ساری قوم کی سوچ ایک طرف تو شاہ وقت اور شاہ کے حاشیہ
برداروں کی سوچ دوسری طرف۔ یہ کیا ؟دعوت نامے تو معمول کے مطابق آتے رہتے
ہیں۔ لیکن ان دعوت ناموں پر باوقار اور ذمہ دار اسی وقت جاتے ہیں جب کوئی
انہیں پروقار اور باعزت انداز میں بلائے۔ بھارت کا بادشاہ مودی(اگر د پر
ایک نقطہ لگا دیں تو وہ اسم بامسمی بن جائے) رسم تاج پوشی پر تمام دوستوں
کو مدعو کرتا ہے۔ اسکی سابقہ تاریخ تو خون مسلم سے رنگین ہے۔ یہ کوئی عجوبہ
بھی نہیں۔ اگر ہندو متعصب نہ ہوتا تو قائد اعظم جیسا صلح کل و صلح جو شخص
یا حضرت علامہ اقبال جیسے مردم شناس لوگ اتنا بڑا قدم نہ اٹھاتے۔ تقسیم ہند
کے اصل ذمہ دار ہندو ہیں کہ جنہوں نے شدھی اور سنگھٹن جیسی مسلم کش تنظیموں
کو جنم دے کر مسلمانوں پر وہ تشدد اور ظلم کرائے کہ انسانیت آج بھی نوحہ
کنا ں ہے۔ مسلمان حکمرانوں نے ہندوؤں کو نہ صرف مذہبی آزادی دی بلکہ انہیں
اعلیٰ حکومتی عہدے دیئے۔ہندو صاحب ثروت رہے ، جاگیروں کے مالک بنے۔ لیکن
جیسے ہی موقع دیکھا محسنوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ مرہٹوں نے مسلم حکومت
کو کمزور کیا، سکھوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی، حضرت سلطان ٹیپو کے ساتھ پورنیا
خبیث نے کیا کیا۔ اگر ہندواور منافقین ایمان فروش انگریز کا ساتھ نہ دیتے
تو مٹھی بھر گورے تو انگلستان جانے کے لیئے جہازوں میں بیٹھ چکے تھے۔
پاکستان کا مطالبہ ہمارے بزرگوں نے ماضی کا تجزیہ کرتے ہوئے بڑی غوروفکر کے
بعد کیا۔ اسی مطالبہ سے انگریز اور ہندو سیخ پا ہوگئے۔ ہندو نے ہمارے
لاکھوں افراد کو بے گھر کیا ، شہید کیا، ریل گاڑیاں لاشوں سے بھری نوزائیدہ
پاکستان آئیں۔ تاریخ کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔ کشمیر پر قبضہ ہندو نے نہیں
کیا ، یہ انگریز کی کاروائی ہے جس نے ہماری افواج کو شاہراہ جموں و کشمیر
پر قابض ہونے سے روک دیا۔ کشمیر میں کتنے مسلمان شہید ہوچکے؟ بھارت میں
کتنے ہندو مسلم فسادات میں مسلمان شہید ہوئے۔ بابری مسجد کو شہید کیا گیا۔
کیا ہمارے وزیر اعظم ائیندہ مسلم کش فسادات بند کراکے آئیں گے؟ کیا موذی
کشمیر ٹرے میں رکھ کر دے دے گا؟ کیا بابری مسجد کی تعمیر از سر نو ہوجائے
گی؟ کیا بھارت تقسیم ہند کے منصوبے میں طے شدہ علاقے ہمیں واپس کرے گا؟ کیا
جوناگڑھ اور حیدر آباد کی ریاستیں آزاد ہوجائیں گی؟ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے
کہ میاں نواز شریف کے رسم تاج پوشی میں جانے سے ہندو پسیج جائے گا، کچھ
انسانی قدروں کا خیال رکھے گا یہ تو محال ہے۔دعوت نامہ ملنے کے بعد میاں
صاحب نے اپنے بھائی اور دیگر گنتی کے حاشیہ برداروں سے مشورہ کیا تو فیصلہ
ہوگیا کہ اس اہم موقع پر جانا مناسب ہے۔ ہندو کی خوشنودی کے لیئے برف پگھل
گئی۔پاکستانی حکمران تو بر پگھلانے کے عادی ہیں لیکن بھارتیوں کی طرف سے تو
ایک اولے برابر بھی برف نہیں پگھلی۔ افسوس ہمارے حکمران قرآن پڑھتے تو
انہیں کفار کے ساتھ معاملات طے کرنے میں کتنی آسانی رہتی۔ لاتوں کے بھوت
کبھی باتوں کو سمجھتے ہی نہیں ۔ یہ تو محمد بن قاسم ، شہاب الدین غوری،
سلطان محمود غزنوی اور احمد شاہ ابدالی کی زبان سمجھتے ہیں۔ یا پھر دور
حاضر میں عساکر اسلامیہ پاکستان نے جو سبق انہیں 1965 میں سکھایا ۔ جو لوگ
کہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کرکے کشمیر آزاد کرائیں گے یاپانی کا
مسئلہ حل کریں گے وہ لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور پانی لیکیریں
ڈالنے کے عادی ہیں۔ جہاد میں زندگی ہے(قرآن پاک)جب تک وادیء کشمیر تکبیر کے
نعروں اور مجاہدین کی توپوں کی گھن گرج نہیں سنے گی اس وقت تک کشمیر آزاد
نہیں ہوگا۔ ایٹمی اسلحہ یا دوسرے ہتھیار کیا ڈیکوریشن پیس ہیں؟ اچھے میاں
صاحب نے تین سو بھارتی قیدیوں کی رہائی کا تحفہ بھی بلاتاخیر دیا۔ بھارت کا
تعصب بھی اس کا اٹوٹ انگ ہے۔ انہوں نے ایک بھی پاکستانی قیدی کو خیرسگالی
کے جواب میں رہا نہ کیا۔
میاں صاحب کا دہلی پہنچنے پر جو فقیدالمثال استقبال ہوا ساری پاکستانی قوم
کے سر ندامت سے جھک گئے۔ موذی جائے تقریب میں کھڑامہمانوں سے رسمی ہاتھ
ملارہاتھا۔ میاں صاحب سے بھی وہیں کھڑے کھڑے ہاتھ ملایا۔ یہ منظر میں نے
کئی بار مختلف زاویوں سے دیکھا۔ مودی نے اپنے پاؤں جمائے رکھے۔حسینہ
واجدخصوصا ،کرزئی ودیگر سربراہان بھارت کے شکرگذاروں میں سے ہیں۔کرزئی نے
بھارتیوں کو خوش کرنے کے لیئے پاکستان کے خلاف زہربھی اگلالیکن انکی عالمی
سطح پر کوئی اہمیت نہیں۔میاں نواز شریف صرف شریف فیملی کے سرخیل یا بھارت
میں قابل قدر انویسٹر ہی نہیں بلکہ پاکستان کی عزت اور غیور قوم کے نمائندہ
کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے دہلی پہنچنے پر تھرتھلی کا سماں ہوتا۔ جہازکے
اندرسے اعزاز کے ساتھ باہر لائے جاتے ۔ بھارتی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما
یا سابق وزیر اعظم اپنی کابینہ کے ہمراہ پاکستان کے وزیر اعظم کا استقبال
کرتے۔ لوگ آئے لائین میں کھڑے دولہا سے ہاتھ ملایا۔ خبر کیا چلی کہ میاں
صاحب کو منموہن کے ساتھ والی کرسی پر بٹھایاگیا ۔ افسوس ہماری ناک نیچی
ہوگئی۔ اب چند منٹ کی ملاقات ، یار زندہ صحبت باقی۔۔اب صحبت کب ہوگی؟مودی
کوژہ پشت ہوچکا نجانے کتنے دن باقی ہیں۔ میاں صاحب نے تو کہدیا کہ 1999 میں
جہاں سبق چھوڑا تھا وہاں سے شروع کریں گے۔ جیو اور بھارت کی امن آشا میاں
صاحب کے لیئے ہی مفید ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان کی بجائے بھارت میں
سرمایہ کاری کو ترجیح دی ہے۔جیو نے جی بھر کر ہندوانیوں کا کلچر پھیلایا
اور اسکی تقلید میں کئی اور بھی چینل بہتی گنگا میں نہارہے ہیں۔ میاں صاحب
نے بلا ضرورت و وجہ پریس کانفرنس کا شوق بھی پورا کیااور اس میں اپنی قوم
کو مایوس کیا۔ کشمیرکے کے مسئلے کو گول کر گئے ، بلوچستان اور سرحدی علاقوں
میں بھارتی مداخلت کے بارے ایک لفظ تک نہیں کہا۔ جبکہ بھارت کی سیکریٹری نے
برملا پاکستان کو رگڑا دیا ۔ بمبئی دہشت گردی کیس کا کوڑا سارا پاکستان پر
ڈالا، کشمیر میں جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کہہ کرپاکستان کو مورد الزام
ٹہرایا جبکہ مزید مطالبات بھی کیئے اورپاکستان کے وفاق اور سالمیت کے بارے
جو کہا وہ کسی پاکستانی کو قبول نہیں۔ لیکن پاکستان کے نمائندے خوف زدہ
ہوئے یا ذاتی مصلحتو کا شکار رہے۔ا ن تمام حقائق کے منظر میں قوم کو کسی
خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیئے۔ سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا ۔
لیاجائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا۔ |