دھرنوں کا گرم موسم

ملک بھر میں موسم میں تبدیلی کیسا تھ سیاسی مو سم بھی گرم ہو نا شروع ہو گیا ہے اور سیا سی موسم میں یہ تبدیلی حکومت کے لئے سرد مہری کی حثییت رکھتی ہے اور یہ روز اول سے ہی پاکستان کا طرہ امتیاز ہے کہ سیاسی موسم میں یہ تبدیلی جمہوری لوگ جمہوریت کا حسن سمجھتے ہیں شاید یہ مصنوعی حسن بھی ہمارا ہی طرۂ امتیاز ہے جسے دوام بخشنے کی خاطر آ ج کل ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان میدان میں نکلے ہو ئے ہیں جن کے جھنڈے تلے ایم کیو ایم ،ق لیگ اور آل پاکستان مسلم لیگ کی شرکت متوقع ہے اور پیپلز پارٹی کو شرکت کی دعوت دی جا ئے گی مگر وہ اس کا حصہ نہیں بنے گی ،اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے انہیں دھرنوں کے بعد مذاکرات اور معاہدے کروانے میں مہارت حاصل ہے اور گرینڈ دھرنوں کے بعد حکومت سے مذاکرات کے لئے پیپلز پارٹی کو علیحدہ رہنا ہو گا جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری بھی( بقول انکے)یزیدوں سے معاہدے کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اگر تحریک انصاف ڈاکٹر قادری سے ملے گی تو اپنا آئندہ انتخابات میں بننے والا ووٹ بنک تباہ کربیٹھے گی ،گزشتہ برس عوامی تحریک کے بلٹ پروف دھرنے میں شرکت نہ کرکے عمران خان نے سیاسی پختگی کا اظہار کیا کیونکہ اگر اس وقت عمران خان شامل ہو جاتے تو بعد میں یزیدوں سے معاہدہ ہو جاتا کے پی کے میں بننے والی حکومت بھی خطرے میں پڑ جاتی ،کیونکہ معاہدہ کرنے سے پہلے گھروں میں بیٹھی عوام مکمل طور پر ڈاکٹر قادری کے اعتماد میں آ چکی تھی اور گھروں سے نکل کر ڈی چوک جمع ہو نے کے لئے بالکل تیار تھی مگر جب عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی اس وقت عوام نے وہی رائے قائم کرلی جو پہلے تمام سیاسی پارٹیوں کے متعلق رکھتے تھے ۔۔۔اس وقت بھی صورتحال ایک ہی ہے پاکستان تحریک انصاف جمہوری طریقے سے نظام میں تبدلی چا ہتے ہیں اور ساتھ یہ بھی عندیہ دیتے ہیں کہ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیں گے جب کہ عوا می تحریک مکمل نظام الٹنے کی بات کرتی ہے جس طرح دونوں پارٹیوں کے نظریات اور ویژن نہیں ملتے اسی طرح دونوں اکھٹے ملکر تحریک نہیں چلا سکتے ۔۔ویسے بھی آپ کینیڈا میں بیٹھ کر امریکہ کا نظام ٹھیک نہیں کر سکتے ،بنگلا دیش میں بیٹھ کر انڈیا کا نظام نہیں بدلا جاسکتا نظام بدلنے اور غریبوں ،مزدوروں کے حق کی بات اس وقت ہی حقیقت لگتی ہے جب ان کے درمیان رہ کر ان کی زندگی میں شامل ہو کر جدوجہد کی جا ئے ،اسطرح نظام بدلنے کی باتیں بالکل مصنوعی لگتی ہیں اور ویسے بھی عوام اب مصنوعی لوگوں کو پہچان سکتی ہے کیونکہ آج تک عوام نے جتنے بھی عوامی نما ئندے منتخب کیے وہ مصنوعی ہی تھے موجودہ حکومت بھی تو مصنوعی الیکشن کی بدولت عمل میں آئی ،کیونکہ سوائے ن لیگ کے اس وقت تمام سیاسی پارٹیوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کا یہ مو قف ہے کہ 11مئی کو جمہوری الیکشن غیر جمہوری طریقے سے ہو ئے جس کی بدولت تحریک انصاف کا مینڈیٹ چوری ہو گیا ۔ ۔ ۔مینڈیٹ چوری ہونا اور کسی غریب کی بھینس چوری ہو جانا دونوں معمول کی بات بن چکے ہیں جس طرح ایک غیریب کی نہیں سنی جا تی کچھ اس طرح کی ہی سیاسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے ۔۔۔!

پاکستان تحریک انصاف جس طرح دھرنوں کے چھکے مار رہی ہے اس سے حریف جماعتوں خاص طور پر ن لیگ کے لئے ایک غیر معمولی ماحول پیدا ہو چکا ہے اس وقت پاکستان تحریک انصاف ملک کی ایک بڑی پارٹی بن چکی ہے مگر کچھ فیصلے ایسے بھی ہیں جو ایک بڑی پارٹی کو زیب نہیں دیتے ۔ ۔ ۔بہر حال اس پر پھر کبھی کسی کالم میں بات ہو گی۔۔۔حالیہ دنوں میں فیصل آباد میں ہو نے والے جلسے میں جس طرح عوام نے شرکت کی اس سے تو یہی محسوس ہو تا ہے کہ تحریک انصاف کے پاس سٹریٹ پاور آ چکی ہے اور وہ ایک حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر نے کی اہلیت رکھتی ہے جبکہ دوسری طرف ن لیگ کو دیکھا جا ئے تو انہوں نے نہایت غیر سیاسی ذمہ داری کا مقابلہ کرتے ہو ئے تحریک انصاف کے جلسے کے مقابلے میں کنسرٹ کروادیا جس میں نصیبو لال اور اسطرح کے مشہور گلوکار بلا ئے ۔یہاں یہ سوال بھی پیدا ہو تا ہے کہ کیا ن لیگ سیاسی طور پر اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا مقابلا کرنے کے لئے نصیبو لال یا کسی گلو کار کا سہارا لینا پڑے گا ؟ یا پھر ن لیگ کوئی نئی سیاسی روایت ڈالنا چا ہتی ہے ؟ یہاں پر اگر مقابلہ کرنا ہی تھا تو تحریک انصاف کے مقا بلے میں اپنا سیاسی جلسہ بھی تو رکھا جاسکتا تھا۔۔۔مسلم لیگ ن بو کھلا ہٹ کا شکار نظر آ تی ہے اور یہ دباؤ مزید بڑھے گا کیو نکہ ایک طرف طالبان سے مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار ہو گئے ہیں اور دوسری طرف دھرنے ۔ ۔۔

دوسری طرف عمران خان نے اگلا جلسہ سیالکوٹ میں کرنے کا عندیہ دیا ہے سیا لکوٹ خواجہ آ صف کا حلقہ ہے تحریک انصاف اب سیالکوٹ کو فتح کرنا چاہتی ہے سیالکوٹ بھی فیصل آباد کی طرح ایک چیلنج کی حثییت رکھتا ہے فیصل آباد ررانا ثنا ء اﷲ اور عا بد شیر علی کا حلقہ تھاجس میں میڈیا ررپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کامیاب رہی۔۔ ۔ایک خبر کے مطابق تحریک انصاف سیالکوٹ کے بعد بہا ولپور اور پھر کراچی کے بعد ایک بہت بڑا لانگ مارچ کرنے والی ہے جو حکومت کے لئے ایک فائنل مارچ بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔
Ali Raza shaAf
About the Author: Ali Raza shaAf Read More Articles by Ali Raza shaAf: 29 Articles with 27136 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.