وزیرستان:آپریشن کے خوف سے نقل مکانی میں تیزی

وزیرستان اور اس سے ملحقہ علاقوں کے عوام ایک طویل عرصے سے اغیار کی مسلط کردہ جنگ کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کارروائی ملک کے کسی حصے میں بھی ہو، بمباری، تباہی اور نقل مکانی کا عذاب وزیرستان کے عوام کو ہی سہنا پڑتا ہے۔ یوں تو کئی ماہ سے ہی وہاں کے عوام آپریشن کے خوف سے نقل مکانی کرنے پرمجبور ہیں، لیکن تفتان میں زائرین کی بس اور کراچی میں ائیرپورٹ پر حملے کے بعد ایک بار پھر وزیرستان کے عوام پر آپریشن کی تلوار لٹکنے لگی ہے ۔ ذرائع کے مطابق منگل کے روز وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت اجلاس میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ ہو گیا ہے، اجلاس میں فوجی اور سیاسی قیادت نے وزیرستان میں بھرپور کارروائی کرنے پر اتفاق کر لیا ہے اور بعض علاقوں میں فضائی بمباری شروع بھی کردی گئی ہے۔ جس کے بعد خوف و ہراس کی چادر نے وزیرستان کے عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ممکنہ آپریشن سے بچنے کے لیے عوام نے نقل مکانی کا عمل تیز کردیا ہے۔ یہ خیال رہے کہ گزشتہ دنوں حکومت نے پندرہ روز میں شمالی وزیرستان سے جنگجوﺅں کو علاقے سے نکالنے کی ڈیڈلائن دی تھی اور شمالی وزیرستان میں ایک جرگے کے دوران گورنر خیبر پختونخوا سردار مہتاب احمد خان کو یقین بھی دلایا گیا تھا کہ غیر ملکی جنگجو 15 روز کے اندر علاقہ خالی کردیں گے، جبکہ امن کی بحالی کے لیے تمام تر اقدامات کیے جائیں گے، جبکہ دوسری جانب حافظ گل بہادر کی قیادت میں پاکستانی طالبان نے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے مقامی آبادی کو 10 جون سے قبل محفوظ علاقوں کی جانب نقل مکانی کی ہدایت کی تھی۔ طالبان کی جانب سے قبائلی علاقوں میں تقسیم کیے جانے والے ایک پمفلٹ میں کہا گیا تھا کہ حکومت پاکستان طالبان کے ساتھ کیے جانے والے جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہی اور فضائی بمباری میں علاقے کے بے گناہ عوام کو نشانہ بنارہی ہے۔ حکومت نے علاقے میں فوجی کارروائی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ لہٰذا شمالی وزیرستان کے عوام متوقع آپریشن کے پیش نظر 10 جون سے قبل اپنے اہل و عیال کو محفوظ مقامات کی طرف منتقل کردیں۔
اب ایک طرف شمالی وزیرستان میں سرگرم حافظ گل بہادر گروپ نے علاقہ خالی کرنے کے لیے شہریوں کو دی گئی مہلت میں 20 جون تک توسیع کردی ہے، جبکہ دوسری جانب حکومت کی طرف سے دی گئی پندرہ روزہ ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا خوف و ہراس بہت بڑھ گیا ہے اور نقل مکانی میں تیزی آگئی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ صرف گزشتہ دو ہفتوں کے دوران80 ہزار سے زاید افراد وزیرستان سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔ فرانس پریس کی رپورٹ کے مطابق شمالی وزیرستان کے عوام نے علاقے کو تیزی سے چھوڑنا شروع کردیا ہے اور گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران 25 ہزار سے زیادہ افراد نے اس علاقے کوخالی کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ شمالی وزیرستان سے بنوں کی جانب نقل مکانی کرنے والے اب تک رجسٹرڈ افراد کی تعداد 50 ہزار سے زاید ہے۔ نقل مکانی کرنے والوں میں 15 ہزار چار سو چھیاسٹھ خواتین اور 23 ہزار چار سو انچاس بچے شامل ہیں۔ لوگ اس قدر زیادہ تعداد میں نقل مکانی کررہے ہیں کہ شمالی وزیرستان کا صدر مقام میران شاہ ایک ویران سا منظر پیش کرنے لگا ہے، بہت سے دوکاندار اپنی دوکانوں کو بند کرنے اور قیمتی چیزوں کو گھروں میں منتقل کرنے میں مصروف ہیں۔ شمالی وزیرستان کے ایک اہم علاقے میر علی میں لوگ پہلے ہی نقل مکانی کرچکے ہیں، لوگ اپنی جان بچانے کی خاطر بے سروسامانی کی حالت میں بھی گھروں سے نکل رہے ہیں، لیکن بہت سے خاندانوں کو ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے نقل و حمل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کی جانب سے بھاری کرائے لیے جانے کی وجہ سے بھی مقامی افراد کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بنوں سے میران شاہ کا کرایہ ایک ہزار روپے سے بڑھ کر دو ہزار روپے ہوگیا ہے۔ ٹرانسپورٹر مجبور لوگوں سے من مانے کرائے وصول کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ وزیرستان میں بہت سے ایسے خاندان ہیں جن کے رشتے دار افغانستان میں رہتے ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد نے سرحد پار نقل مکانی شروع کردی ہے۔ تاہم سیکورٹی فورسز کی جانب سے غلام خان روڈ کو بند کردیا گیا ہے، جو پاک افغان سرحد پر ایک اہم چک پوائنٹ ہے۔ سرکاری طور پر بنوں میں بکاخیل کے مقام پر کیمپ قائم کیا گیا ہے، لیکن وہاں پر سہولیات نہ ہونے، شدید گرمی اور وزیرستان کے لوگوں کی روایات کے باعث کوئی رہنے کو تیار نہیں اور متاثرہ افراد اپنے عزیز و اقارب اور کرائے کے گھروں میں رہنے لگے ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی کے باعث بنوں میں گھروں کے کرائے پانچ گنا بڑھ گئے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد میں منتقلی کے باعث ضلع بھر میں اشیا خور و نوش کی قلت کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ مقامی قبائل کا کہنا ہے کہ متعدد راستوں سے لوگوں کی بڑی تعداد خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع اور افغانستان منتقل ہورہی ہے۔ نقل مکانی کرنے والے ہزاروں قبائلی متعدد پہاڑی راستوں کے ذریعے بھی منتقل ہو رہے ہیں، جن کو ایک طرف سخت گرمی اور دوسری جانب رہائش کے لیے مکانات کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے) کے عہدیدار کے مطابق ضلع بنوں میں رجسٹریشن کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ مزید لوگوں کے آنے کا سلسلہ بھی جاری ہے، نقل مکانی کرنے والے افراد دھڑا دھڑ آرہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق وزیرستان میں ممکنہ آپریشن کے پیش نظر بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، جو یقینی طور پر ملک و قوم کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ طالبان کے حوالے سے جو پالیسی بھی اپنانا چاہے، اس سے پہلے وزیرستان سے بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی کے ملک پر پڑنے والے اثرات کو سامنے رکھے اور اس کے بعد کوئی پالیسی اپنائے۔ ابھی تو وزیرستان سے ہزاروں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں، لیکن جس تیزی سے نقل مکانی ہورہی ہے، جلد ہی یہ تعداد ہزاروں سے لاکھوں میں تبدیل ہوجائے گی۔ اس صورت میں ایک طرف تو نقل مکانی کرنے والے ان لاکھوں شہریوں کے لیے مہاجرت کی زندگی گزارنا کسی طور بھی آسان نہیں ہوگا۔ نقل مکانی کرنے کے بعد یہ مہاجرین بے یارومددگار کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ اسی طرح ایک بار پہلے بھی پاکستان میں مالاکنڈ ڈویژن آپریشن کے باعث پاکستان کی دوسری بڑی ہجرت کی صورت میں ہو آچکا ہے۔ اس وقت فوجی آپریشن کی صورت میں تیس لاکھ کے لگ بھگ افراد مالاکنڈ ڈویژن سے نقل مکانی کرکے بے یارومددگار زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے تھے، جن کے بارے میں ضرورت مند انسانوں کی مدد کرنے والی تنظیم CARE کے ترجمان ٹوماس شوارٹس نے کہا تھا کہ ”پاکستان میں تین ملین کے قریب مہاجرین کو ایسے حالات کا سامنا ہے، جو انسانی زندگی اور وقار کے منافی ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسی صورت حال پہلے شاید ہی کبھی دیکھی ہو۔ پاکستان میں تین ملین کے قریب مہاجرین کی صورت حال کو دیکھ کر اسے لاکھوں انسانوں کو درپیش تباہ کن حالات کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔“ اس کے ساتھ حکومت کے لیے اپنے ملک میں ہی ہجرت کرنے والے شہریوں کو ایڈجسٹ کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوگا۔ حکومت کو یہ بات سامنے رکھنی چاہیے کہ جن لوگوں نے مالاکنڈ ڈویژن سے ہجرت کی تھی وہ لوگ ابھی تک ملک بھر میں مارے مارے پھر رہے ہیں، گھر بار ان کے تباہ ہوچکے ہیں اور ملک میں کسی دوسری جگہ ان کا ٹھکانا نہیں ہے، ابھی بھی بہت سے خاندان کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اب بھی اگر وزیرستان میں آپریشن کیا جاتا ہے تو سخت گرمی کے موسم میں لاکھوں بے گناہ لوگ ملک بھر عورتوں اور بچوں سمیت خوار ہوں گے، اس سے بہتر ہے کہ کوئی ایسی پالیسی اپنائی جائے جس سے لاکھوں بے گناہ لوگوں کو اپنے ہی ملک میں ہجرت نہ کرنی پڑے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 641996 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.