امریکی مفادات پر مشتمل کیری
لوگر بل کی منظوری کیا حکومت کی مجبوری ہے؟
اَب کیری لوگر بل کا تھپیڑا دیکھو......اور حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام
کی قوت برداشت
کیری لوگر بل ......اور حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام کا امتحان
آج ملک کے معتبر سیاسی حلقے اپنے تحفظات اور اِن خدشات کا برملا اظہار
کررہے ہیں کہ حکومت نے امریکی مفادات پر مشتمل وضاحتوں کے بعد کیری لوگر بل
کو جس خاموشی اور رازداری سے قبول کر لیا ہے۔ اِس کے یوں قبول کئے جانے سے
اِس بل کے مشکوک ہونے کے اور زیادہ امکانات پیدا ہوگئے ہیں اور اِس کے
علاوہ یہ بھی کہ وزارت خارجہ کے ذرائع نے اِس بل سے متعلق یہ کہہ کر ”اَب
کیری لوگر بل منسوخ ہوسکتاہے، نہ ترمیم کرانا ممکن ہے، یہ جیسا ہے ویسا ہی
قبول کرنا مجبوری ہے۔“ پوری پاکستانی قوم کو ایک ایسے مخمصے اور الجھن میں
مبتلا کردیا ہے کہ قوم اِس تذبذب کا شکار ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو آخری
ایسی بھی کیا جلدی پڑی تھی کہ انہوں نے صبر اور فہم وفراست سے کام لئے بغیر
ہی انتہائی عجلت میں اِسے منظور کر کے پوری پاکستانی قوم کی بقا و سالمیت
اور اِن کی خود مختاری کا سودا بڑی آسانی سے یوں کرلیا ہے کہ جیسے کچھ ہوا
ہی نہیں ہے اور آج ہمارے یہ حکمران اپنی اِس کامیابی پر بغلیں یوں بجا رہے
ہیں کہ جیسے ایسا کرنا اِن کی اپنی بھی دلی خواہش تھی۔ جو امریکیوں نے بڑی
آسانی سے پوری کردی ہے۔
یہ اور بات ہے کہ اِس بل کی یوں منظوری سے اَب پاکستانی حکمرانوں،
سیاستدانوں اور عوام کے صبر و برداشت کا امتحان بھی شروع ہوچکا ہے جو دنیا
بھی دیکھے گی کہ کیری لوگر بل کے تھپیڑے پاکستان کو کہاں سے کہاں لے جاتے
ہیں اور جس بنیاد پر امریکیوں نے پاکستان کی امداد کا ٹھیکہ لیا ہے۔ اِس
ملک کی مفلوک الحال عوام کی کتنی حالت زار سنبھلتی ہے یا نہیں؟ یہ تو بعد
کی بات ہے۔
اگرچہ دوسروں کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے اور لومڑی جیسی چالاکی کا مظاہرہ
کرنے والے امریکی حکمرانوں اور اِن کے تھینک ٹینک میں شامل امریکیوں نے
پاکستان کو سالانہ ڈیڑہ ارب ڈالر(ناٹ فور ملٹری امداد بلکہ اونلی فور
پرائیویٹ سیکٹر کی) امداد کی مد میں پہلے پانچ سال تک تو ساڑھے سات ارب
ڈالر اور ایک خبر یہ بھی ہے کہ جب اِس سے بھی کچھ نہیں ہوسکے گا تو پھر
آئندہ سالوں میں مزید پانچ ارب ڈالر تک دینے کا جو وعدہ حکومت پاکستان سے
کیا ہے اِس کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ اِس کی مثال پاک امریکہ تعلقات
کے حوالے سے گزشتہ 62سالوں میں کہیں نہیں ملتی ہے۔ یہاں میرے خیال سے یہ
کہنا تو واقعی درست ہے کہ امریکیوں کی اِس طرح کی ہمدردی کی مثال پاکستان
کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ہے۔ اور بھلا ملتی بھی تو کیسے؟ یہ امریکی ہیں۔
یہ لوگ مکھیوں کی چاہت اور محبت میں یوں ہی چینی زمین پر نہیں پھینکتے کہ
جب تک انہیں یہ یقین نہیں ہوجاتا کہ اِن کے اِس عمل سے انہیں کتنا فائدہ ہے
اور یہ امریکی اپنے کسی بڑے مفاد کے بغیر یوں ہی کسی پر نہ تو اپنا قیمتی
وقت برباد کرتے ہیں اور نہ ہی کسی پر اپنے ڈالر نچھاور کرتے پھرتے ہیں۔ جب
تک انہیں یہ یقین نہیں ہوجاتا کہ کوئی اِن کے کتنے کام کا ہے اور اَب جبکہ
امریکا کو اِس بات کو پورا یقین ہوچکا ہے کہ پاکستان کی چاپلوسی کر کے ہی
اِس میں گھسنے کا موقع ہاتھ آسکتا ہے تو وہ ایسا کررہے ہیں اور اِس کے بعد
یہاں اچھی طرح سے اپنے قدم جمانے کے ساتھ ہی ہم (امریکی ) یہاں سے چین اور
ایران کو قابو کرسکتے ہیں تو تب ہی یہ پاکستان پر اپنی مہربانیوں کے پہاڑ
ڈھا رہے ہیں۔ اگر آج امریکا کا یہ مفاد نہیں ہوتا تو مجال ہے کہ امریکا
پاکستان پر سالانہ ڈیڑہ ارب ڈالر کے حساب سے پانچ سال تک ساڑھے سات ارب
ڈالر کی بارش برساتا۔
بہرکیف! پہلے تو امریکیوں نے کیری لوگر بل کے حوالے سے پاکستان کو دی جانے
والی امداد کو سخت ترین شرائط کے ساتھ دینے کے لئے دباؤ ڈالا تھا۔ مگر جب
پاکستانیوں نے اِن کی جانب سے عائد کی جانے والی سخت ترین شرائط پر چیخنا
چلانا شروع کیا۔ تو اِن ہی شاطر اور عیار امریکیوں نے بعد میں مصالحت کے
تحت اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اپنی پانچ صفحات پر مشتمل وضاحتوں کو
بڑی مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ پروتے ہوئے اِس بل کو پاکستانیوں کے متھے
دے مارا اور وہ یوں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئے اور ہمارے یہ بیچارے اور
معصوم حکمران سالانہ ڈیڑہ ارب امریکی ڈالر کی ملنے والی دستاویز کو اپنے
ہاتھوں میں تھامے من ہی من میں خوش ہورہے ہیں کہ انہوں نے کوئی بڑا اور
تاریخی کارنامہ انجام دے ڈالا ہے حالانکہ ہمارے اِن حکمرانوں کے اِس انوکھے
کارنامے پر اَب قوم یہ یاد رکھے کہ اِن امریکیوں نے پاکستانی حکمرانوں کی
آنکھوں میں دھول جھونک کر انہیں کیری لوگر بل کے عوض خرید لیا ہے اور اَب
قوم آئندہ چند دنوں میں امریکیوں کی غلامی میں جانے والی ہے۔ اور بس .....(ختم
شد) |