یا ملک کی حفاظت کرنے
والوں کی عزت نفس کا احترام ضروری ہے، پاکستان کی تعمیر کے وقت ایک نعرے نے
پوری مسلم ملت میں روح پھونک دی تھی اور وہ نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا
لا الہ الااللہ،،،،
ٹی وی پر سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اس قسم کا اشتہار چلانا کہ تعلیم حاصل
کرنے کے سوا پاکستان کا مطلب کیا صرف پاکستان بنانے والے عظیم انسانوں کی
نفی اور کردار کشی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ اگر پیمرا نے یہ فیصلہ اپنے
ہاتھ میں لیا ہے تو پھر 23 مارچ 2012ء کی رات کو جیو کے اینکر نےلہک لہک کر
مزے کے ساتھ ابوالکلام آزاد کی اس تقریر کے ٹوٹے بمعہ تصویر کے کیوں سنوائے
جس میں مولانا ابوالکلام پاکستان کی پر زور مخالفت کی تھی اور کہہ رہا تھا
کہ اگر پاکستان بن گیا تو قائم نہیں رہے سکے گا یہ باعث شرم کا مقام ہے جیو
کا اینکر یہ سب بکواس ایسے سنا رہا تھا جیسے وہ بڑے مزے سے لذیز نہاری پائے
کھارہا ہوں، اور سواد بھی لے رہا ہے، بھائی لوگوں خدا راہ کچھ تو خیال
کرو،، اور پھر جیو گروپ مسلسل اس قسم کے اشتہارات چلاتا رہا جن کے اندر
شفاف لفظوں میں ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں کی نفی کرکے کہتا تھا کہ جس
وقت ملک میں فلاں سانئسی ایجاد ہورہی تھیں ہندوستان کے مسلم بادشاہ گیت
سنگیت اور عشق و نشاط میں مگن تھے،
کس کے اشاروں پر جیو یہ سب کچھ کررہا ہے؟ محب وطن پاکستانی بے چینی محسوس
کررہے تھے، مجھ سے بڑے سئنیر اہل قلم بھی اپنی اپنی تحریروں میں اس درد
مندی کا اظہار کررہے ہیں، اصل فیصلہ سول سوسائٹی کا ہوتا ہے، آج ایک صحیح
فیصلہ آجائے تو بہت سے چینلز سیدھے راستے پر آجائیں گے،پیمرا ایک واضح
پالیسی مرتب کرے کہ آزادی رائے کیا صرف ایک چینل کی ضرورت ہے یا چند چینل
کی ضرورت ہے، کسی کی ماں بہن کو گلی میں کھڑے ہوکر گالیاں دینا آزادی رائے
نہیں ہے، یہ بد اخلاقی کی انتہا ہے، آپ آزادی میں سے اخلاقیات نکل دیں گے
تو آزادی بھی ننگ دھڑنگ ہوجائے گی بازاروں میں بعض فاتر العقل برہنہ پھرتے
نظر آتے ہیں لوگ جانتے ہیں وہ پاگل ہیں پھر بھی یہ نظارہ لوگوں کو تکلیف
دیتا ہے،
کوئی چینل کوئی دربار کوئی اخبار کوئی بھی سرکار پاکستان سے اہم نہیں ہے،
جو کچھ بھی ہے وہ پاکستان ہی ہے، اگر کسی کو بھارت پسند ہے تو وہ اپنی شہرت
بدل سکتا ہے، بھارت میں الیکشن کے دوران مودی کہہ چکا ہے کہ جو مسلمان
پاکستان کو اپنا سیاسی ملک سمجھتے ہیں وہ پاکستان چلے جائیں، اب ہمیں بھی
یہ کہنا چاہیے دو قومی نظریہ کا ٹی وی پر مذاق اڑانے پر کشمیر کشمیر کے
خلاف بیانات دینے پر امن کی آشا کی رٹ لگانے والوں کے خلاف، کالم نگار سول
سوسائٹی کا نمائندہ ہوتا ہے، لوگ اہل قلم کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے
ہیں، مائیں اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے سخت پریشان ہے، اہل قلم وقت کے
نقیب ہوتے ہیں، موجودہ پیمرا کو وزیروں کی بجائے اعوام کی بات سننی چاہیے
آزادی رائے کی صحیح طور پر تشریح کرنی چاہیے۔ آج کی اتنی بڑی جسارت کو نہیں
روکیں گے تو کل اور بہت سے شوشے نکل آئیں گے،
یہ پاکستان ہے یہاں اخلاقی ضابطوں اور اداروں کا احترام کرنا ہوگا پاکستان
کی سالمیت اور تمکنت کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ کوئی
بھی چینل اعوام پر حکومت نہیں کرسکتا۔ وہ صرف اعوام کی خدمت کرسکتا ہے، وہ
دوکانداری نہیں کرسکتا، ہم بھی دنیا میں رہ کر اصول کی بات کرتے ہیں کسی
بھی جدید اور قدیم ملک کے سوشل میڈیا کو اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی ملکی
پالیسیوں کی نفی کرے۔ تاریخ کو بگاڑے اور جغرافیے کو نقصان پہنچائے اور
ایسی منڈی بن جائے جہاں پروگرام کے ریڑھے پر ملک فروخت کرنے کی سیل لگا دی
جائے۔ وما علینا الاالبلاغ،،،، |