ماہِ شعبان کی پندرہویں رات کو شبِ براء ت کہا جاتا ہے شب
کے معنی ہیں رات اور برا ت کے معنی بری ہونے اور قطع تعلق کرنے کے ہیں۔
چونکہ اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ
کی رحمت سے بے شمار مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لیے اس رات کو شبِ
براء ت کہتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہوا، ''قسم ہے اس روشن کتاب کی بے شک ہم
نے اسے برکت والی رات میں اتارا، بے شک ہم تو رستہ دکھانے والے ہیں اس رات
میں تمام حکمت کے کام فیصلے کیے جاتے ہیں''۔ (الدخا ن آیت 3اور 4)
(کنزالایمان)،اس رات سے مراد شبِ قدر ہے یا شبِ برا ء ت'' (خزائن العرفان)
ان آیات کی تفسیر میں حضرتِ عکرمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ، اور بعض دیگر مفسرین
نے بیان کیا ہے کہ ''لیلۃ المبارک'سے پندرہ شعبان کی رات مراد ہے۔ اس رات
میں زندہ رہنے والے ، فوت ہونے والے اور حج کرنے والے سب کے ناموں کی فہرست
تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ اس روایت
کو ابن جریر، ابن منذر اور ابنِ ابی حاتم نے بھی لکھا ہے۔ اکثر علماء کی
رائے یہ ہے کہ مذکورہ فہرست کی تیاری کا کام لیلۃ القدر میں مکمل ہوتا ہے۔
اگرچہ اس کی ابتداء پندرہویں شعبان کی شب سے ہوتی ہے۔ (ماثبت من السنہ
)،علامہ قرطبی مالکی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں۔ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے
لوحِ محفوظ سے نقل کرنے کا آغاز شبِ برآ ء ت سے ہوتا ہے اور اختتام لیلۃ
القدر میں ہوتا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن)یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے
کہ یہ امور تو پہلے ہی سے لوح محفوظ میں تحریر ہیں پھر اس شب میں ان کے
لکھے جانے کا کیا مطلب ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ امور بلاشبہ لوح محفوظ میں
تحریر ہیں لیکن اس شب میں مذکورہ امور کی فہرست لوح محفوظ سے نقل کرکے ان
فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ امور ہیں۔حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں،کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کیا
تم جانتی ہو کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یا
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم آپ فرمائیے۔ ارشاد ہوا آئندہ سال میں جتنے
بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دئیے جاتے ہیں اور جتنے
لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دئیے جاتے ہیں اور
اس رات میں لوگوں کا مقررہ رزق اتارا جاتاہے۔ (مشکوٰۃ)حضرت عطاء بن یسار
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں،ـــ"شعبان کی پندرہویں رات میں اﷲ تعالیٰ
ملک الموت کو ایک فہرست دے کر حکم فرماتا ہے کہ جن جن لوگوں کے نام اس میں
لکھے ہیں ان کی روحوں کو آئندہ سال مقررہ وقتوں پر قبض کرنا۔ تو اس شب میں
لوگوں کے حالات یہ ہوتے ہیں کہ کوئی باغوں میں درخت لگانے کی فکر میں ہوتا
ہے کوئی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوتا ہے۔ کوئی کوٹھی بنگلہ بنوا رہا
ہوتا ہے حالانکہ ان کے نام مْردوں کی فہرست میں لکھے جاچکے ہوتے ہیں۔ حضرت
عثمان بن محمد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع
کرنے کا وقت اس رات میں لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے
اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام مْردوں کی فہرست میں لکھا
جاچکا ہوتا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ، شعب الایمان للبیہقی )چونکہ یہ
رات گذشتہ سال کے تمام اعمال بارگاہِ الٰہی میں پیش ہونے اور آئندہ سال
ملنے والی زندگی اور رزق وغیرہ کے حساب کتاب کی رات ہے اس لیے اس رات میں
عبادت الہٰی میں مشغول رہنا رب کریم کی رحمتوں کے مستحق ہونے کا باعث ہے
اور سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی یہی تعلیم ہے۔شبِ برآء ت کی
ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں اﷲ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے بے شمار
لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی
ہیں،"ایک رات میں نے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا
تو میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھا کہ آپ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے۔ میں نے عرض کی یا رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کسی
دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا و مولیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا بیشک اﷲ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے
مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ
لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ (ترمذی ، ابن ماجہ، مسند احمد ، مشکوٰۃ، مصنف
ابنِ ابی شعبہ، شعب الایمان للبیہقی)،حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ، سے روایت ہے کہ آقا و مولیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،"شعبان
کی پندرہویں شب میں اﷲ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر
ہوتا ہے اور اس شب میں ہر کسی کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے مشرک اور بغض
رکھنے والے کے''۔ (شعب الایمان للبیہقی ) ارشاد باری تعالیٰ ہوا ''اے ایمان
والو اﷲ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے نصیحت ہوجائے''۔ (التحریم)یعنی توبہ
ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اعمال میں ظاہر ہو اور اس کی
زندگی گناہوں سے پاک اور عبادتوں سے معمور ہوجائے۔حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ، نے بارگاہ رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کی۔ یارسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم توبۃ النصوح کسے کہتے ہیں اشاد ہوا بندہ اپنے گناہ
پر سخت نادم اور شرمسار ہو۔ پھر بارگاہ الہٰی میں گڑگڑا کر مغفرت مانگے۔
اور گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم کرے تو جس طرح دودھ دوبارہ تھنوں میں داخل
نہیں ہوسکتا اسی طرح اس بندے سے یہ گناہ کبھی سرزد نہ ہوگا۔شبِ برا ء ت
فرشتوں کو بعض امور دئیے جانے اور مسلمانوں کی مغفرت کی رات ہے اس کی ایک
او ر خصوصیت یہ ہے کہ یہ رب کریم کی رحمتوں کے نزول کی اور دعاؤں کے قبول
ہونے کی رات ہے۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے
کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ''جب شعبان کی پندرہویں
شب آتی ہے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ
اس کے گناہ بخش دوں ، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں۔ اس وقت
اﷲ تعالیٰ سے جو مانگا جائے وہ ملتا ہے۔ وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے سوائے
بدکار عورت اور مشرک کے''۔ (شعب الایمان للبیہقی )،حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ، سے روایت ہے کہ آقا و مولیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاجب شعبان
کی پندرھویں شب ہو تورات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب
آفتاب کے وقت سے ہی اﷲ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پر نازل ہوجاتی ہے اور اﷲ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش
دوں۔ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ
میں اسے مصیبت سے نجات دوں ، یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔ (ابنِ
ماجہ ،شعب الایمان للبیہقی)اس حدیث پاک میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت و
رحمت کی ندا کا ذکر ہے اگرچہ یہ ندا ہر رات میں ہوتی ہے لیکن رات کے آخری
حصے میں شبِ برا ء ت کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہ ندا غروب آفتاب ہی سے
شروع ہوجاتی ہے گویا صالحین اور شبِ بیدار مومنوں کے لیے تو ہر رات شبِ
براء ت ہے مگر یہ رات خطاکاروں کے لیے رحمت و عطا اور بخشش و مغفرت کی رات
ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس رات میں اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیں
اور ربِ کریم سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگیں۔ اس شب رحمتِ خداوندی ہر
پیاسے کو سیراب کردینا چاہتی ہے اور ہر منگتے کی جھولی گوہرِ مراد سے بھر
دینے پر مائل ہوتی ہے۔ شبِ بر اء ت میں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے خود بھی شبِ بیداری کی اور دوسروں کو بھی شبِ بیداری کی تلقین
فرمائی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان اوپر مذکور ہوا کہ "جب
شعبان کی پندرہویں رات ہو تو شبِ بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو'' اس
فرمان جلیل کی تعمیل میں اکابر علمائے اہلسسنت اور عوام اہلسنت کا ہمیشہ سے
یہ معمول رہا ہے کہ رات میں شبِ بیداری کا اہتمام کرتے چلے آئے ہیں۔ نیک و
متقی لوگوں کا یہ حال ہے جو ہر رات شبِ بیداری کرتے ہیں اور تمام دن اطاعتِ
الہٰی میں گزارتے ہیں جب کہ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے کم نصیب ہیں جو اس
مقدس رات میں فکر آخرت اور عبادت و دعا میں مشغول ہونے کی بجائے مزید لہو و
لعب میں مبتلا ہوجاتے ہیں آتش بازی پٹاخے اور دیگر ناجائز امور میں مبتلا
ہوکر وہ اس مبارک رات کا تقد س پامال کرتے ہیں۔ حالانکہ آتش بازی اور پٹاخے
نہ صرف ان لوگوں اور ان کے بچوں کی جان کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ارد گرد کے
لوگوں کی جان کے لیے بھی خطرے کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے لوگ ''مال برباد اور
گناہ لازم'' کا مصداق ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ایسے گناہ کے کاموں سے خود بھی
بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور بچوں کو سمجھائیں کہ ایسے لغو کاموں سے
اﷲ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوتے ہیں۔
مجدد برحق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں۔
آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب براء ت میں رائج ہے بے شک حرام اور پورا جرم
ہے کہ اس میں مال کا ضیاع ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی
فرمایا گیا۔ ارشاد ہوا،"اور فضول نہ اڑا بے شک (مال) اڑانے والے شیطانوں کے
بھائی ہیں ''۔ (بنی اسرائیل) |