بس ہوا نکل رہی ہے

موجودہ حکومت خصوصاً وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار روز خوشخبریاں سنا رہے ہیں کہ پاکستان میں بہت سرمایہ کاری آ رہی ہے۔ جناب شہباز شریف بھی اسی مشن پر نظر آ رہے ہیں مگر سرمایہ کاری ہے کہ خبروں سے باہر آ ہی نہیں رہی۔ بہت سے لوگ خواہاں ہیں کہ سرمایہ کاری کی بجائے لٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے مگر لٹی ہوئی دولت کا مطالبہ سنتے ہی بہت سے اہل اقتدار کا چین اور سکون لٹ جاتا ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے الیکشن کے دوران اس سلسلے میں بہت نعرے بازی کی تھی لیکن موجودہ صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ہاتھی کے دکھانے والے دانت تھے۔ کھانے والے دانت تو خود بھی اسی کام میں مصروف ہیں۔ عوام کی خواہش ہے کہ لٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے مگر کیسے لائی جائے یہ سمجھ سے باہر ہے۔ حکمرانوں کو چاہے وہ پہلے ہوں یا موجودہ یہ مطالبہ اپنی ذات پر حملہ لگتا ہے۔

بیرون ملک پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد ملک میں سرمایہ کاری کی خواہاں ہے مگر امن و امان کی صورت حال اور بے لگام سرکاری ادارے ان کی اس خواہش کے قاتل ہیں۔ پاکستان سے بہت سے سرمایہ کار اپنی دولت سمیٹ کر متحدہ عرب امارات، کینیڈا اور یورپ کے بہت سے ملکوں میں مقیم ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں ہر طرف پاکستانی سرمایہ کار ہی نظر آتے ہیں۔ کینیڈا اور یورپ کے ہر ملک میں پاکستانی سرمایہ کار موجود ہیں۔ پاکستانی لیڈروں اور سیاستدانوں نے پچھلی دو دہائیوں میں بہت سا پاکستانی سرمایہ محلات اور فارم ہاؤس خریدنے کے لئے برطانیہ، فرانس، جرمنی اور سپین میں منتقل کیا ہے۔ حکومت سرمایہ کاری کے شور تو بہت کرتی ہے مگر سرمایہ آتا نہیں بلکہ جاتا ہے۔ لوٹ مار کرنے والے اتنی صفائی سے سرمایہ منتقل کرتے ہیں کہ متعلقہ اداروں کے سوا کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی اور متعلقہ ادارے، انہیں تو اپنے حصے سے غرض ہوتی ہے۔ پاکستان یا پاکستانی عوام سے نہیں۔

پاکستانی امراء کی نئی پسندیدہ سرزمین سپین، فرانس کے ساتھ اور پرتگال کے مشرق میں واقع ہے۔ یہ خرگوشوں کی سرزمین ہے۔ سپین کے لغوی معنی بھی ’’خرگوشوں کی سرزمین‘‘ ہے۔ یہاں بہت زیادہ خرگوش پایا جاتا ہے اور یہاں کے باشندوں کی مرغوب غذا ہے۔ سپین میں خرگوشوں کی باقاعدہ فارمنگ ہوتی ہے اور خرگوش کے سالن سپین کے ہوٹلوں کی بہترین ڈش ہیں۔ سپین کے لوگ سالانہ تین کروڑ خرگوش کھا جاتے ہیں۔ مگر ہمارے پیارے اور لٹیرے لیڈر وہاں خواب خرگوش کے مزے لینے جاتے ہیں اور جب آنکھ کھلتی ہے تو عوام کے نام پر ایک آدھ بیان داغ دیتے ہیں کہ عوام بھی خوش ہو جائیں یا بیوقوف بن جائیں۔
ہمارے ا دارے جو لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے ذمہ دار ہیں اگر انہیں کوئی نشاندہی بھی کر دے کہ وہ لٹی ہوئی دولت ہے تو وہ کوئی ایکشن لینے کی بجائے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ کبوتر کی بات چلی تو یورپ کا خوبصورت ملک ہنگری یاد آیا۔ بڈاپسٹ ہنگری کا صدر مقام ہے۔ بڈاپسٹ کبوتر اپنی خوبصورتی اور دلکشی کے اعتبار سے دنیا بھر میں بہترین کبوتر جانا جاتا ہے مگر مصیبت یہ کہ بڈاپسٹ کی آبادی اٹھارہ لاکھ ہے جبکہ کبوتر اس سے بہت زیادہ ہیں۔ پچھلے سالوں میں کبوتروں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی تھی کہ حکومت کو کبوتروں کی خاندانی منصوبہ بندی کرنا پڑی۔ باقاعدہ ایک محکمہ بنایا گیا اور کبوتروں کا دانہ بنانے والی کمپنیوں کو ایسی ادویات شامل کرنے کا کہا گیا جو کبوتروں کے لئے مانع حمل کا کام کرتی تھیں۔ چنانچہ اس سارے عمل کے بعد کبوتروں کی تعداد میں قدرے کمی ہوئی ہے۔

بات تھی سرمایہ کاری کی۔ سرمایہ کاری کے لئے کسی کو ترغیب دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول کی فراہمی ضروری ہوتی ہے جو حکومت یہ ماحول فراہم کرنے میں کامیاب ہو جائے سرمایہ کار خودبخود کھینچتے چلے آئیں گے مگر جہاں کارخانہ داروں کا اغوا برائے تاوان روز کا معمول ہو جہاں بجلی سارا دن آنکھ مچولی کھیلتی ہو، جہاں گیس راشن کی صورت میں ملتی ہو، جہاں حکومتی اہلکاروں کو، کسی کی فیکٹری چلے یا نہ چلے فقط اپنا حصہ ہر قیمت پر وصول کرنے کا خبط ہو وہاں لوگوں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دینا بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے مگر کیا کریں ہمارے سیاسی بھینسے عادتاً ہر وقت کسی نہ کسی بھینس کی تلاش میں نظر آتے ہیں۔

ہمارے لیڈروں کے نزدیک سرمائے کا حصول ایک بہترین ذریعہ امداد ہے۔ امداد کے حصول کے لئے وہ کاسہ لئے ہر وقت غیر ملکی دوروں پر رہتے ہیں۔ کبھی آئی ایم ایف، کبھی امریکہ، کبھی چین، کبھی متحدہ عرب امارات اور کبھی سعودی عرب۔ کہیں سے امداد مل جائے ڈھول بجنے لگتے ہیں۔ فخر سے امداد ملنے کا اعلان ہوتا ہے۔ گویا بھیک نہیں کوئی حق ملا ہے۔ اہل درد لاکھ کہیں کہ پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھیں مگر کیوں سیکھیں۔ دل والوں کی بات کون سنتا ہے۔ ہمیں تو پیسوں سے غرض ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کل کلاں ہماری حکومت کا حال اس فقیر جیسا نہ ہو جائے جو روزانہ ایک سیٹھ کے پاس آتا اور نعرہ لگاتا ’’سیٹھ صاحب کچھ نکلتا ہے تو عنایت کیجیے۔‘‘ سیٹھ صاحب جیب میں ہاتھ ڈالتے، کچھ پیسے نکالتے، اسے دیتے اور ساتھ ہی ہدایت کرتے۔ بیٹا نوجوان ہو۔ محنت کرنا سیکھو۔ خود کماؤ اور کھاؤ۔ ہر روز مانگنا اچھا نہیں ہوتا۔ نوجوان فقیر سیٹھ کی بات سنی ان سنی کر دیتا۔ ایک دن سیٹھ صاحب کا موڈ اچھا نہیں تھا اور وہ کچھ دینے کے موڈ میں نہیں تھے۔ نوجوان نے نعرہ لگایا ’’سیٹھ صاحب کچھ نکلتا ہے تو دیں‘‘۔ سیٹھ صاحب نے کہا ’’بھائی معدہ خراب ہے آج تو بس ہوا نکل رہی ہے۔‘‘
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500423 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More