کرپشن سے پاک پاکستان
(عابد محمود عزام, karachi)
کرپشن (corruption) انگریزی زبان
کا لفظ ہے، جو ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ اردو میں اس کے معنے بدعملی،
بدعنوانی، بداخلاقی، بگاڑ اور بدکاری استعمال ہوتے ہیں، جبکہ عربی میں
”کرپشن“ کا لفظ الفساد، انحراف اور مفسد کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔
کرپشن کا لفظ ہر زبان، ہر ملک اور ہر معاشرے میں گھناﺅنے اور منفی کاموں کے
لیے بولا جاتا ہے اور ناپسندیدگی کے ساتھ اس کا اظہار کیا جاتا ہے، کیونکہ
یہ کسی صورت بھی اچھا عمل نہیں ہے۔ کرپشن کو ”ام الخبائث“ بھی کہا جا سکتا
ہے، کیونکہ بے بہا برائیاں اس کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔ کرپشن اعلیٰ اقدار
کی دشمن ہے، جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ کر اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح چمکتی دمکتی اور عیاں ہے کہ قوموں کی تباہی میں
مرکزی کردار ہمیشہ کرپشن کا ہی ہوتا ہے، چاہے یہ کسی بھی صورت میں ہو، جس
قوم میں جتنی زیادہ کرپشن ہو وہ قوم اتنی ہی جلدی بربادی کے گڑھے میں
جاگرتی ہے۔ اگر کسی قوم کے رگ و پے میں کرپشن سرایت کرجائے تو وہ اپنی
شناخت و ساخت اور مقام و مرتبہ سے یوں ہاتھ دھو بیٹھتی ہے، جیسے کوئی بلند
مقام کبھی اس قوم کو ملا ہی نہیں تھا۔ کرپشن کینسر کی مانند خطرناک اور
سماج کو سماجی موت سے ہمکنار کرنے والا بھیانک مرض ہے، جس معاشرے کو لگ
جائے تو اس معاشرے کی بربادی یقینی سمجھیں۔ کرپشن معاشرے میں ایک اچھوت مرض
کی طرح پھیلتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہے اور جس
طرح آکاس کی زرد بیل درختوں کو جکڑ کر ان کی زندگی چوس لیتی ہے، اسی طرح
اگر ایک بار کرپشن کسی صحت مند و توانا معاشرے پر بھی آگرے تو ایک ادارے سے
دوسرے ادارے کو جکڑتی چلی جاتی ہے، حتیٰ کہ زرد ویرانی کے سوا کچھ باقی
نہیں رہتا اور آباد اور کامیاب اداروں میں بھی کچھ ہی عرصے بعد الو بولنا
شروع ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ معاشرے کی اخلاقی صحت کے محافظ ادارے بھی
کرپشن کا شکار ہو کر رہزن بن جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں دنیا بھر میں حکومتوں کی کارکردگی میں شفافیت اور کرپشن کا
جائزہ لینے والی عالمی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) نے اپنی رپورٹ
میں کہا ہے کہ جنوبی ایشیا کا خطہ سب سے زیادہ بدعنوانی کا شکار ہے، جس میں
حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ کرپشن اور بدعنوانی کو روکنے والے اپنے
اداروں کو مضبوط کریں اور ان اداروں کی کارکردگی میں سیاسی مداخلت کی دخل
اندازی کو سختی سے روکنے کی کوشش کریں اور مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان سمیت
چھ ملکوں (بھارت، بنگلہ دیش، مالدیپ، نیپال اور سری لنکا) میں انسداد
بدعنوانی کی کوششوں کی راہ میں بڑی سنگین رکاوٹیں حائل ہیں، ان ممالک میں
اگرچہ انسداد کرپشن کے لیے باقاعدہ سرکاری ادارے قائم ہیں، مگر ان اداروں
کے اندر بھی کرپشن داخل ہو چکی ہے، جس کی بڑی وجہ ان اداروں میں سیاسی
مداخلت ہے، بااثر افراد بھی اپنی بدعنوانی کی بنا پر گرفت میں نہیں آتے۔
انسداد بدعنوانی کے افسروں کو بھی اپنی کارکردگی دکھانے کی پوری طرح آزادی
حاصل نہیں ہے، ان اداروں میں تقرریاں سیاسی بنیادوں پر ہونے کے باعث
بدعنوانی پر پوری طرح گرفت نہیں کی جا سکتی۔ متذکرہ ممالک کی حکومتوں میں
اس عزم اور ہمت کا بھی فقدان ہے جو کرپشن پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے انسداد کے لیے جو نیم دلی سے کوششیں کی جاتی ہیں،
وہ موثر ثابت نہیں ہوتیں۔ واضح رہے کہ ماضی میں بھی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل
سمیت عالمی اداروں کی رپورٹوں میں کرپشن میں مسلسل اضافے کی نشاندہی کی
جاتی رہی ہے، لیکن پاکستان میں جن حلقوں پر حالات سدھارنے کی ذمہ داری عاید
ہوتی ہے، ان کے رویے سے ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں کرپشن سے ملک کو
پہنچنے والے نقصان یا عوام کے مسائل میں روز افزوں اضافے کی کوئی پروا ہے،
اگر انہیں کسی قسم کی کوئی فکر دامن گیر ہوتی تو کرپشن اور بدعنوانی کو
روکنے والے اداروں سے سیاسی مداخلت کا قلع قمع کر کے کرپشن کے خلاف موثر و
منظم اقدامات کیے جاتے اور افسران کو بلا خوف و خطر بڑے بڑے کرپٹ مگر مچھوں
پر ہاتھ ڈالنے کی مکمل آزادی دی جاتی اور حکومت کرپشن کو ختم کرکے دم لیتی،
لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ ان کی مصلحتیں آڑے آجاتی ہیں اور معاشرے
کے ناسور یونہی رستے رہتے ہیں۔
پاکستان کے لیے نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب وطن عزیز
ان گنت مشکلات سے دوچار ہے۔ مصائب کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ملک کو چاروں
طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی مسائل کی کتھا اس قدر
طویل ہے، جن کا شمار ناممکن کے قریب ہے۔ ان حالات میں اسی سرزمین کے بعض
کرپٹ باسی اپنے سیاہ کرتوتوں سے ملک کے پاکیزہ نام کو دنیا میں بدنام کرنے
پر تلے ہوئے ہیں، جو بے حسی کی اس گہری گھاٹی میں جاگرے ہیںکہ صرف اپنے
اللے تللوں اور اپنی تجوریوں کا پیٹ بھرنے کی خاطر اس خطہ پاک کی ناموس کو
داﺅ پر لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔ حالانکہ ہمارے بزرگوں نے اس ملک کے حصول
کی لیے لاکھوں جانوں کے نذرانے اس لیے نہیں دیے تھے، ان کی قربانیوں کا
مقصد تو کرپشن سے پاک معاشرے کا حصول تھا، بلکہ شاید بانیان پاکستان کے
ٹخیل میں کبھی اس بات کے تصور کا گزر بھی نہ ہوا ہو کہ بعد میں آنے والے
کچھ نااہل لوگ ہماری قربانیوں اور ملک کے حصول کے مقصد کو طاق نسیان میں
ڈالتے ہوئے مملکت خداداد کو یوں رسوائی کے ہار پہنائیں گے اور کوئی ان کا
احتساب کرنے والا بھی نہ ہوگا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے تو
11 اگست 1947ءکی تقریر میں بڑے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ: ”ہمارا سب سے
بڑا مسئلہ رشوت اور کرپشن ہے، اسمبلی کو اس زہر کے خاتمے کے لیے موثر
اقدامات کرنے ہیں۔“ لیکن اب کرپٹ لوگ تمام قوانین کو پس پشت ڈال کر آزادی
سے کرپشن کر رہے ہیں اور ملک کی بدنامی و تباہی کا سبب بن رہے ہیں۔ نہایت
ہی شرمندگی کا مقام تو یہ ہے کہ اب کرپشن ہمارے معاشرے کا ایک ایسا ناسور
بن گیا ہے، جس کی شاخوں نے ہر سو کرپشن کی مختلف النوع اقسام کی منڈیاں
کھول دی ہیں، جس کی جڑیں ہر شعبہ زندگی میں پھیل چکی ہیں۔
اگرچہ ہر جگہ ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جو کرپشن پر کڑھتے
ہیں، اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور کرپشن کو اپنے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ
سمجھتے ہیں، لیکن نقارخانے میں طوطی کی آواز کی طرح ان کی صدا بھی کوئی
نہیں سنتا، کیونکہ اس معاشرے میں کرپشن کرنے والوں کی جڑیں بہت مضبوط اور
گہری ہیں۔ درحقیقت یہ لوگ ہی قوم و ملک کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔ ملک کے
کروڑوں لوگ کرپشن نہیں کرتے، لیکن کرپشن کے جبر کا شکار ضرور رہتے ہیں، سب
سے بڑا ظلم تو یہ ہے کہ ان کرپٹ لوگوں کو کیفرکردار تک پہنچانے والا بھی
کوئی نہیں ہے۔ حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں جب کسی طاقتور اور اعلیٰ شخصیت
کا بدعنوان ہونا ثابت ہو جاتا ہے تو اسے قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے،
قرارواقعی سزا دے کر نشانِ عبرت بنانے میں ایک لحظہ کی تاخیر بھی روا نہیں
رکھی جاتی، مگر ہمارے ہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ اینٹی کرپشن ادارے تو قائم
ہیں، لیکن کرپشن پر قابو نہیں پایا جاتا۔ کرپشن پر قابو پانے کے لیے ضروری
ہے کہ ”کرپشن سے پاک“ ممالک کی پیروی کرتے ہوئے، تمام مصلحتوں کو پاﺅں تلے
روند کر ہر کرپٹ شخص پرہاتھ ڈالنا ہوگا، بصورت دیگر ملک کی بدنامی یونہی
ہوتی رہے گی۔
|
|