’فیضان کرم ‘یوں جاری ہوا کرے گا !!

ملک میں 16ویں لوک سبھا انتخابات کے نتائج سامنے آئیں اور بہت ہی حیران کن طریقہ سے سیکولرزم ،اتحاد و اتفاق شکست و ریخت سے دو چار ہو گیا اور جس کا خطرہ سیکولر ذہنیت کے افراد محسوس کررہے تھے وہ خطرہ مافوق العادت طریقہ سے ہندو ستان کے تاج و تخت پر قابض ہو گیا او رسیکو لرافراد اپنی شکست و ریخت سے دو چا رہو کر جام غم فراموش لیکر بزم ماتم میں اپنی نشست پر جا بیٹھے ۔اب ا س ملک کا کیا ہو گا ؟جمہوریت کن کن خطرات سے وقتاًفوقتاً دو چار ہو تی رہے گی اس ذیل میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے او روقت سے پہلے پیشن گو ئی درست بھی نہیں ہے کیونکہ عوام کے سواد اعظم نے جس امر کو ہندو ستان اور اس کی جمہو ریت کیلئے مو زوں خیال کیا ہے وہ امید کی جانی چاہیے کہ درست ہی ہو گا تاہم آئیے محترم کلیم عاجز صاحب کی ایک پر سوز غزل کے چند اشعا ر ملاحظہ کریں او رسوز و غم کے کیف و کم سے آشناہو ں ؂
ایسی بہار آئی کہ اب کی بہار میں

سایہ نہیں کسی شجرسایہ دار میں
کیا ہو گی اے جنوں تیری خاطر بہار میں

ایک پیرہن تھا وہ بھی نہیں اختیار میں
کیوں رو شنی نہ ہو چمن روزگار میں

بیٹھا ہوں گھر کو آ گ لگا کر بہار میں
تو اے کرن! امید کی ہے کس دیار میں

اب تو سحر سے شام ہوئی انتظار میں
ہیں ایک ہی چمن میں مگر فرق ہے بہت

ان کی بہار اور، ہماری بہار میں

ہاں واقعی ان شاہدان ستم گر کا اگر غم نہ ہوتا تو بالیقین مکتب فیضان کرم بھی مضمحل نہ ہو تا او ریہ با ت بھی نہ ہو تی کہ عاشقان پاک باز اپنی تشنگی کو دو رنہ کرپاتے مگر اف!یہاں تو بساط عشق ہی الٹ گئی اور عین مو سم بہار میں خزاں نے اپناقبضہ جمالیا ہمیں افسردگی او رمایو سی کیو ں ہو کہ جس پر فرقہ پرستی کی مہر لگی ہو ئی تھی او رجس کے نام سے ہی مسلم اور سیکولر طبقہ حرف نفریں ادا کیاکرتا تھا یکلخت ہندو ستان کا ملک ہو گیا یہ تو اس کی اپنی قسمت اور تقدیر کی پامردی اور بلند ہمتی ہے کہ اپنے خوابوں کو شر مندہ تعبیر کر نے میں کامیاب ہو گیا بلکہ افسردگی او ر الم خاطر تو یہ ہے کہ عوام کے مزاج و مذاق کو کس کی نظر لگ گئی کہ سیکولرزم پر یقین نہ رکھ کر آر ایس ایس کے مشہور و مقبول ایجنڈو ں پر کاربند بی جے پی پر اعتماد کلی کر کے اپنی حمایت و تائید کی مہر لگادی ؟ملک میں انقلاب عوامی تحریک اور عوامی جدو جہد کے باعث ہی آتا ہے او ریہ بھی درست ہے کہ انقلاب اگر دم تو ڑتا ہے تو اس کے پیچھے قائدین اور سیاستدانوں کی نااہلی او ر کو تاہ قدمی کارفرماہواکر تی ہے ملک میں انقلاب آیا ہے اس انقلاب کا خیر مقدم ہے تاہم خیر مقدم اس امید کے ساتھ کہ وہ صرف ایک ہی ایجنڈہ پر غور و خوض نہ کرے اور اپنی پوری قوت صرف ایک ہی ذیل میں صر ف نہ کرے بلکہ تمام طبقات کو ساتھ لیکر چلنے کی راہ کو ہموار کرے کہ ہندو ستان اسی امر کا مطالبہ کرتا ہے تاہم بڑے ہی افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ موجودہ حکومت نے کچھ ایسے کارہائے عشق کو انجام دیا ہے کہ مذاق دہن ہی نہ بگڑا بلکہ مکمل تلخی پھیل گئی اولاًسچر کمیٹی کی سفارشات کے متعلق وزیر با تدبیر نجمہ ہبت اﷲ کازعفرانی بیان سامنے آیا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ سچر کمیٹی کی سفارشات نافذ کی جائیں محترمہ کایہ بیان کہاں تک درست ہے کہ مسلمان اقلیت میں نہیں ہیں بلکہ پارسی لوگ ہیں ؟آخر یہ تو واضح ہو ناچاہیے کہ پھر جو لو گ اقلیت میں ہیں ان کو کیا کہا جانا چاہیے یہ تو ان کی اپنی دیدہ وری ہے کہ جو اصطلاح مسلمانوں پر منطبق ہواکرتی تھی اب وہ اصطلاح پارسی حضرات کیلئے مستعمل ہونے لگی سچر کمیٹی کی تمام سفارشات مسلم مسائل پر مبنی ہیں اور اس کے نفاذ میں براہ راست مسلمانوں کو فائدہ تھا لہذا اس امر کے ذریعہ یہ باور کرانے کی اپنی کوشش کی جارہی ہے کہ نہ تو مسلم اقلیت میں ہیں اور یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ تمام سفارشات درست ہیں بلکہ بعض ایسی خامیاں موجود ہیں جن میں کافی حدتک اصلاح کی ضرورت ہے یہ لب و لہجہ بلکہ تیشہ زنی نجمہ ہبت اﷲ کی نہیں ہے بلکہ یہ ان نظریات کی ترجمانی ہے جن نظریات کی تخلیق آر ایس ایس کرتی ہے او رہر فرد جو اس سے وابستہ ہو وہ اس کی ترجمانی پر مجبور ہوا کرتا ہے ،نجمہ ہبت اﷲ ہی مودی کابینہ میں واحد مسلم چہر ہ ہے اور پھر اس مسلم چہر ہ سے کسی فریب میں آنا ہماری طالع زبونی ہو گی کیو نکہ ہر رگ و ریشہ میں آرایس ایس کے نظریات خون بن کر دوڑ رہے ہیں لازماً ان ہی نظریا ت کا اظہار ہو گا او ر اس اظہار کے تئیں تمام زریں اصول کو کالعدم تصور کیا جائے گا ۔

وہ لو گ جو سیکو لرزم کے حامل تھے آخر ان کو شکست کیو ں ملی ؟ یہ سوال نہایت ہی اہم ہے اور اس کی اہمیت کااندازاہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ملک میں اس خطرہ کے جوان ہو نے کا قوی امکان ہے کہ جس خطرہ کے متعلق سیکولر ذہنیت اور سنجیدہ فکر کے حامل لو گ متفکر تھے اور بار بار اس سے ہو شیار رہنے کی تلقین و ترغیب بھی کیا کرتے تھے کانگریس کو جس طرح ذلت آمیز شکست ملی ان کے اسباب و عوامل ویسے تو بہت ہیں تاہم اتناضرور ہے کہ بدعنوانی نے اپنی جڑیں مضبوط کرلی تھیں اور مہنگائی کی ہو شربائی بھی کافی حد تک بڑھ چکی تھی جہاں تک مسلم طبقہ کے ساتھ رویہ کی بات ہے تو یہ بدنصیب او رازلی طالع زبوں مسلمان ابتداء سے ہی اپنی حرماں نصیبی او رفریب خوردگی کو اپنی تقدیر تصور کررہے ہیں تو بھلاکیو نکر اس کا شکو ہ کریں ؟امیدیں تو وابستہ ہر ایک جماعت سے ہیں کانگریس ہی کیو ں ہو بھاجپا سے بھی امید ہے لیکن پھر یہ بھی سوال سامنے آکھڑا ہو تا ہے بھلا کب تک دامن دراز کئے رہیں بی جے پی کا اقتدا رپرغلبہ ہو گیا ہے او رجس کا خوف تھا وہ طوفان ہو شربا بھی آیا اور آکر پو رے ہندو ستان پر محیط ہو گیا اب جو خدشات چند ایام قبل تھے ان کے لاحق ہو نے کاوقت ہو چکا ہے لیکن یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا اپو زیشن میں رہتے ہوئے جو کچھ کیا او رکہا تھا کیا وہ اب اقتدا رمیں رہتے ہو ئے کیا او رکہا جائے گا؟مسلم کش فسادات او رفرقہ وارانہ ماحول سازی کی جاتی رہے گی ؟جو لو گ بے گناہ سلاخوں کے پیچھے ہیں کیا ان کو رہائی ملے گی ؟جو لو گ امن پسند شہری ہیں ان کو بے بنیاد الزامات کے تحت ’’جیل بھرو‘‘کے تعشق سے آزادی ملے گی اور انسدار فرقہ وارانہ فساد بل ہے اس کو منظور کیا جائے گا ؟؟؟یہ خدشات ہیں لیکن توقعات سے کہیں بڑھ کر اور پھر ہم کن توقعات کو اپنے لیے مناسب خیال کریں کہ جب سپیدی سحر میں ہی ہماری شام ہو گئی ہو !!

بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں صرف جمہوری حسن کا ہی سکہ چلے گا اگر اس میں شی دیگر کا اختلاط ہواتو پھر اس کے لیے زہر ہلاہل ہی ثابت ہو گا لیکن موجو دہ حکومت نے آتے ہی اپنی اصلیت کا اظہار کردیا کہ ان کے جو عزائم اول وقت میں تھے وہ اب بھی محکم ہیں او ر ان کو عملی جامہ پہنانے میں تاخیر مناسب نہیں مسئلہ صرف مسلمان کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ ہندو ستانیت کا ہے کہ اگر جو نظریات و افکار آراایس ایس کے ہیں اگر و ہ ملک میں نافذہو جائے تو پھراس ہندو ستان کا کیا ہو گا جس ہندوستان کا خواب ہر ایک ہندوستانی دیکھتا ہے ؟خواب دیکھنے پر کو ئی پابندی عائد نہیں ہو نی چاہیے کیو نکہ ہر فرد یہاں آزاد ہے اور اسی آزادی کی رو سے اچھے برے خواب دیکھ سکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ تمام خوابوں کی تعبیر مل جائے آرایس ایس نے مودی کی شکل میں وزیر اعظم کا خواب دیکھا تھا در حقیقت وہ خواب پورا ہو گیا ہے لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ جو عزائم او رافکار جمہوریت کے متصادم ہیں وہ پورے ہو جائیں یقین کیجئے !یہ امر کو ہ گراں ثابت ہو گاکہ تمام ملک میں زعفرانی رنگ کا غلبہ ہو گا او رپھر ایسا ہو بھی کیو ں سکتا ہے بھارت کا حسن ازلی مفقود ہو جائے ۔ملک کے موجو دہ وزیر اعظم اپنے بیانات میں بار بار اس امر کی تصویب کرتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ تمام طبقہ کو ساتھ لیکر چلنا ہمارا فریضہ ہے تاہم دیکھنا ہو گا کہ ان کی بات کہاں تک درست ہے ثابت ہو تی ہے کیو ں کہ موصوف کی شبیہ ازل سے ہی ناپسندید ہ ہے او رایک بڑے طبقہ میں ان کے تئیں صحیح اور راست خیالات نہیں ہیں مو جو دہ حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کیا وہ مسلم طبقہ میں پھیلی بدگمانی اور بیزاری کو دو ر کرپاتی ہے یا نہیں یا پھر گذشتہ کی ہی طرح مزید بے راہ روی اور فکری گمراہی کا پیہم مظاہر ہ ہو گا۔

اگر سچر کمیٹی کی سفارشات میں خامیـو ں کا وجود ہے تو پھر یہ بھی لازمی ہے کہ ان خامیوں کو اجاگر کیا جائے اور پھر اس ذیل میں اصلاح کی کو ششیں کی جائیں ورنہ نتائج کی درست امید نہیں کی جاسکتی دفعہ 370کو کالعدم قرار دیے جانے کی کو شش بھی زعفرانی نظریات کی پیروی ہے دفعہ 370اگر ہندوستانی آئین کی رو سے درست نہیں ہے تو اس کی تغلیط کیلئے دلیل فراہم کرناہو گی کہ کس ذیل سے یہ غلط ہے جہاں تک اس کے درست ہونے کی با ت ہے تو یہ اولاًواضح ہو جانا چاہیے کہ دفعہ 370کشمیریو ں کیلئے ایک خصوصی مراعات ہے اور اس میں ترمیم کیلئے بحث کرنا اور سیاسی تو ڑجوڑکرنابے عقلی اور کج فہمی کی دلیل ہے ، ورنہ چھیڑ چھاڑ سے کیا فائدہ مسلم ریزرویشن وقت کا اہم تقاضا ہے لہذا اس مقتضی کو پورا کیا جانا چاہیے اور جو بدگمانی مزید پھیل رہی ہے اس کو دور کرنا لازمی ہے کیو نکہ اس سے ایک طبقہ مایوسی کا شکار ہو گاجو کہ ایک جمہوری ملک کیلئے زیب نہیں ہے کیا اسی طرح مستقبل میں ان کارہائے عشق کا اظہار ہو گا ؟؟یہ سوال بہت ہی اہم ہے کہ مستقبل میں مسلمانو ں کیسا تھ ایسا ہی ہو گاتاہم اتنا ضرور کہنا چاہو ں گا کہ یہ چند کروڑ مسلمان بھی ہندو ستانی ہیں اور ان کو بھی دیگر ہندو ستانیوں کی طرح جینے کا حق دیا جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ یہ جمعیت ہندو ستانیت سے برگشتہ ہو جائے اور اس کے معانی و مفاہم سے بھی بالکل ناآشناہو ں۔
Iftikhar Rehmani
About the Author: Iftikhar Rehmani Read More Articles by Iftikhar Rehmani: 35 Articles with 26519 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.