ملکی تاریخ کا سب سے بڑابجٹ .... عوام دوست یا عوام دشمن؟

موجودہ حکومت نے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سالانہ قومی بجٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ مالی سال 15-2014ءکے میزانیے کا کل حجم 39 کھرب 60 ارب روپے ہے، جو گزشتہ برس کے 3597 ارب روپے سے 10 فیصد زیادہ ہے۔ قومی محاصل میں صوبوں کا حصہ پچھلے سال کے 1413 ارب روپے سے بڑھ کر 1720 ارب روپے ہو جائے گا، جو کہ 22 فیصد اضافہ ہے۔ صوبوں کو ان کے وسائل دینے کے بعد وفاقی حکومت کے پاس 2225 ارب روپے بچیں گے۔ مالی سال 2014-15ءکے دوران وفاقی مالیاتی خسارے کا تخمینہ 1711 ارب روپے ہے، جبکہ -14 2013 کے دوران یہ 1660 ارب روپے رہا ہے۔ بجٹ میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں ایک ہزار روپے کا اضافہ کر کے کم سے کم پنشن چھ ہزار مقرر کی گئی ہے اور مزدوروں کی اجرت کوکم از کم بارہ ہزار روپے کیا گیا ہے۔ آیندہ مالی سال کے دوران قومی ترقیاتی پروگرام کا حجم 1175 ارب روپے ہوگا، جس میں وفاق کا حصہ 525 ارب روپے اور صوبوں کا حصہ 650 ارب روپے ہو گا۔ قومی ترقیاتی پروگرام کا حجم رواں مالی سال سے 13 فی صد زیادہ ہے اور اس میں 192 ارب روپے کی غیر ملکی امداد بھی شامل ہے۔ 231 ارب روپے کے نئے ٹیکس عاید کیے گئے ہیں۔ انکم ٹیکس میں 108ارب روپے، سیلز ٹیکس میں 16ارب روپے اور کسٹم ڈیوٹی میں 4 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات کیے گئے ہیں۔ کسٹم ڈیوٹی میں 32 ارب روپے، جنرل سیلز ٹیکس میں 35 ارب روپے اور انکم ٹیکس میں 36ارب روپے کی ٹیکس رعایات ختم کی گئی ہیں، اس طرح ٹیکس رعایات کے خاتمے اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ سے مجموعی طور پر آئندہ مالی سال میں 231 ارب روپے کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑے گا۔ خیال رہے کہ گزشتہ سال 35 کھرب 97 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کیا گیا تھا، جس میں سیلز ٹیکس 16 فی صد سے 17 فیصد کیا گیا تھا۔بجٹ خسارے کا تخمینہ 1600ارب روپے لگایا گیا تھا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا گیا تھا، جبکہ مزدوروں کی کم سے کم اجرت دس ہزار روپے مقرر کی گئی تھی اور پنشن میں تین ہزار روپے کا اضافہ کر کے کم سے کم پنشن چھ ہزار روپے مقرر کی گئی تھی۔
بجٹ 2014-15 آنے کے بعد حکومتی اورسرمایہ کار حلقے اس بجٹ کو عوام دوست قرار دے رہے ہیں، جبکہ اپوزیشن، سرکاری ملازمین اور عوامی وسماجی حلقوں نے نئے بجٹ کو عوام دشمن قرار دیا ہے۔ متعدد اپوزیشن رہنماﺅں نے بجٹ کو الفاظ کا ہیرپھیر اور گورکھ دھندہ قراردیتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کے خاتمے کے لیے اس بجٹ میں کوئی پلان نہیں دیا گیا۔ بجٹ غریب کش ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔بجٹ سرمایہ داروں کا ہے۔ بجٹ میں مٹھی بھر مراعات یافتہ طبقے کو نوازا گیا ہے۔اس بجٹ سے غربت، بیروزگاری اور مہنگائی بڑھے گی اورعوامی مسائل میں اضافہ ہو گا۔ دوسری جانب سرکاری ملازمین کی متعدد تنظیموں نے حکومت کی جانب سے تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کو مسترد کرتے ہوئے اضافے کو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر قرار دیا ہے۔سرکاری ملازمین کے مطابق جس قدر مہنگائی ہے، اس لحاظ سے توتنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ ہونا چاہیے، لیکن تنخواہوں میں 10 فیصد ایڈہاک ریلیف نامنظور ہے۔ یہ بجٹ سیاسی ہیرا پھیری کا بجٹ ہے۔ عوامی و سماجی حلقوں نے بھی بجٹ کو روایتی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے عام آدمی کو اس بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دیا، بلکہ مراعات یافتہ طبقوں کو ہی نوازا گیا ہے۔ حکومت نے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔ جن لوگوں کی ماہانہ آمدنی 8 ہزار روپے ہے، حکومت ان کا بجٹ بنا کر دے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق کسی بھی حکومت کا بجٹ جہاں اگلے مالی سال کے حوالے سے تفصیلی پلان کو ظاہر کرتا ہے، وہاں اس سے حکومتی معاشی پالیسیوں کی سمت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ نئے پیش کیے جانے والے بجٹ سے بھی کچھ مثبت اور کچھ منفی ٹرینڈ سامنے آتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے منفی علامات زیادہ دکھائی دے رہی ہیں۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین، پنشنرز اور مزدوروں کے لیے یکم جولائی سے دس فیصد ایڈہاک ریلیف دیا جائے گا۔ حالانکہ ملک میں جس قدر مہنگائی ہے، اس حساب سے تو بیس فیصد اضافہ بھی کم تھا۔ اگر غور کیا جائے تو مہنگائی کے اس دور میں بارہ ہزار روپے سے ایک مہینہ گزارنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔ ملک کی نصف سے زاید آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، غریب عوام کو تو اسی بجٹ سے فائدہ ہوگا جس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہو اور ان کے گھر کا چولہا جل سکے، لیکن ہر بار بجٹ میں ملک کی اکثریت کو نظر انداز کر کے بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ ملک کے عوام کو مسلم لیگ ن سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں، لیکن وہ بھی عوام کی امیدوں پر پوری نہ اتر سکی۔ گزشتہ سال پیش کیے جانے والے بجٹ میں کم از کم یہ تسلی تو تھی کہ حکومت ابھی نئی نئی آئی ہے، آئندہ سال عوام کو بھرپور ریلیف دے گی، لیکن ایک سال گزر جانے کے باوجود عوام کو کچھ ریلیف نہ مل سکا۔ نئے بجٹ میں بعض اچھی پالیسیاں بھی موجود ہیں، مگر مجموعی طور پر مایوسی کا عنصر غالب ہے۔ دراصل پاکستان اس وقت جن گمبھیر مسائل میں الجھا ہوا ہے، ان سے نکلنے کے لیے روٹین کے بجٹ سے کام نہیں چل سکتا، ملک کو ایک ایسے بجٹ کی ضرورت ہے جو غیر روایتی اقدامات سے بھر پور ہو۔ جبکہ ہمارا بجٹ ایک روایتی، عمومی یا عام لگا بندھا سا بجٹ ہے۔ ہمیں انقلابی نوعیت کی پالیسیوں کی ضرورت ہے، لیکن حالیہ بجٹ میں کوئی انقلابی نوعیت کی پالیسی نہیں، بہت سے معاملات میں وہی سٹیٹس کو، روٹین کے اعلانات، دل خوش کن وعدے، اعداد وشمار کی جادوگری، اصطلاحات کے گورکھ دھندے ہیں۔ بجٹ میں ٹیکس محصولات کا اندازہ 28 سو ارب کے لگ بھگ (2810ارب روپے) ہے، یہ ٹیکس حاصل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ گزشتہ سال کے حوالے سے وزیر خزانہ اسحق ڈار نے خود اعتراف کیا ہے کہ حکومت ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل نہیں کرسکی۔ ہماری حکومت کی 2013-14 میں ٹیکس وصولی کی کارکردگی بدترین رہی اور 2381 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 2050 ارب کا نظرثانی شدہ ہدف دیا گیا، جبکہ وصولی میں381 ارب روپے کی کمی ہونا تھی، لیکن تخمینہ 1940 ارب لگایا گیا اور ٹیکس وصولی میں صرف 3 فیصد اضافہ ہوسکا۔ دنیا کے مہذب ممالک میں زیادہ زور ڈائریکٹ ٹیکس پر دیا جاتا ہے، تاکہ امیر اور دولت مند طبقات سے وصولی ہوسکے اور غریب آدمی اس ٹیکس کی زد میں نہ آئے، لیکن ہمارے ہاں اس کے برعکس ان ڈائریکٹ ٹیکسز پر زور دیا جاتا ہے، اس سے عام آدمی پس جاتا ہے۔ ملکی معیشت میں ترقی کے لیے ٹیکس نیٹ ورک بڑھاتے ہوئے بڑے بڑے زمین داروں اور جاگیرداروں پر ان کی آمدنی کے حساب سے ٹیکس لیا جائے، پراپرٹی کے ذریعے لکھ، کروڑ اور ارب پتی بننے والوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور اسٹاک مارکیٹ کے مگر مچھ بھی کسی ڈسپلن میں آئیں۔ اس کے ساتھ ہمارے بجٹ کا ایک بہت خطرناک پہلو قرضوں کا بوجھ ہے۔ بیرونی اور اندرونی قرضوں کے سود کی ادائیگی پر 13 سو ارب روپے(تقریباً تیرہ ارب ڈالر) ہر سال ضائع ہوتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ہماری ٹیکس انکم کا تقریباً نصف حصہ تو صرف سود کی ادائیگی میں جا رہا ہے، اوپر سے مزید قرضے لیے جا رہے ہیں، جو سراسر ملکی معیشت کے لیے زہر قاتل ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701649 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.