شرمناک ذلت آمیز شرائط کے ساتھ
تاریخی دستاویز۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیری لوگر بل، وضاحتی بیان کا ناٹک .....کھلا دھوکہ اور مذاق
ایک دانشور دوست کا خیال ہے کہ ”جب حکمرانوں کو حالات و واقعات اور مستقبل
میں لاحق اندیشوں، خدشات اور خطرات کو اپنے حقیقی خدوخال کے بجائے، اپنی تن
آسانی،عیش و عشرت اور خواہشات کے سانچے میں ڈھال کر دیکھنے کا مرض لاحق
ہوجائے تو ملک و قوم کے مستقبل پر منڈلاتے چیختے چلاتے اور چنگاڑتے خطرات
بھی اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں، ایسی حالت میں فہم و ادراک اور احساس زیاں
کے تمام دروازے بند ہوجاتے ہیں، نہ تو آنے والے موسموں کا سراغ ملتا ہے، نہ
ہی خزاں رتوں کی پہچان باقی رہتی ہے اور نہ ہی خنک و خشک ہوائیں بہار
موسموں کی خوشبو اور نرمی و لطافت کا احساس باقی رہنے دیتی ہیں اور جب یہ
مرض شدت اختیار کرجائے تو بہار و خزاں کی تمیز اور دھوپ و چاندنی کا فرق
بھی جاتا رہتا ہے٬ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم، ارادوں کو کمزور،
اعصاب کو شل اور عزائم کو مضمحل کردینے والی یہی بیماری اس وقت ہمارے
حکمرانوں کے دل و دماغ میں گھر کرچکی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قوموں کے معاملات کی صورت گری کرنے والے رہبر و رہنما اور
حکمران بھی جب حالات و واقعات کا درست تجزیہ نہ کرسکیں اور ان کی نگاہ
بصیرت صحیح تناظر میں جائزہ لینے کے بجائے دل میں چھپی آرزؤں، امنگوں اور
تمناؤں کے دریچے کھول بیٹھے یا دستر خوانی قبیلے کے خوشہ چینوں اور فکر
اغیار کے اسیر غلاموں کی بصارت و بصیرت پر بھروسہ کرنے لگیں تو اچھی بھلی
باوقار اور غیرت مند قوم بھی مصائب و آلام اور آزمائش و ابتلاء کا شکار
ہوجاتی ہے اور راستے اور منزل کے واضح تعین کا زاد راہ اور زاد سفر رکھنے
والے قافلے بھی خود فریبی اور خوش فہمی کی غلام گردشوں میں بھٹک جاتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد پتھر کے زمانے میں جانے کے خوف سے خود سپردگی اور غلامی
کے اندھے اور تاریک راستوں پر شروع ہونے والا سفر آج بھی پورے زور و شور سے
جاری ہے اور ہمارا قافلہ فہم و ادراک سے محروم اور بے شعوری کی انہی غلام
گردشوں میں بھٹک رہا ہے، وہی بساط ہے وہی بازیگر ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ
ہمارے اقتدار کی بساط پر مہرے بدل گئے ہیں، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ شرمناک
اور ذلت آمیز شرائط پر مبنی غلامی کی نئی دستاویز ”کیری لوگر بل“ پر عوام،
میڈیا اور مسلح افواج کے شدید تحفظات اور اعتراضات کے باوجود امریکی صدر
بارک اوباما کے دستخط ہوچکے ہیں اور اب وہ ایک قانون بن چکا ہے۔
گو کہ متنازعہ اور توہین آمیز شرائط پر مبنی بل کی منظوری کے خلاف ملک میں
اٹھنے والے احتجاجی طوفان اور فوج کے شدید تحفظات نے امریکہ کو دفاعی
پوزیشن پر دھکیل دیا تھا اور خود پاکستانی حکومت نے بھی بل کے خلاف ممکنہ
ردعمل سے بچنے کیلئے اپنے وزیر خارجہ کو امریکہ دوڑایا تھا، لیکن بل کے
محرک امریکی سینیٹر جان کیری اور ایوان نمائندگان کی امور خارجہ کمیٹی کے
سربراہ ہاورڈ برمین نے بل میں کسی تبدیلی سے صاف انکار کرتے ہوئے ایک ایسا
وضاحتی بیان جاری کیا، جس کی اپنی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، رہ گئی
اخلاقی حیثیت تو وہ بھی مکمل طور پر امریکی صوابدید اور اُس کی اُس نیک
نیتی پر منحصر ہے جس کے معنی دور جدید کی امریکی لغت میں کچھ اور ہی ہیں۔
یہ بالکل ایسا ہی جیسے آپ کسی کو گولی مارتے ہوئے کہیں کہ ہم آپ کو بڑی نیک
نیتی کے ساتھ گولی مار رہے ہیں، کیونکہ ہمارا ارادہ آپ کو مارنے یا نقصان
پہنچانے کا قطعاً نہیں ہے اور نہ ہی ہم یہ گولی آپ کو آپ کی اجازت سے مار
رہے ہیں، کیونکہ گولی مارنے کا فیصلہ، وقت اور نشانے کی جگہ کا انتخاب اور
اختیار ہمارا ہے آپ کا نہیں، ہم جب چاہیں گے، جہاں چاہیں گے اور جیسے چاہیں
گے آپ کو مارنے اور نقصان پہنچانے کے ارادے کے بغیر پوری نیک نیتی کے ساتھ
گولی ماریں گے، درحقیقت یہ اس امریکی وضاحت کا مطلب ہے جو اب کیری لوگر بل
کے ساتھ نتھی کردی گئی ہے اور جسے ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی
”تاریخی دستاویز“ سے تعبیر کررہے ہیں، جبکہ اراکین کانگریس کے وضاحتی
بیانات پر مشتمل اس قسم کی متعدد غیر اہم مگر بقول شاہ صاحب ”تاریخی
دستاویز“ پہلے ہی امریکی کانگریس کے بے عمل ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
گو کہ امریکی سینٹ اور کانگریس کے مشترکہ وضاحتی بیان میں یہ یقین دلانے
اور دھوکہ دینے کی پوری کوشش کی ہے کہ کیری لوگر بل سے پاکستان کی
خودمختاری پر کوئی حرف نہیں آئے گا، بل میں پاک فوج کے اندرونی معاملات پر
یا ترقیوں پر اثرانداز ہونے کی کوئی شرط شامل نہیں ہے، بل کی شرائط پاکستان
پر عائد نہیں ہوتیں، یہ تمام شرائط امریکی انتظامیہ کیلئے ہیں، پاکستان
کیری لوگر بل کے اندر درج شقیں ماننے کا پابند نہیں، بل میں ایسی کوئی شرط
نہیں کہ امریکہ حکومت پاکستان یا پاکستانی فوج کے کاموں یا اندرونی معاملات
میں کوئی مداخلت کرے، بل کا مقصد صرف پاکستان کی جمہوری حکومت اور جمہوری
اداروں کو مضبوط کرنا ہے، امریکہ پاکستان کی آزادی، جمہوریت اور خودمختاری
کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور پاکستان کیساتھ دیرینہ دوستانہ تعلقات کا
خواہاں ہے۔
لیکن اس وضاحتی بیان میں اس متنازعہ شق جس میں پاکستانی مسلح افواج کی
ترقیوں اور فوجی منصوبہ بندی پر سویلین کنٹرول پر زور دیا گیا تھا، کو
شاطرانہ مہارت کے ساتھ نظر انداز کرتے ہوئے یہ کہہ کر دھوکہ دینے کی کوشش
کی گئی ہے کہ امریکہ پاکستان کے داخلی معاملات، بشمول فوجی افسروں کی ترقی
اور پاک فوج کے داخلی آپریشن کے معاملات میں کوئی رول ادا کرنے کا ایسا
کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی اس بل میں کہا گیا ہے، جبکہ وضاحتی
بیان میں جوہری پھیلاؤ میں ملوث کسی بھی پاکستانی سے پوچھ گچھ یا اس تک
رسائی کی شق کو پاکستان اور امریکہ کی طرف سے جوہری پھیلاؤ کی روک تھام میں
جاری جدوجہد اور باہمی تعاون کی ایک نئی شق سے بدل دیا گیا ہے، اگرچہ
وضاحتی بیان میں یہ بھی نہیں کہا گیا ہے کہ سول انتظامیہ اور پارلیمنٹ کو
فوج کے حوالے سے کنٹرول حاصل ہوگا اور فوج سول انتظامیہ میں مداخلت نہیں
کرے گی اور یہ کہ پاکستان کیری لوگر بل کے اندر درج شقوں کا کتنا پابند ہے
اور کتنا نہیں، اس کی حقیقت ہم اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔
اگرچہ پاکستانی فوجی قیادت اور سیاسی اور عوامی حلقوں نے کیری لوگر بل کی
جن شرائط پر اعتراض کیا تھا کو تبدیل نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی امریکی
قاعدے اور قانون کے مطابق اس میں فوری طور پر کوئی تبدیلی ممکن تھی، چنانچہ
امریکی انتظامیہ نے شاہ محمود قریشی صاحب کو بل کی نیک نیتی کے بارے میں
سینیٹ اور ایوان نمائندگان کا ایک مشترکہ وضاحتی بیان کا تحفہ تھما کر
اسلام آباد روانہ کردیا ہے، ہوسکتا ہے کہ ہماری حکومت اور اس کے اتحادیوں
کے نزدیک یہ وضاحتی بیان پاکستانی عوام، میڈیا اور مسلح افواج کے تمام
اندیشوں، خدشات اور ملک و قوم کے مستقبل پر منڈلاتے خطرات کو دور کرنے کا
یقینی اور کارگر نسخہ ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کیری لوگر بل کے
ذریعے پاکستان کے جوہری صلاحیت اور ایٹمی اثاثوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا
چاہتا ہے، جبکہ دوسری طرف ہمارے حکمران اپنی آزادی اور خود مختاری کی قیمت
پر بھی یہ امداد حاصل کرنے کیلئے بے تاب ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ جب پوری قوم نے کیری لوگر بل کی ذلت آمیز شرائط کو قبول
کرنے سے انکار کردیا تو ایک وضاحتی بیان کا ناٹک رچایا گیا یہ بیان اس بل
کی تیاری میں شامل جان کیری کے اس اعلان کے ساتھ جاری کیا گیا کہ کانگریس
بل منظور کرچکی ہے لہٰذا بل میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی لیکن اس کے باوجود
ہمارے وزیر خارجہ اس وضاحتی بیان کو پاکستان کی شاندار کامیابی قرار دے رہے
ہیں اور اسے ایک تاریخی دستاویز گردانتے ہوئے قانون اور کیری لوگر بل کا
حصہ سمجھ رہے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ اس وضاحتی بیان کے بعد کیری لوگر بل
سے پاکستان کی خود مختاری کے بارے میں لاحق اندیشے ختم ہوگئے ہیں اور ثابت
ہوگیا ہے کہ حکومت پاکستان کی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار
نہیں ہے۔
مقام حیرت ہے کہ عوام، میڈیا اور فوج کے شدید احتجاج کے بعد کل تک جس کیری
لوگر بل کے بارے میں حکومت اور پارلیمنٹ کا اس بات پر اتفاق تھا کہ یہ بل
پاکستان کے اندورنی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے، آج اس بل کے متن میں
ایک شوشے کی تبدیلی کے بغیر محض ایک ایسے وضاحتی بیان جس کی اپنی کوئی
قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں، سے کیسے صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے، جب تک کہ
اس بل کے متن میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جائے اور قابل اعتراض شقوں کو حذف
نہ کیا جائے، اس وقت تک یہ دعویٰ کیسے درست ثابت ہوسکتا ہے کہ ہماری قومی
خود مختاری اور سا لمیت پر کوئی آنچ نہیں آئے گی، چنانچہ ایسی صورت میں اس
وضاحتی بیان کو ایک کھلے فریب کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔
یہ خوش فہمی اور خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے کہ پاکستان کے ہی نہیں خود
امریکی مبصرین بھی کیری لوگر بل کے سلسلے میں وضاحتی بیان کو ایک رسمی
کاروائی سمجھتے ہیں، جس کے تحت قابل اعتراض شرائط کو ختم کرنے کے بجائے یہ
کہہ کر برقرار رکھا گیا ہے کہ ان کی صحیح تشریح نہیں ہوسکی، جبکہ خود
امریکی نمائندوں کے مطابق کانگریس کے وضاحتی بیان کا مقصد بل کی درست تعبیر
و تشریح اور اس پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد ہے، دراصل یہی وہ عوامل
ہیں جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اس بل کو مسترد کرچکی ہے، آفتاب شیر پاؤ
سمیت خود حکومت کے کئی اتحادی اپنے تحفظات کو اظہار کر رہے ہیں اور خود
پاکستانی قوم کسی طور بھی اس فریب کو حقیقت تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔
لیکن اس کے باوجود حکومت امریکی وضاحت کے میٹھے ملمع میں لپٹی کیری لوگر بل
کی ذلت آمیز شرائط کو قبول کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے، حکومت کا یہ سمجھنا کہ
اس وضاحتی بیان سے پاکستان مخالف قابل اعتراض شرائط کو غیر مؤثر بنا دیا
گیا ہے اور یہ کہ اس وضاحتی بیان کو کیری لوگر بل کا حصہ اور قانون کا درجہ
حاصل ہوچکا ہے، خوش فہمی اور خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے، یوں لگتا ہے کہ
فہم و ادراک اور احساس زیاں کے سارے دروازے بند ہوچکے ہیں، کمزور ارادوں،
شل اعصاب اور مضمحل عزائم نے دل و دماغ مقفل کردیئے ہیں، فکری بانچھ پن کی
یہی وہ بیماری ہے جس کا شکار آج ہماری قیادت نظر آتی ہے، درحقیقت یہی وہ
عذاب ہے جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ” جب اللہ کسی قوم پر عذاب نازل
کرتا ہے تو اس کا تدبر چھین لیتا ہے۔“ اور جب فہم و تدبر اور فکر شعور چھن
جائے تو پھر قوموں کے مقدر میں محکومی اور غلامی لکھ دی جاتی ہے۔
آؤ پھر سے غلام بن جائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ریاست انکلِ سام بن جائیں
تھام کر دامنِ اوباما کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غلام ِ عالی مقام بن جائیں |