ملک میں موسم کی گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ سیاست کی گرمی
میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ کئی سیاسی پارٹیاں حکومت کے خلاف جنگ کا
طبل بجا کر میدان میں اتر چکی ہیں، بلکہ کئی جماعتیں تو موجودہ حکومت کے
خاتمے کو واجب بھی قرار دے چکی ہیں۔ حکومت چونکہ ایک سال سے زاید عرصہ میں
بھی عوام کی توقعات کے مطابق ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے، اس لیے
عوام کی اکثریت ہر اس آواز کا ساتھ دیتی نظر آرہی ہے، جو حکومت کو ناکام
بتاکر عوام کے مسائل کو حل کرنے کی بات کرے۔ مسائل سے دوچار یہی عوام تحریک
انصاف کے جلسوں میں عمران خان کو اتنی پذیرائی بخش رہی ہے کہ حکومت کے خلاف
سب سے توانا آواز ”کپتان“ کی ہی سنائی دے رہی ہے۔ تحریک انصاف ملک بھر میں
بھرپور اور کامیاب طریقے سے جلسے منعقد کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی اسلام آباد،
لاہور، فیصل آباد اور سیالکوٹ میں عوام کی اکثریت کو جمع کرنے میں کامیاب
رہی ہے، جبکہ اب بہاولپور سمیت ملک بھر میں حکومت مخالف جلسوں کی کامیابی
کے لیے کوشاں ہے۔ شدیدگرمی کے باوجود بھی لوگوں کی بڑی تعداد تحریک انصاف
کے جلسوں میں شرکت کررہی ہے۔ ہفتے کے روز بھی سیالکوٹ میں منعقد ہونے والے
تحریک انصاف کے جلسے میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جلسہ عام سے خطاب
کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ (ن) لیگ کی پنجاب میں
گزشتہ پانچ سالہ حکومت میں نہ روزگار کے مواقع بڑھے، پولیس کا نظام ٹھیک
ہوا اور نہ ہی ہسپتالوں کا نظام، جبکہ نہ لوگوں کو بجلی ملی، نہ پانی اور
لوڈ شیڈنگ کا عذاب الگ جھیلنا پڑا۔ بھارت میں ایک انسان ووٹ سے اپنے لیڈروں
کو منتخب کرسکتا ہے اور نکال سکتا ہے، پاکستان میں عوام ووٹ کسی کو ڈالتے
ہیں اور منتخب کوئی اور ہو جاتا ہے۔ جب تک اس ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں
آئے گی، اس وقت تک پاکستانیوں کا حال بدلے گا اور نہ خوشحالی آئے گی۔ عمران
خان نے بجٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ بجٹ صرف پیسوں
والوں، کرپٹ اور ٹیکس دیے بنا بڑے بڑے گھروں میں رہنے والے 30 لاکھ لوگوں
کے لیے بنا ہے، یہ مزدوروں، غریوں اور کسانوں کا بجٹ نہیں ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف کے جلسوں میں عوام سخت گرمی کو جھیل کر
بھی میں شرکت کر رہے ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام میں حکومت کے
خلاف مایوسی بڑھ رہی ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ن لیگ کی حکومت بالکل ہی
ناکام ہوگئی ہے، بلکہ اپنے تئیں وہ کامیابی کے لیے کوشاں ہے اور اسی لیے
آئے روز نئے نئے منصوبوں کا آغاز بھی کیا جارہا ہے، لیکن معاملہ یہ ہے کہ
عوام کو جو توقعات اس حکومت سے تھیں وہ پوری نہ ہوسکیں اور چونکہ تحریک
انصاف عوام کے حقوق کی بات کررہی ہے، اس لیے عوام بھی اس کا ساتھ دے رہے
ہیں۔ حکومت کو اس بات کو سامنے رکھنا چاہیے کہ عوام کا حکومت مخالف جلسوں
اور مظاہروں کو بے پناہ پذیرائی بخشنا حکومت کے لیے یقینا خطرے کی گھنٹی ہے۔
اس خطرے سے عوامی توقعات پر پورا اتر کر ہی نمٹا جاسکتا ہے، اگر حکومت عوام
کے مسائل حل نہیں کرتی تو یہ حکومت کے لیے گھاٹے کا سودا ہوگا۔آہستہ آہستہ
حکومت سے عوام کا اعتماد اٹھ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں آنے والی سروے رپورٹ سے
بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ عوام کی اکثریت مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے
خوش نہیں ہے۔ ماہنامہ ہیرالڈ اور تنظیم سبسٹنشل ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی
پی آئی) کے اشتراک سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق عوام میں موجود ہ دور کے
اہم سیاسی مسائل پر گہرا اختلاف رائے پایا جاتاہے۔ سروے میں صرف 10.49فیصد
افراد کے مطابق ملک کے وزیراعظم نواز شریف متحرک اور سرگرم چیف ایگزیکٹو کے
طور پر سامنے آئے ہیں۔ ایک بڑی تعدد45.72فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ مرکز میں
برسراقتدار (ن) لیگ انتخابات سے قبل کیے گئے وعدوں پر عمل کرنے میں بری طرح
ناکام رہی ہے۔ سندھ کے عوام نے وفاقی حکومت کے خلاف سخت بیزاری کا اظہار
کیا ہے۔ 26.52 فیصد جواب دہندگان نے وفاقی حکومت کی کارکردگی کو انتہائی
خراب قرار دیا ہے۔ سروے میں عوام کی اکثریت کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ
انتخابات میں اپنی سابقہ پارٹیوں کی بجائے دوسری جماعتوں کو ووٹ دیں گے۔
سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر فوری طور پر انتخابات کرا دیے جائیں
تو قومی سطح کی پارٹیوں میں پاکستان تحریک انصاف پہلے، پاکستان پیپلز پارٹی
دوسرے اور موجودہ حکمران جماعت تیسرے نمبر پر آئے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ عوام میں حکومت کے خلاف مایوسی اس لیے بڑھ رہی ہے،
کیونکہ مسلم لیگ (ن) نے الیکشن کے دنوں میں عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے تھے،
جس بنا پر عوام نے نہ صرف مسلم لیگ (ن) کو منتخب کیا، بلکہ عوام نے مسلم
لیگ(ن) سے یہ امید بھی لگا لی تھی کہ اس کے اقتدار کے بعد پاکستان میں
خوشخالی کا دور آنے والا ہے۔ بیروزگاری ، مہنگائی،دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ
کا خاتمہ ہوا ہی چاہتا ہے، لیکن گزشتہ سال نواز شریف کے وزیراعظم کی کرسی
پر بیٹھنے کے نو دن بعد ہی بجٹ آگیا ، جوکسی طور بھی عوام دوست بجٹ نہیں
تھا، لیکن( ن) لیگ نے عوام کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ہماری
حکومت کو آئے چند روز ہی ہوئے ہیں، لہٰذا ایک سال بعد ہماری حکومت عوام کے
تمام مسائل حل کر دے گی، لیکن حکومت کو ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا،
عوام کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے گئے اور عوام صرف صبر ہی کرتے
رہے۔ اب حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ نے بھی عوام کی توقعات
پوری نہ کیں اور عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ بڑھ گیا،حکومت نے مزدور کی
کم سے کم اجرت بارہ ہزار روپے طے کہ حالانکہ بارہ ہزار روپے میں ایک مہینہ
گزارنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔عوام چونکہ ایک عرصے سے مسائل کی چکی میں پس
رہے ہیں اس لیے وہ فوری طور پر اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔جب حکومت عوام
کے مسائل حل نہیں کر پاتی تو عوام میں حکومت کے خلاف مزید ناامیدی بڑھ جاتی
ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک طرف تحریک انصاف عوام کو اپنے ساتھ
ملا کر کامیاب جلسے کر رہی ہے ، جبکہ دوسری طرف متعدد جماعتیں مل کر حکومت
کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔مسلم (ق) لیگ سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ نے
انکشاف کیا ہے کہ موجودہ حکومت کو ختم کرنے کے لیے لندن میں ق لیگ ، عوامی
مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان اتفاق ہو گیا ہے۔ عوامی طاقت کے ذریعے
قوم کو موجودہ حکومت سے نجات دلائی جائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ
الیکشن کمیشن کے معاملے پر بھی اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں تمام
سیاسی جماعتوں ماسوائے مسلم لیگ (ن) رابطے کیے جائیں گے۔ تجزیہ کاروں کے
مطابق اگرچہ مسلم لیگ(ن) کے رہنما تحریک انصاف کے جلسوں ناکام بتا رہے ہیں
، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت سے مایوس عوام حکومت مخالف قوتوں کا ساتھ دے
رہے ہیں، جو یقینا حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اگر
وہ ان خطرات سے نکلنا چاہتی ہے تو عوام کے مسائل حل کرے ، صرف صبر کی تلقین
نہ کرے،ورنہ حکومت کسی بڑے بحران سے دوچار ہوسکتی ہے۔ |