نواز شریف۔ بھارت کے ساتھ تجارت

ایسا 67 سال کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی بھارتی وزیراعظم نے اپنے حلف اٹھانے کی تقریب میں اپنے پڑوسی ممالک اور خاصکر سارک ممالک کے سربراہوں کو دعوت دی، بھارت کے ایک پڑوسی ہونے کے ناطے پاکستانی وزیراعظم کو بھی اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی گی۔ دہلی جانے والے پاکستانی وفد میں وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی، مشیر خارجہ سرتاج عزیز،پولیٹیکل سیکریٹری آصف کرمانی، سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری اور وزیر اعظم کے صابزادئے حسین نواز شامل تھے جبکہ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط دہلی سے اس وفد کا حصہ بنے۔ یہ یاد رہے کہ ابھی تک نواز شریف کو وزیر خارجہ کےلیے کوئی شخصیت نہیں ملی ہے۔1947ء کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کبھی بھی مثالی تو کیا اچھے بھی نہیں رہے، درمیان میں دو جنگیں ہوچکی ہیں، بنیادی طور پر دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کا مسلئہ موجود ہے جس کو حل کرنے کا وعدہ اقوام متحدہ میں کرکے بھارت اب مکرچکا ہے، جب تک اس مسئلے کا حل نہیں ہوتا دوسرئےمعاملات پر بات چیت تو جاری رکھی جاسکتی ہے لیکن خطے میں پائیدار امن قائم کرناممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ سیاچین، کارگل اورسرکریک کے بھی مسائل ہیں۔ بھارت ایک عرصے سے پاکستان کے حصے میں آنے والے پانی کو روک کر اُسکا ناجائزاستمال کررہا ہے، اس پر ڈیم پرڈیم تعمیر کئے جارہے ہیں، پن بجلی گھر اور نہریں تعمیر ہو رہی ہیں اور معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کا پانی بھارتی علاقوں میں استعمال ہورہا ہے۔ پاکستان کو اپنے دریاؤں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور اگر ایسا ہی رہا تو چند سالوں کے بعد یہ قلت مزید بڑھ جائے گی۔گذشتہ دس سال سے پاکستان دہشت گردی کا شکار بنا ہوا ہے جس میں سب سے زیادہ صوبہ بلوچستان، صوبہ خیبر پختون خوا اور کراچی متاثر ہیں اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بھارت افغانستان میں اپنے قائم کیے ہوئے بے ضرورت کونسلیٹ خانوں کے زریعے پاکستان مخالف دہشت گردوں اور علیدگی پسندوں کی مدد کررہا ہے۔ مندرجہ بالا تمام مسائل کے باوجود اس دعوت نامے کی عام لوگوں کی طرف سے حمایت کی گی کہ شایداس طرح دونوں ملکوں کے حالات کو ٹھیک کرنے میں کچھ مدد ہو۔

نام نہاد سیکولرازم سے26 مئی 2014ء کو ہندوازم میں داخل ہونے والے بھارت کے بارئے میں ایک مضمون" آیئے آپ کو ہندوستانی بچھوؤں سے ملاتا ہوں" میں نے فروری 2013ء میں لکھا تھا۔ اُس مضمون کے شروع لکھا تھا ، "حضرت سعدی فرماتے ہیں کہ میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ" بچھوؤں کی پیدائش عام جانوروں کی طرح نہیں ہوتی، اپنی ماں کے پیٹ میں جب یہ کچھ بڑا ہو جاتا ہے تو اندر سے پیٹ کو کاٹنا شروع کر دیتا ہے اور یوں سوراخ کر کے باہر آ جاتا ہے"۔ حضرت سعدی مزید فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات ایک دانا کے سامنے بیان کی تو انہوں نے فرمایا: "میں سمجھتا ہوں کہ بات درست ہی ہو گی بچھو کی فطرت اور عادت پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اس نے اپنی زندگی کے پہلے دن سے برائی ہی کی ہوگی"۔ ڈنک مارنا بچھوکی فطرت ہے، اور ایسا ہی ہوا جب راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی کوکھ سے جنم لینے والی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے نامزد وزیراعظم اورسنگھ پریوارکے رہنما نریندرمودی نے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے دوسرئے روز پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات میں اپنے پاکستانی ہم نصب نواز شریف کے سامنے پانچ نکات اٹھائے۔ ان پانچ نکات میں کہا گیا ہے کہ "پاکستان دہشت گرد حملوں کو روکے، ممبئی ٹرائل کو جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے، حکومت پاکستان ممبئی حملوں کے منصوبہ سازوں کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے، ممبئی حملوں میں ملوث ملزموں کے درمیان ہوئی گفتگو کے وائس سیمپلز مہیا کئے جائیں اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے خطے کی سطح پر تعاون کرے"۔

دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کا نہ تو کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہونا تھا اور نہ ہی ملاقات کے بعد دونوں وزرائےاعظم میڈیا کے سامنے آئے، البتہ بعد میں ایک پریس بریفنگ میں بھارت کی سيکريٹری خارجہ سجاتا سنگھ نے کہا کہ وزير اعظم نواز شريف سے ملاقات ميں وزير اعظم نريندر مودی نے دہشت گردی کے حوالے سے بھارت کی تشويش کا اظہار کيا۔ سجاتا سنگھ نے مزيد کہا کہ وزيراعظم نواز شريف سے کہا گيا ہے کہ پاکستان کو اپنی سرزمين اور وہ سرزمين جو اس کے زير اثر ہے اسے دہشت گردی کے ليے استعمال نہ ہونے دينے کے اپنے وعدے پر قائم رہنا ہو گا۔بھارتی سيکريٹری خارجہ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے سيکريٹری خارجہ رابطے ميں رہيں گے اور دونوں ملکوں کے درميان تعلقات کو بہتر بنانے کے مواقع تلاش کرنے کی کوشش کريں گے۔ بھارتی سيکريٹری خارجہ سجاتا سنگھ نے کہا ہے کہ نريندر مودی اور نواز شريف کے درميان ملاقات ميں دہشت گردی کے مسئلے پر بھی بات چيت ہوئی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جسطرح بھارتی سيکريٹری خارجہ سجاتا سنگھ نےایک پریس بریفنگ میں بھارت کا موقف میڈیا کے سامنے پیش کیا ٹھیک اُسی طرح پاکستانی سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری بھی ایک پریس بریفنگ میں پاکستان کا موقف پیش کردیتے، لیکن شاید پاکستانی وزارت خارجہ اور باقی وفد کے ارکان اپنا ہوم ورک کیے بغیر بھارت پہنچ گے تھے ۔جس کی وجہ سےوہ بھارت کی طرف سے پیدا کیے ہوئے کسی ایک بھی مسلئے کی طرف بات نہ کرسکے، تعجب ہے کہ ہمارئے وزیراعظم بھارتی وزیراعظم سے مسلئہ کشمیر اور پانی کے مسلئے پر کوئی بات کیے بغیر واپس آگے۔ ملاقات کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ ہونے والی ملاقات انتہائی خوشگوار اور تعمیری ماحول میں ہوئی، مودی نے پاکستان کے پر امن ایجنڈے کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے عوام خوشحالی چاہتے ہیں۔ خطے میں امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ پاکستان اور جنوبی ایشیاء میں خوشحالی کیلئے امن کا قیام ناگزیر ہے۔ دونوں ملکوں کو ماضی کی رنجشیں بھولنا ہونگی۔ تصادم نہیں تعاون سے آگے بڑھنا ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے صرف بھارت کے الزامات سنے ہیں ۔ بہتر ہوتا کہ وہ بھارت میں کوئی بیان نہ دیتے اور واپس پاکستان پہنچ کر ایک پریس کانفرنس میں ان پاکستانی مسائل کو بیان کرتے جو بھارت کے پیدا کردہ ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے بھارتی صدر پرناب مکھر جی سے ملاقات کے علاوہ سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے بھی ملاقات کی لیکن افسوس اُنہوں نے یا اُنکے وفد کے کسی ممبر نے کسی بھی کشمیری حریت پسندلیڈر سے ملنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔

نواز شریف ایک عرصے سے بھارت کے ساتھ تجارت کا فروغ چاہتے ہیں لیکن اگر بھارت کے پاکستان کے بارے میں یہی عزائم ہوں گے جو اُ س نے حالیہ پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات میں ظاہر کیے ہیں اور اگراس کے باوجود پاکستان بھارت کے ساتھ صرف تجارت میں دلچسپی لےگا تو ایسا ناممکن ہے۔ پاکستان اور بھارت کو ملکر ان بنیادی مسائل کو حل کرنا ہوگا جن کی وجہ سے دونوں ممالک کے ڈیڑھ ارب لوگ بنیادی مسائل کا شکار ہیں۔ اگر بھارت ممبئی کی دہشت گردی کو رورہا ہے تو بلوچستان، کےپی کے اور کراچی میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے۔ ویسے تو بھارت کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بھارت کبھی بھی ہمارا اچھا پڑوسی نہ بن سکا لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ بھارت سے تعلقات خراب کیے جایں۔ دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات میں نريندرمودی نے وہی کیا جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے اُس نے سیکھا ہے،کہا جاسکتا ہے کہ سنگھ پریوار کا رہنما نريندرمودی پاکستان کے خلاف نواز شریف کو الزامات سنانے میں کامیاب رہا۔ نواز شریف صاحب آخر میں ایک مرتبہ پھر عرض ہے کہ بھارت سے تجارت کرنا کوئی بری بات نہیں مگر اس سے پہلے پاکستان کو اپنے آپ کو معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کرنا ہوگا ورنہ کمزوروں سے دوستی نہیں کی جاتی بلکہ اپنے مفادات پورئے کیے جاتے ہیں۔ اب آپ چاھیں تو بچھوں کے دیس میں اپنا کمزور ہاتھ دیدیں، یقینا آپ کو اپنے حالیہ دورہ بھارت سے سبق ضرور ملا ہوگا۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 485821 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More