انقلاب کا پیغام - مسلم قیادت میں تبدیلی

(ڈاکٹر ایم اعجاز علی
سابق ایم پی)
ملک میں سیاسی انقلاب آچکا ہے۔ وہ خواب جو ساورکر نے1930میں دیکھا تھا، جسے گو لو الکرنے سراہا تھا، جسے شیا ما پرساد مکھرجی نے حکومتی سطح سے نافذ کرنے کی سعی کی تھی اور جسے دین دیاں اُپادھیا ئے سینے سے لگائے چلے گئے وہ اب اقتدار میں آبیٹھا ہے۔ پچھلے 62سالوں سے دوغلی پالیسی والی طاقت جو اقتدار میں بیٹھی ہوئی تھی اسے لوک سبھا چناؤ میں ہندوستانیوں نے ٹھکراد یا۔ ایک نئے باب کی شروعات ہوئی ہے۔ کیا پتہ مستقبل میں ہمارے ملک کا جمہوری کیریکٹر بچے گا یا ہٹلر کی طرح لوک تانترکا یہاں سے بھی خاتمہ کر دیا جائے گا۔ دھیان دینے کی بات یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی ،بے روزگاری اور بد عنوانیت، جس کے خلاف آزادی کی جنگ لڑکی گئی تھی وہ بعد آزادی بھی رفتہ رفتہ بڑھتا ہی چلا گیا اور یہی خاص وجہ رہا جس نے کانگریس کو اس بار سب سے بڑا دھکا دیا حتیٰ کہ 50سیٹوں سے بھی کم میں سمیٹ کر رکھ دیا۔ لیکن افسو س اس بات کا زیادہ ہے کہ سنگھ پریوار نے اقتدار پر قبضہ کر لیا جبکہ بدل میں سیکولر پریوار کا ہی قبضہ ہونا چاہئے تھا ۔ سنگھ پریوار کے قبضے کی بھی ذمہ دار کانگریس ہی ہے چونکہ بنیادی مسائل کے حل کے بجائے اس نے ساری عمر جس طرح مندر۔ مسجد، پرسنل لاء،اقلیتی ادارے ، ہند ۔ پاک و ہندو مسلمان کی سیاست کی، اس کے رد عمل میں ہی سنگھ پریوار پیدا ہو ئی اور اقتدار میں بھی آگئی۔ بھلے ہی کانگریس کا اندرونی نظریہ جوبھی ہو لیکن سنگھ پریوار کو تو لوک تنترپر ہی یقین نہیں ہے۔ اس کو منووای طرز نظام چاہیئے جس کے لئے ’’ ہندو راشٹر‘‘ کی تھیوری یہ ہمیشہ دیتے رہتے ہیں۔ منوادی طرز نظام میں غیر ہندو سماج کے ساتھ کیا برتاؤ ہوگا یہ جگ ظاہر ہے لیکن ہندو سماج کے پچھڑے و دلتوں کے ساتھ تو اس سے بھی زیادہ ظلم ہوگا جس کا اس سماج کو ذرا بھی احساس نہیں ہے۔ بہر حال اس سیاسی انقلاب پر مسلمانوں کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی اب ضرورت ہے۔ ہماری تو رائے ہے کہ مسلمانوں کو اب ڈاکٹر امبیڈکر کی پالیسی اپناتے ہوئے، زیرو سطح(Zero Level) سے تحریک شروع کرنی ہوگی۔ یاد رکھئے سنگھ پریوار والے کے پاس کوئی جادو کی چھڑی تو نہیں ہے کہ مہنگائی بے روزگاری یا بھرشٹاچار پرچٹکی بجاکر کنڑول کر لیں۔ کانگریس نے ملک کی ایسی حالت بنا کر سنگھ پریوار کے حوالے کیا ہے کہ اسے سُدھارنے میں اس کے وزیر اعظم کا پسینہ چھوٹ جائے گا۔ لیکن چونکہ عوام کو زبردست سبز باغ دکھایا گیا ہے جس کے جلد پورا نہیں ہونے پر جو رد عمل سامنے آئے گا اس کے رُخ کو موڑنے کے لئے نریندر مودی بھی وہی کریں گے جو کانگریس وزیرر اعظم کیا کرتے تھے۔ مطلب صاف ہے کہ ہندو مسلمان میں تفرقہ پیدا کرنے کا راستہ نکالو۔ اس کام کے لئے مندر۔ مسجد ، شریعت سے چھیڑ چھاڑ، یا ہندوستان پاکستان کا کارڈ کھیلنے کیلئے ہی تو اتنے سالوں سے زندہ رکھا ہوا ہے۔ مسلمانوں کی لیڈر شپ، چاہے مذہبی ہو یا سیاسی، اُسے بھی شروع سے اس مہم میں دوڑ جانے کی عادت سی لگی ہوئی ہے۔ انہوں نے کبھی حکمت عملی سے نہیں لیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندو لیڈر شپ کی غلطی کی وجہ کر جہاں ایک طرف مہنگائی، بے روزگاری ، و بد عنوانیت نے آسمان چھونے کا کام کیا وہیں دوسری طرف مسلم لیڈر شپ کی غلطی کی وجہ کر مسلم سماج تعلیمی اقتصادی ، سماجی و سیاسی اعتبار سے دلتوں سے بھی نیچے کے پائیدان پر چلے گئے۔ یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ ملک کی بد حالی سے نہ تو ہندو لیڈر شپ کو کوئی نقصان ہوا اور نہ ہی مسلمانوں کی بد حالی سے مسلم لیڈر شپ کا کچھ بگڑا۔ اثر انداز تو عام ہندوستانی سماج ہوا چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان۔ ہمیں اس بات کو پیش کرنے میں ذرا بھی ہچک نہیں کہ مسلم سماج کو ملک کے’’ مین اسٹریم‘‘ سے کاٹ کر الگ رکھنا بھی اس مہم میں کھاد کا کام کیا ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کا ذمہ دار بھی مسلم لیڈر شپ ہی ہے اس لئے کہ اس لیڈر شپ نے کبھی عام مسلمانوں کی تکلیف کو نہیں سمجھا۔ سنگھ پریوار کے ذریعہ اُچھالے گئے مددوں پر ہی اپنی لیڈر ی کھڑا کرنے و چمکانے میں لگے رہے۔ مسلمانوں کے ’’مین اسٹریم‘‘ میں نہیں رہنے کی وجہ کر ہی فرقہ پرست طاقتوں کو مذہبی کارڈ کھیلنے میں آسانی ہوگئی۔ وہی تین مسئلے ـ: ایودھیا، 370، کامن سول کوڈ: نے ان طاقتوں کو زیرو سے ملک کا ہیرو بنادیا ۔ اگر مسلمانوں کی لیڈر شپ ، عام مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلتی اور ان کی تعلیمی، اقتصادی ، سماجی حالات کو سدھارنے کا کام کر ملک کے ’’مین اسٹریم‘‘میں رکھنے کا کام کرتی تو شاید یہ قوم، سنگھ پریوار کے مذہبی کارڈ کھیلنے کا ’’محور‘‘ نہیں بنتی۔ یاد کیجئے مسلمانوں کی اس بد حالی کو دیکھتے ہوئے ہی انگریزوں نے دلتوں کے ہم پیشہ مسلمانوں کو بھی 1936میں شیڈول کاسٹ رزیرویشن کے دائرے میں رکھا تھا تاکہ دلت و مسلمان دونوں ملک کے مین اسٹریم میں آئیں اور آنے والی جمہوریت میں سوجھ بو جھ کے ساتھ رول ادا کریں۔ یہ ایک صحت مند پہل تھی لیکن 1950میں جب ہمارا دستور ہند نافذ ہوا اور انگریزوں کا دیا ہوا یہ عطیہ دفعہ 341کی شکل میں آیا تواس پر فرقہ پرست طاقتوں نے جبراً مذہبی قید لگواکر مسلمانوں کو ریزرویشن سے باہر کر دیا تاکہ دلت بھلے ہی مین اسٹریم میں آجائے لیکن عام مسلمان بد حالی کا شکار رہے اور ووٹ کی صرف ایک ٹوکری بنا رہے تاکہ چناؤ میں آسانی سے اس کا سودا کیا جا سکے۔ آپ نظریں اُٹھاکر دیکھ لیجئے کہ آزادی کے بعد ملک میں کیا کیا کھیل ہوتا رہا اور مسلم لیڈر شپ نے کون سا رول ادا کیا۔ بہر حال اب یہ ضرورت ہے کہ آج کی صورتحال میں کیا کیا جائے۔ موجودہ سیاسی انقلاب نے ہمیں دو پیغام دیئے ہیں۔ اول تو یہ کہ عام مسلمانوں کو ملک کے مین اسٹریم میں کیسے لایا جائے۔ دوئم یہ کہ مسلم قوم کو کیسے روایتی لیڈرشپ سے نجات دلایا جائے۔ عام مسلمانوں کو مین اسٹریم میں لانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ آئین کی دفعہ 341سے مذہبی قید ہٹوا کر انہیں SCمیں دوبارہ شامل کروایا جائے۔ اس کیلئے زمینی بیداری مہم چلانی ہوگی اور نئی لیڈر شپ اُبھارنی ہوگی۔ علماؤں کو چاہئے کہ کچھ برسوں کیلئے وہ سیاست سے ہٹ کر مذہبی کاموں میں لگیں۔ سماجی ورکروں کو بے لوث بیداری مہم میں لگنا ہوگا ۔ زمین سے جُڑے دانشور حضرات کو دانشمندانہ پہل کرنی ہوگی ۔یہ تحریک امن و شانتی کے ساتھ چلانا ہوگا ساتھ ہی ہر ایشو پر جذباتی رد عمل کی سیاست سے پرہیز کرنا ہوگا اور عام برادر وطن کا دل جیتنے کا عمل بھی کرنا ہوگا۔ سنگھ پریوار تو ہمیشہ ایسی کوشش کرے گا کہ ایسے معاملات پر زور دیں تاکہ ہندو مسلمان کے بیچ ہمیشہ 36کا آنکڑا بنا رہے لیکن ان کی حرکتوں پردھیان نہ دیتے ہوئے ہمیں اپنے مہم کو جاری رکھے رہنا ہوگا ۔ ہمیں اُمید ہے کہ دفعہ 341کا مسئلہ ہی ہمارے موجودہ ماحول کا حل نکالے گا شرط ہے کہ ہم حکمت سے چلیں۔

Azam nayyar
About the Author: Azam nayyar Read More Articles by Azam nayyar: 12 Articles with 8426 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.