امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قاتل نصف صدی بعد بے نقاب ؟
امریکی تاریخ میں جان ایف کینیڈی اور ان کی فیملی کو جو عوامی مقبولیت ملی
ہے وہ کسی اور امریکی صدر کے حصہ میں نہیں آئی۔حقیقت یہ ہے کہ عوامی سطح پر
ان کے قتل والے روز ہر امریکی اداس تھا خواہ اس کا تعلق ری پبلکن سے ہو یا
ڈیموکریٹ سے یا پھر وہ کسی اور سیاسی نظریات سے تعلق رکھتا ہو۔ہزاروں
امریکیوںکو اس روز دھاڑیں مار کر روتے ہوئے دیکھا گیا۔ مقتول صدر کے قتل کی
تحقیقات مختلف ایجنسیوںبشمول فوج کے خفیہ ادارے بھی کر رہے تھے ۔ تاہم
لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس نظریہ پر یقین رکھتی ہے کہ انسانی خون کسی نہ
کسی شکل میں اپنے قاتل کی نشاندہی کر دیتا ہے۔
دنیا میں شاید ہی کسی سیاسی رہنما ءکے قتل پر اتنی بڑی تعداد میں سازشی
تھیوریاں سامنے آئی ہوں جتنی جان ایف کینیڈی کے قتل کے حوالے سے گردش کرتی
رہی ہیں ۔ ایک تھیوری کے مطابق اس قتل میں سی آئی اے ملوث تھی۔ اس نظریہ کی
حمایت کرنے والوں کی دلیل ہے کہ صدر کینیڈی نے مبینہ طور یہ کمنٹس دیئے تھے
کہ وہ سی آئی اے کے ہزاروں ٹکڑے کر کے ہوا میں اڑا دیں گے۔ دوسری تھیوری
میں کرمنل مافیا کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا ۔ اس تھیوری کے حامی یہ
دلیل دیتے ہیں کہ صدر کے بھائی رابرٹ جو کہ اٹارنی جنرل کی حیثیت سے خدمات
انجام دے رہے تھے انہوں نے مافیا لیڈرز کے خلاف صلیبی جنگ کا ٓغاز کر دیا
تھا۔ وہ ایسی اہم مافیا شخصیات کے خلاف مقدمات قائم کرنے والے تھے جنہوں نے
صدرارتی الیکشن میں ان کے بھائی کو کامیاب کرانے میں بڑی مدد کی تھی۔تیسری
تھیوری میں کہا گیا کہ صدر کینیڈی خلائی مخلوق کے بارے میں بہت زیادہ
دلچسپی لے رہے تھے۔دلیل یہ دی گئی کہ انہوں نے سی آئی سے خفیہ یو ایف
یو(اڑن طشتریوں) کی فائلیں طلب کیں۔ تا ہم سینئر سی آئی اے حکام نے کہا کہ
صدر کو یہ فائلیں دیکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔چوتھی تھیوری میں دنیا
کو کنٹرول کرنے والی قوتوں کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔صدر کینیڈی
ویت نام کی جنگ کا خاتمہ چاہتے تھے جس کے باعث اس جنگ سے فائدہ اٹھانے والے
بینکاروں کی بڑی تعداد کو مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا۔ دوسری جانب صدر کی
طرف سے امریکی فیڈرل ریزروزکے اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوششوں سے
بھی یہ قوتیں ناراض تھیں۔ایک تھیوری میں اس قتل کی ذمہ داری روسی خفیہ
ایجنسی پر عائد کی گئی۔اس تھیوری کے حق میں کمیونسٹ رومانیہ کی خفیہ پولیس
کے سربراہ جنرل آئن میہائی پیسیپا کے الزام کا حوالہ دیا گیا جنہوں نے کے
جی بی کو اس قتل کا ذمہ دار ٹہرایا تھا۔ایک اور اہم تھیوری میں صدر کی جانب
سے سرد جنگ کے خاتمے کےلئے روس سے مذاکرات اورامریکی فوج اور سی آئی اے کو
کیوبا پر حملے کی اجازت دینے سے انکار کو ان کے قتل کی وجہ بتایا گیا ہے۔یہ
امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل چارلس پی کابیل
نے واشنگٹن پہنچ کر صدر کینیڈی کو غدار قرار دے دیا تھا۔
صدر کینیڈی کا قتل جن حالات میں ہوا اس کے باعث صرف ایک ہفتہ بعد ہونے والے
گیلپ سروے میں 52فیصد امریکیوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ یہ قتل سازش کا
نتیجہ ہے۔سازش پر یقین رکھنے والے امریکیوں کی یہ شرح1970اور1990کی دہائیوں
میں 81فیصد تک جا پہنچی۔2013میں ہونے والے ایک پول میں 61فیصد امریکیوں نے
اس یقین کا اظہار کیا کہ صدر کینیڈی کے قتل میں ایک سے زائد قاتلوں نے
کردار ادا کیا۔گو کہ اس ماہ سی این بی سی کے پروگرام میٹ دی پریس میں گفتگو
کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ انہیں اس بارے میں شدید
شبہات ہیں کہ یہ قتل لی ہاروے اوسوالڈ نے تنہا کیا ۔تاہم اس قتل کو نصف صدی
گزر جانے کے باوجود امریکیوں کی ایک بڑی تعداد کو انسانی خون کے کسی نہ کسی
شکل میں اپنے قاتل کی نشاندہی کرنے کے نظریہ پر یقین ہے۔
اس نظریہ کو تقویت حال ہی میں ایک معروف امریکی دانشور کی کتاب سامنے آنے
پر ملی ہے جنہوں نے اپنی تحریر میں تقریباً نصف صدی سے زیادہ عرصہ قبل ہونے
والی سازش کو بے نقاب کر دیا۔سیاسی دانشوروں کی اکثریت کو اس بات کا یقین
ہے کہ اگر امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو قتل نہیں کیاجاتا تو آج دنیا کا
نقشہ کچھ اور ہوتا۔ صدر کینیڈی سامراجیت کے سخت خلاف تھے وہ انسانی حقوق پر
ایمان کی حد تک یقین رکھتے تھے۔۔ دنیا میں سرد جنگ کا دوبارہ آغاز بھی ان
کے قتل کے بعد ہوا۔ وہ روس ، کیوبا اور مشرقی بلاک سے دوستانہ تعلقات
استوار کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فیڈرل کاسترو اور روسی
رہنما نے بھی ان کے قتل کو عالمی امن کے لئے تباہ کن اور بڑی سازش قرار دیا
۔ حقیقت یہ کہ انہیں امریکی آئل اور کرائم مافیاﺅں کی مدد سے امریکی حساس
اداروں نے راہ سے ہٹایا۔ ان کے قتل میں اس وقت کے نائب صدر بھی ملوث تھے۔
صدر جان ایف کینیڈی کو قتل کرنے کیلئے منصوبہ بندی سابق صدر لنڈن بی جانسن
نے کی۔ سیاسی مبصر اور اسٹراٹیجسٹ راجر اسٹون نے 22 نومبر 1963ءکو ہونیوالے
اس قتل کی لنڈن جانسن پر ذمہ داری اپنی نئی کتاب ”دی مین ہوکِلڈ کینیڈی: دی
کیس اگینسٹ ایل بی جے“ میں عائد کی ہے۔ صدر ریگن کے سابق نائب اور رچرڈ
نکسن کے با اعتماد ساتھی نے یہ دعویٰ وائس آف رسیا سے اپنی کتاب کے بارے
میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لنڈن جانسن کی شخصیت اور طور
طریقوںسے کون واقف نہیں۔
راجر اسٹون نے جان ایف کینیڈی کے قتل کے پس پشت لنڈن جانسن کی موجودگی کے
ثبوت میں متعدد منطق، دلائل اور پیش آنے والے حالات و واقعات کی نشاندہی
کی۔ انہوں نے کہا کہ جانسن کے ہاتھوں کینیڈی کے قتل کی سب سے اہم منطق یہ
ہے کہ نومبر 1963ءمیں لنڈن جانسن ایک ایسے شخص تھے جو کہ سیاسی طور پر
اتھاہ گہرائی میں پڑے ہوئے تھے۔ وہ اس وقت کے دو اہم پبلک کرپشن اسکینڈلز
میں ملوث تھے۔ ان میں سے ایک بوبی بیکر اسکینڈل تھا، بیکر جانسن کا دایاں
بازو کہلاتا تھا۔ وہ جانسن کے نام پر امریکی سینٹ میں بھاری رشوت وصول
کررہا تھا۔ دوسرا بلی سول اسٹیٹ اسکینڈل تھا۔ اسٹیٹ ٹیکساس سے تعلق رکھنے
والا ایک وہیلر ڈیلر بزنس مین تھا جس نے لنڈن جانسن سے لاکھوں ڈالر کے
وفاقی کنٹریکٹس محض تعلقات کی بنیاد پر حاصل کئے۔ دونوں کرپشن کیسزکی
تحقیقاتی رپورٹس جاری ہونے والی تھیں، دونوں میں جانسن کے کرپشن میں ملوث
ہونے کی نشاندہی کی گئی تھی۔ جانسن اس حقیقت کو سمجھ چکے تھے کہ وہ نہ صرف
پارٹی ٹکٹ سے محروم ہوجائیں گے بلکہ ممکنہ طور پر جیل بھیجے جاسکتے ہیں۔ اس
صورت حال کو دیکھتے ہوئے لنڈن جانسن کے ہاتھوں سے وقت نکلتا جارہا تھا۔
انہیں اس حقیقت کا علم بھی ہوگیا تھا کہ اس وقت انتہائی مقبول امریکی جریدہ
”لائف میگزین“ ان کی مالیاتی صورتحال اور کرپش پر رپورٹ چھاپنے جارہا ہے۔
قتل کے ایک ہفتے بعد لائف میگزئین کے آرٹیکل کی معلومات انہیں اٹارنی جنرل
رابرٹ کینیڈی کی جانب سے بھیجی گئیں جو کہ نہیں چاہتے تھے کہ 1964 میں قومی
ٹکٹ لنڈن جانسن کو دیا جائے۔
رابرٹ اسٹون نے اس یقین کا اظہار کیا کہ لنڈن بی جانسن کا پرانا رفیق کار
اور ”ہٹ مین“ میلکم والس اصل قاتل تھا۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ لنڈن جانسن جان
ایف کینیڈی سے قبل ٹیکساس میں کم از کم 8 قتل میں ملوث رہے ہیں۔ یہ قتل
جانسن کی کرپشن اور الیکشن فراڈ پر پردہ ڈالنے کیلئے کئے گئے۔ جانسن کسی کو
بھی کسی بھی وقت قتل کرانے پر قدرت رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جانسن قتل
کے احکامات اس طرح دیتے تھے جس طرح میں اور آپ سینڈوچ کا آرڈر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات سمجھنا تاریخی طور پر اہم ہے کہ کینیڈی کے قتل کے
فوری بعد حکومت میں موجود بہت سے لوگوں نے اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کیلئے
فکشن پر مبنی یہ اسٹوری چلادی کہ لی ہاروے او سوالڈ نے کینیڈی کو قتل کیا
ہے۔ جانسن نے یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی کہ کینیڈی کو روس نے قتل کرایا
ہے، جانسن نے حقائق کو چھپانے کیلئے یہ جھوٹ بار بار دہرایا۔ ان کا خیال
تھا کہ اوسوالڈ پر الزام عائد کرنا ضروری ہے اور یہ تاثر بھی ضروری ہے کہ
وہ ایک غیر ملکی حکومت کا ایجنٹ ہے۔روسی حکومت نے اسے ایک قومی سانحہ قرار
دیا۔ درحقیقت 1985ء میں ڈی کلاسیفائیڈ ہونیوالی دستاویزات کے مطابق کے جی
بی نے یہ جاننے کیلئے آزادانہ تحقیقات کی تھیں کہ کینیڈی کو کس نے قتل کیا۔
ان کی دستاویزات میں بھی لنڈن جانسن کا نام لیا گیا۔
یہ امر قابل ذِکر ہے کہ مقتول امریکی صدر کی بیوہ جیکی کینیڈی نے فرانسیسی
انٹیلی جنس سے درخواست کی تھی کہ وہ تحقیقات کرکے بتائیں کہ ان کے شوہر کو
کس نے قتل کیا۔ جیکی کو امریکی انٹیلی جنس سروسز کی تحقیقات پر یقین نہیں
تھا۔ کوئی بھی انہیں یہ بتانے کو تیار نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے۔ تب انہوں نے
فرانسیسی انٹیلی جنس سے رابطہ کیا جن سے ان کے تعلقات تھے، ان کی درخواست
پر فرانسیسی انٹیلی جنس نے تحقیقات کیں تاہم یہ درخواست حکومت امریکا کی
جانب سے نہ دی جانے کے باعث انہوں نے تحقیقاتی رپورٹ ایک کتاب ”فیئرویل
امریکا“ میں شائع کی جسے جیمس ہیپ برن نے تحریر کیا۔ فرانسیسی تحقیقاتی
رپورٹ میں بھی انگلی کا رخ نائب صدر لنڈن جانسن کی طرف تھا۔
جانسن کے پاس کینیڈی کے قتل کے انتہائی اہم محرکات تھے، حالانکہ قتل کے
منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وہ تنہا نہیں تھے۔ مصنف کو یقین ہے کہ سی
آئی اے بھی اس قتل میں ملوث تھی۔ جانسن کو امریکی منظم جرائم میں ملوث ”بے
آف پگس“ ( Bay of Pigs) کی ناکامی پر تشویش میں تھے۔ انہوں نے 1960ءکے
الیکشن کیلئے کینیڈی کو ایک ملین ڈالر دیئے تھے اور وعدہ کیا تھا کہ وہ
ٹیکساس میں ان کیلئے ووٹوں کا انتظام کرینگے جو کہ انہوں نے کیا۔ تاہم اس
کے بعد بوبی کینیڈی نے جو کہ اٹارنی جنرل اور صدر کے بھائی تھے منظم جرائم
کیخلاف کارروائی شروع کردی۔ انہوں نے اس مافیا کی بعض ایسی شخصیات کو ڈی
پورٹ کرنے کی کوشش کی جنہوں نے ان کے بھائی کی انتخابی مہم میں اہم کردار
ادا کیا تھا۔ مافیا سے بوبی کینیڈی کا تعاون نہ کرنا بھی صدر کینیڈی کے قتل
کا محرک بن گیا۔
ٹیکساس کو امریکی آئل کی صنعت میں اہم حیثیت حاصل ہے۔ صدر کینیڈی آئل پر
الاﺅنس ختم کرنے کیلئے اقدامات کررہے تھے جس کے نتیجے میں ٹیکساس میں تیل
کمپنیوں کو اربوں ڈالر کے نقصان کا سامنا تھا۔ اس صورتحال میں 22 نومبر
1963ءکو ہونےوالے قتل میںآئل فیکٹر بھی ایک محرک تھا۔ راجر اسٹون نے صدارتی
لیموزین کی اوپری چھت ہٹائے جانے کو بھی سازش کا ایک حصہ قرار دیا ہے۔ ان
کا کہنا ہے کہ بل موئرس اب معروف امریکی صحافی ہیں تاہم 1963ءمیں وہ نائب
صدر لنڈن جانسن کے اسٹاف میں شامل تھے۔ بل موئرس یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ وہ
ٹوفیلڈ میں سیکرٹ سروس کے دفتر گئے اور گاڑی کی اوپری چھت ہٹائے جانے کیلئے
ہدایات دیں اور کہا کہ صدر چاہتے ہیں کہ گڈام ببل ٹاپ ( bubble top Goddamn
) ہٹادی جائے۔ گوکہ یہ ٹاپ بلٹ پروف نہیں تھی تاہم کسی عمارت کے اوپر سے
کسی نشانچی کیلئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ صدر کا نشانہ لے سکے کیونکہ اس
ٹاپ کے نتیجے میں لیموزین میں بیٹھنے والا نظر نہیں آتا تھا۔ کینیڈی کے دو
قریبی ساتھیوںنے تحقیقاتی انکوائری میں بتایا کہ صدر نے گڈام ببل ٹاپ ہٹانے
کیلئے کبھی نہیں کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ احکامات لنڈن بی جانسن نے بل
موئرس کے ذریعے دیئے۔
مصنف نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا کینیڈی کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ
بہت سے لوگ ان کے مخالف ہیں؟ ان کا کہنا ہے کہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ صدر
ڈلاس نہیں جانا چاہتے تھے۔ ان کی اس معاملہ پر جانسن سے تلخی بھی ہوئی۔ سب
جانتے ہیں کہ جب موٹر کیڈ میں جانسن صدر کینیڈی کے ہوٹل گئے تو انہوں نے
کینیڈی کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ گورنر جان کونالی کو نائب صدر کی
کار میں بٹھادیا جائے جو کہ جانسن کے قریبی ساتھی تھے۔ جبکہ انہوں نے اپنے
دشمن سینٹر رالف یار بورو کو صدر کی گاڑی میں بٹھانے کیلئے زور دیا۔ تاہم
صدر نے انکار کردیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ گورنر کو ان کے ہمراہ سفر
کرنا چاہئے۔ صدر کے اس انکار پر دونوں میں سخت تلخی ہوئی اور جانسن تیزی کے
ساتھ کمرے سے باہر نکل گئے۔ وہ اپنے حلیف کو خطرے سے بچانے کی کوشش کررہے
تھے جس میں وہ ناکام ہوگئے۔
یہاں اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھنا چاہئے کہ یہ جانسن تھے جنہوں نے صدر
کینیڈی سے ٹیکساس جانے پر اصرار کیا۔ انہوںنے ہی ایک مخصوص روٹ اختیار کرنے
کیلئے اصرار کیا تاکہ صدر ڈیلے پلازہ سے گزریں۔ اس روٹ کو خفیہ رکھنے کی
ضرورت تھی اور سڑک کے دونوں اطراف عمارتوں کو سیل کیا جانا ضروری تھا۔ ایسا
اس وقت بالخصوص ضروری ہوتا ہے جب صدر کی کار 40 میل فی گھنٹہ سے کم رفتار
پر چلے۔ قبل ازیں ایسا ہوسٹن میں کیا گیا، ایک دن قبل ہی ایسا سان انتونیو
میں ہوا ،تاہم ڈلاس میں ایسا نہیں ہوا۔ پروٹوکول کے مطابق صدر کی کار کے
ہمراہ 6 موٹر سائیکل سوار پولیس کمانڈوز ہوتے ہیں۔ کار کی دونوں جانب تین
کمانڈوز تعینات ہوتے ہیں۔ ایسا ہوسٹن میں، سان انتونیو میں جبکہ ایک ہفتہ
قبل شکاگو میں اور دو ہفتے قبل میامی میں بھی ہوا۔ تاہم ڈلاس میں اس روز
صدارتی لیموزین کے ہمراہ صرف دو پولیس افسران تھے۔ انہیں صدارتی کار کے
عقبی بمپر کے پیچھے چلنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ عقبی بمپر کے ساتھ عموماً
سیکرٹ سروس کے دو ایجنٹس ہوتے ہیں تاہم ڈلاس میں انہیں چھٹی کا حکم دے دیا
گیا۔ صدارتی لیموزین کی رفتار 20 میل فی گھنٹہ سے کم ہونے کی صورت میں دو
سیکرٹ سروس ایجنٹس دوڑتے ہوئے ساتھ چلتے ہیں۔ تاہم انہیں بھی اپنی ذمہ
داریاں ادا کرنے سے روک لیا گیا۔ صدارتی پروٹوکول میں اس کے علاوہ بھی بہت
سی بے قاعدگیاں ہوئیں جس سے یہ یقین ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ امریکی سیکرٹ
سروس نے بھی صدر کینیڈی کے قتل میں اہم کردار ادا کیا۔
مصنف نے اپنی کتاب میں یہ الزام بھی عائد کیا کہ ملک کی خارجہ پالیسی کو
تبدیل کرنے کیلئے بھی کینیڈی کو راہ سے ہٹانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ قتل
کے بعد امریکی پالیسیاں ڈرامائی طور پر تبدیل ہوگئیں۔ امریکی اور روسی
حکومت کے درمیان اہم مذاکرات منقطع ہوگئے اور دونوں ملک دوبارہ سرد جنگ کے
دور میں داخل ہوگئے۔ یہ واقعہ بھی تاریخ کا حصہ بن گیا ہے کہ روسی رہنما
نکیتا خروشچیف کینیڈی کے قتل کی خبر سن کر روپڑے۔ قتل والے روز کیوبن رہنما
فیڈل کاسترو کے پاس موجود ایک امریکی صحافی کا کہنا ہے کہ کیوبن رہنما نے
بے ساختہ کہا کہ یہ بہت برا ہوا ہے۔ بہت برا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کینیڈی کے
ساتھ مذاکرات میں دوطرفہ کشیدگی کو ختم کرنے کی کوششیں کررہے تھے۔ کینیڈی
کشیدگی کے خاتمے کیلئے مخلص تھے۔ کاسترو نے مزید کہا کہ پینٹاگون، امریکی
فوج اور امریکی انٹیلی جنس سروس میں بہت سے لوگ امریکا کی بیرونی ممالک سے
کشیدگی کے خاتمے کیلئے کینیڈی کی کوششوں سے خوش نہیں تھے- |