ہمارے ایک بزرگ محترم جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں ،نے اپنا ایک عجیب و غریب
قصہ سنایا تھا جو میں قارئین سے شیئر کررہا ہوں اس شرط پر کہ بعد کے مضامین
کا اس قصے پر کوئی انطباق نہ کریں ۔ان ہی کی زبانی واقعہ سنیے۔"تشکیل
پاکستان سے قبل ہندوستان میں میری شادی ہوئی کچھ عرصے بعد میری اہلیہ کی
طبیعت خراب ہوگئی وہ اتنی شدید علیل ہوگئیں کہ ان بچنے کی امیدکم تھی چونکہ
خاندان میں شادی ہوئی تھی اس لیے تمام رشتہ داروں نے جس میں اہلیہ کے رشتہ
دار بھی شامل تھے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ میری دوسری شادی کر دی جائے اور اس
میں ہماری بیمار بیوی کی رائے بھی شامل تھی چنانچہ میری دوسری شادی کردی
گئی ۔اتفاق سے کچھ عرصے بعد میری دوسری بیوی کی بھی طبیعت خراب ہوئی اور
تھوڑے دن بعد ان کا انتقال ہو گیا اسی دوران میری پہلی بیوی کی طبیعت میں
افاقہ ہونا شروع ہوا اور وہ ٹھیک ہونے لگیں پھر وہ صحتمند ہوگئیں اور آج تک
الحمداﷲ زندہ ہیں "وہ بزرگ یہ واقعہ اپنی شادی کے تقریباَ 40سالہ بعد سنا
رہے تھے اور اس کے 18سال بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا لیکن ان کی اہلیہ
حیات ہیں ۔اس واقعے سے ایک سبق تو یہ ملتا ہے کہ زندگی اور موت اﷲ کے ہاتھ
میں ہے اور کوئی کتنا ہی شدید بیمار کیوں نہ ہو ہمیں اس کے مرجانے کا سوچ
کر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے ،دوسرا سبق یہ کہ کبھی مایوس نہیں ہونا
چاہیے۔
1999میں جو سول حکومت قائم تھی اس کے بارے میں ایک تاثر یہ بنایا گیا کہ یہ
حکومت اتنی بیمار ،کمزور اور لاغر ہو گئی ہے کہ یہ عوام کو کچھ بھی ڈیلیور
کرپارہی ہے۔ہر بڑے قومی اداروں میں اصلاح اور سدھار کے لیے فوج سے مدد
مانگی جارہی ہے اور یہ سول حکمرانی کسی وقت بھی اپنی آخری سانس لے سکتی ہے
۔چنانچہ اکتوبر 99دوسری حکومت کا تجربہ کیا گیا اور نواز شریف کو کچھ دن
اپنے پاس رکھ کر سعودی عرب علاج کے لیے بھیج دیا گیا جو نئے لوگ آئے کچھ دن
تک تو وہ عوامی مسائل کے لیے فکر مند نظر آئے اور اس کے لیے جدو جہد بھی
کرتے ہوئے نظر آئے ۔لیکن جیسے ہی بین الاقوامی منظر نامہ تبدیل ہوا اور
نائن الیون کا واقعہ ہوا اس میں پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں کی مغربی
ممالک اور بالخصوص امریکاکی نظر میں اہمیت بڑھ گئی پھر یہ امریکا کے ہی ہو
کر رہ گئے اور یہ بھی عوام کو کچھ ڈیلیور کرنے کے بجائے قرضوں کا بوجھ
،اوردہشت گردی کا تحفہ دے گئے ۔اب پھر موجودہ نواز شریف کی حکومت کے خلاف
گرینڈ الائنس کی باتیں ہو رہی ہیں ۔چوہدری برادران کی لندن میں طاہر
القادری سے ملاقات اور اس سلسلے میں مشترکہ لائحہ عمل کے لیے دیگر جماعتوں
بالخصوص عمران خان کی تحریک ا نصاف کو بھی ساتھ ملانے کی بات ہورہی ہے
۔جبکہ ان تینوں جماعتوں میں ایک دوسرے سے 180ڈگری کا اختلاف ہے ۔طاہر
القادری صاحب کہتے ہیں کہ ہم سسٹم تبدیل کرنا چاہتے ہیں کہ موجودہ سسٹم کی
خرابیاں ہی ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے۔جب کہ دوسری طرف چوہدری برادران اسی
سسٹم کی پیداوار ہیں ،اس کا تحفظ چاہتے ہیں اور آئندہ بھی اسی سسٹم کو
برقرار رکھنا اہتے ہیں ۔عمران خان نے لندن میں ہونے کے باوجود علامہ طاہر
القادری سے اس لیے ملاقات نہیں کی کہ ان کا نکتہ نظر بھی علامہ کے نکتہ نظر
سے مختلف ہے ۔عمران خان کہتے ہیں کہ انتخابی نظام کو درست کر دیا جائے تو
اس کے نتیجے میں دیانتدار لوگ آئیں گے تو وہ سسٹم بھی تبدیل کر سکتے ہیں
۔ان کا مطالبہ تو یہ ہے کہ صرف چار نشستوں پر انگوٹھوں کے نشانات چیک کرلیے
جائیں تو دودھ کادودھ اور پانی کاپانی سامنے آجائے گا ۔ان کا مزید یہ بھی
کہنا ہے کہ اگر آئندہ انتخاابات کی اصلاح نہ کی گئی تو وہ ایسے الیکشن ہونے
ہی نہیں دیں گے جب کہ اس سے پہلے وہ ایسے انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے
تھے ۔لندن میں جو سیاسی سرگرمیاں ہو رہی ہیں اس میں چوہدی برادران کا متحرک
ہونا موجودہ حالات میں بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے کہ ہمارے ملک
میں جن سیاسی شخصیات نے اسٹبلشمنٹ کی سیاست کی ہے ان میں چوہدری برادارن کے
نام سرفہرست آتے ہیں۔2008کے الیکشن میں ق لیگ پرویز مشرف کی وجہ سے جیت کے
قریب پہنچی ہوئی تھی ،اور پرویز مشرف ہی کی وجہ سے ہار بھی گئی کہ اگر این
آر او کا معاہدہ نہ ہوتا تو ق لیگ کو دوبارہ برسراقتدار آنے سے کوئی روک
نہیں سکتا تھا چوہدری بررادران ابھی تک اس نشے سے باہر نہیں نکل سکے جب کہ
2013کے انتخاب میں انھیں اپنی حیثیت کا پتا چل گیا تھا ۔علامہ طاہر القادری
کے پاس کچھ عوامی قوت بھی ہے اس لیے چوہدری برادران کی کوشش اور خواہش ہے
کہ کنیڈا والے بابا کے ساتھ مل کر کوئی ایسی موو بنالیں جس سے کچھ عوامی
ہلچل پیدا ہو جائے تواس ملک کی خفیہ اور وہ نا دیدہ قوتیں جو اقتدار کے
کھیل میں ریفری کا رول ادا کرتی ہیں اور کبھی خود کھلاڑی بن جاتی ہیں آگے
بڑھ کر شفقت کا ہاتھ رکھ دیں اور ان کا مقدر کا ستارا ایک بار پھر روشن ہو
جائے ۔اس طرح کے گرینڈ الائنس جو عوام کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن کچھ لوگوں
کی سیاسی ضرورت تو یقیناَ ہو سکتے ہیں عوام کو ان کے دکھوں سے نجات نہیں
دلا سکتے میرے خیال میں یہ سب بے وقت کی راگنی ہے ۔ضرورت تو اس بات کی ہے
عمران خان کے اس موقف کی تائید کی جائے جو وہ آئندہ کے انتخابات کی شفافیت
کے لیے مہم چلارہے ہیں ۔اس ملک میں انجنیرڈ طرز کے الیکشن نے عوام کے مسائل
اور مصیبتوں میں اضافہ ہی کیا ہے لہذا ایک بار ہاں صرف ایک بار آزادانہ
،منصفانہ ،دیانتدارانہ اور شفاف انتخاب ہو جائے تو اس کے نتیجے میں جو
حکومت بنے گی وہی عوامی مسائل کو حل کر سکے گی ۔ہماری تجویز ہے کہ ایک ایسا
گرینڈ الائنس یا بڑا سیاسی اتحاد وجود میں لایا جائے جو صرف آئندہ انتخابات
کے لیے ایسی مشترکہ تجاویز مرتب کرے جس کے نتیجے میں موجودہ حکومت ایسے
قوانین بنائے یا اس حوالے سے پہلے سے موجود قوانین کو رو بہ عمل لائے کہ اس
ملک کے عوام کو یہ اعتماد حاصل ہو جائے کہ ہم جس کو ووٹ دیں گے وہی لوگ
برسراقتدار آسکیں گے ۔اس لیے موجودہ جسیی بھی کچھ جمہوری حکومت ہے جو چاہے
کچھوے کی رفتار سے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کررہی ہے اسے کام کرنے
کا پورا موقعہ دینا چاہیے اور اسے اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے اس کے
بارے میں یہ تاثر بنانا کہ یہ بیمار اور لاغر ہے بالکل پلنگ سے لگ چکی ہے
لہذا اسے طلاق دے دی جائے اور کسی نئی نویلی حکومت کو لایا جائے کوئی مناسب
سوچ نہیں ہے ،ہمارے یہاں تو نئی نویلی دلہنیں بھی اغوا ہو جاتی ہیں۔ |