المیہ پاکستان یہ ہے کہ یہاں قائم ہونے
والی ہر جمہوری حکومت نے عوامی مسائل کے حل کیلئے دیانتدارانہ کوششیں کیں
مگرعوام کو سہولیات ‘ فیض اور ریلیف ہمیشہ غیر جمہوری ادوار میں ہی ملا
کیونکہ پاکستان میں قائم سیاسی و جمہوری اور انتخابی نظام کی وجہ سے کوئی
بھی حکومت یا حکمران عوام کو سہولیات کی فراہمی کی اپنی دیانتدارانہ کوششوں
میں اسلئے مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکا کہ حکومت ہمیشہ جاگیرداروں کے
ہاتھوں یرغمال بنی رہی کیونکہ انتخابی نظام اور سسٹم کی خرابیوں کے باعث
صرف یہی طبقہ ہی پارلیمنٹ میں رسائی کی اہلیت رکھتا ہے جو نہ کبھی ملک و
عوام سے مخلص و فادار تھا اور نہ ہوسکتا ہے لہٰذا عوام کو مضبوط م و خود
مختار بنانے کے ہر حکومتی اقدام کی مخالفت کی کیونکہ یہی وہ طبقے ہے جو
قبضہ شدہ ‘ہیر پھیر کے ذریعے منتقل شدہ اور اختیارات کے ذریعے اپنے نام
منتقل کرائی گئی زمین و جائیداد کے ذریعے حاصل ہونے والی خوشحالی سے
پارلیمنٹ تک پہنچا اور پارلیمنٹ میں پہنچ کر قومی خزانے کی لوٹ مار وبنکوں
کے سے معاف کرائے گئے قرضوں کے ذریعے صنعتکار و سرمایہ دار قرار پایا لہٰذا
پاکستان میں ذراعت سے صنعت اور تجارت تک سب کچھ اسی طبقے کے قبضے میں ہے
یہی وجہ ہے کہ اس ملک میںہر سطح پر کارٹیلز بنے ہوئے ہیںمثلاً بینکنگ
کارٹیل‘ شکر سازی کی صنعت کا کارٹیل‘ سیمنٹ کارٹیل‘آٹا بنانے والے اداروں
کا کارٹیل‘ دالیں اور دیگر غذائی اجناس کا بیوپار کرنے والوں کا کارٹیل‘آٹو
موبائل صنعت کا کارٹیل‘دودھ فراہم کرنے والوں کا کارٹیل‘ نجی تعلیمی اداروں
کا کارٹیل‘ بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے ذمہ دار اداروں کا کارٹیل‘
پیٹرولئم مصنوعات فروخت کرنے والے اداروں کا کارٹیل‘ مختلف نوعیت کی طبی
خدمات فراہم کرنے والے اداروں کا کارٹیل‘ ادویہ سازی کی صنعت کا
کارٹیل‘گوشت اور مرغی کی تجارت کرنے والوں کا کارٹیل وغیرہ جنہوں نے حکومت
کو یرغمال بنارکھا ہے اور اپنے مفادات کے تحت اشیائے ضروریہ کے نرخوں اور
مہنگائی میں بے وجہ و بلاسبب اضافے کے ذریعے عوام کی زندگی کو عذاب بنائے
ہوئے ہیں جبکہ حکومت ان کارٹیلز کے ہاتھوں یرغمال بنی عوامی مفادات کے تحفظ
سے مکمل طور پر محروم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مہنگائی کا گراف بڑھتا جارہا ہے
اور اشیائے صرف عوام کی قوت خرید سے باہر ہوجانے کے باجود قیمتوں کے
استحکام سے محروم ہیں جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری
اوگرا کی جانب سے منظور کرلئے جانے کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
اضافے سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان آئے گا جبکہ 30یوم کی مسافت پر موجود
ماہ رمضان سے قبل مہنگائی میں اضافہ ذخیرہ اندوزوں کو ذخیرہ اندوزی کی جانب
راغب کرے گا جس کے بعد اجناس سے لیکر پھل اور ادویات تک مارکیٹ سے غائب
ہوجائیں گے اور مصنوعی بحران کی صورتحال پیدا کرکے بلیک مارکیٹنگ اور
ناجائز منافع خوری کو فروغ دیا جائے گا جس کے اثرات ماہ رمضان المبارک پر
اس طرح سے اثر انداز ہوں گے کہ رب کی رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ یعنی ”ماہ
صیام “ عوام کے زحمت و جبر کا مہینہ بن جائے گا اور روزہ دار حکمرانوں کو
بد دعائیں دینے پر مجبور ہوجائیں گے جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ روزہ داروں کی
دعائیں اور بد دعائیں ودنوں ہی قبول ہوجاتی ہیں اسلئے حکمرانوں کو اپنے
محفوظ مستقبل کیلئے جاگیرداروں ‘ سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کے مفادات
کیلئے کارٹیلز کی من مانیوں پر چشم پوشی کی بجائے عوامی مفادات کے تحفظ میں
مہنگائی کو کنٹرول کریں! |