مغفرت کی رات، شب برأت

آج برطانیہ میں شب برأت ہے اور پاکستان میں انشاءالله کل ہوگی۔ ماہ شعبان کی پندرہویں رات کوشب برأت کہاجاتا ہے شب کے معنی ہیں رات اوربرأت کے معنی بری ہونے اورقطع تعلق کرنے کے ہیں‘چونکہ اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمار مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لئے اس رات کوشب برأت کہتے ہیں‘ اس رات کولیلتہ المبارکہ یعنی برکتوں والی رات لیلتہ الصک یعنی تقسیم امور کی رات اور لیلتہ الرحمتہ رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہاجاتا ہے۔ امت کی اکثریت اس رات قیام بھی کرتی ہے اور دن کو روزہ بھی رکھتی ہے، بچپن سے دیکھتا آ رہا ہوں ہمارے گھر اس رات خصوصی اہتمام ہوتا تھا جو آج تک جاری ہے، خاص پکوان پکتے تھے ہم سب مسجد جاتے تھے، نوافل ادا کرتے تھے، قبرستان جاتے تھے، ہمارے بڑے بزرگ کتنے سادہ اور بھولے مسلمان تھے جو بغیر دلائل کا تقاضہ کئیے ان نیک اعمال پر نسل در نسل عمل پیرا تھے، انھوں نے کبھی نہیں پوچھا تھا کہ کہاں لکھا ہے شب برات کے فضائل میں، میرے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ، شافع روز جزا صلی الله علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ جنتی لوگ سیدھے سادے اور بھولے ہوتے ہیں اؤ کما قال صلی الله علیہ وسلم۔ کتنا اچھا اور خوبصورت دور تھا ہم ایک دوسرے کو برداشت کرتے تھے۔ آہ پھر دور بدلا شدت پسند طبقہ بن گیا ، کفر وشرک اور بدعت کے فتوے داغے جانے لگے۔ جو بات انکے علم میں نہیں ہوتی یا انکے مطالعہ میں نہیں آتی یا انکے عقیدے کے خلاف ہوتی ہے جھٹ اس پر بدعت کا فتوی صادر فرما دیتے ہیں اپنی کم علمی و جہالت کا اظہار نہیں کرتے حالانکہ اسکے اظہار سے بندہ چھوٹا نہیں ہوتا بلکہ اسکا قد اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ آج کی رات کے حوالے سے بھی امت میں ایک طبقہ موجود ہے جو یہ کہتا ہے کہ اس رات کی فضیلت کا ذکر صحیح احادیث اور آثار صحابہ سے نہیں ملتا ۔ جیسا کہ جاوید احمد غامدی صاحب کو سن رہا تھا موصوف سے شب برات کے بارےسوال ہوا تو موصوف نے چھوٹتے ہی فرمایا کہ یہ ہمارے ہاں ایک رواج ہے اس رات کو منانے کا، اسکی کوئی حقیقت قرآن و حدیث سے نہیں ملتی۔ غامدی صاحب کا علم قرآن و حدیث کے بارے میں ہے کتنا ؟ ہر بندہ ڈاکٹر نہیں ہوتا ، انجنئیر نہیں ہوتا، ٹرک ڈرائیور پائلٹ نہیں ہوتا، جسے جس شعبہ میں مہارت ہوتی ہے اسی میں کام کرتا ہے کوئی دوسرا کرے گا تو اسے خراب کرے گا ۔ لیکن دین کے شعبے کو ہم نے ایسا بنا دیا ہے کہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا اسکا رازدان بن بیٹھا ہے۔ جسے منہ دھونے کی تمیز نہیں وہ ٹی وی پر دین کے دقیق مسائل پر گمراہ کن تبصرے کر رہے ہیں۔ غامدی صاحب غیروں سے کہا تم نے غیروں سےسنا تم نے ، کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا ؟ محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے بی اے آنرز انگلش لٹریچر اور فلاسفی کے مضامین کے ساتھ کیا ہوا ہے اور مذہبی سکالر بن کر قرآن پر درس دے رہے ہوتے ہیں اور نسلوں کا ایمان برباد کر رہے ہوتے ہیں موصوف کا تعلق بھی کبھی جماعت اسلامی سے تھا۔ جتنے بھی نئے نئے شوشوں کے تیر چلتے ہیں اگر آپ مڑ کر دیکھیں گے تو مورچہ جماعت اسلامی کا ہی نظر آئے گا۔ خیر موضوع کہیں اور نہ نکل جائے۔ ایک دفعہ حضرت علی کرم الله وجہہ کوفہ کی جامع مسجد میں داخل ہوے آپ نے دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا درس قرآن دے رہا ہے، آپ نے اس درس دینے والے سے پوچھا کہ کیا تو قرآن کے ناسخ و منسوخ کو جانتا ہے ؟ اسنے جواب دیا نہیں، حضرت علی کرم الله وجہہ نے اسں شخص کو کہا کہ ملعون نکل جا مسجد سے تو خود بھی گمراہ ہے دوسروں کو بھی گمراہ کرو گے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ نیم حکیم خطرہ جان نیم ملاں خطرہ ایمان ۔ آئیے اب غامدی اور اس جیسے دیگر نیم ملاؤں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ شب برات کی کیا حقیقت ہے ؟ جناب شب برات کے فضائل کی احادیث کم و بیش ٨ صحابہ کرام نے روایت کی ہیں جن میں ابوبکر صدیق ، حضرت علی ، ام المئومنین عائشہ ، ابو ہریرہ ، معاذ بن جبل رضوان الله علیھم سر فہرست ہیں۔ اور یہ احادیث صحاح ستہ کے علاوہ دیگر کتب حدیث میں بھی موجود ہیں، جن میں ترمذی شریف جس میں امام ترمذی نے پورا باب باندھا ہے، نسائی شریف ، ابن ماجہ ، مصنف عبدالرزاق ، مسند ابو یعلی ، صحیح ابن حبان ، کتب احادیث سرفہرست ہیں۔ کوئی شخص غامدی جیسا لاعلم شخص کہہ سکتا ہے کہ ان احادیث کی سند میں ضعف ہے کیونکہ میں انکا طریقہ واردات جانتا ہوں۔ پہلے کہتے ہیں کوئی حدیث دکھاؤ اگر دکھا دیں تو پھر پینترا بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ضعیف ہے۔ انکی خدمت میں گذارش ہے کہ اصول حدیث سے ایک علمی بات بیان کرتا ہوں کہ ضعف ہمیشہ سند میں ہوتا ہے متن حدیث میں نہیں، ( اسے علماء سمجھیں گے تشریح کی گنجائش نہیں مضمون طویل ہو چکا ہے ) اگر یہ حدیث ایک سند کے ساتھ ہوتی تو انکی دلیل میں وزن ہوتا لیکن کتب حدیث میں ٨ صحابہ نے روایت کیا ہے اور ہر ایک کی سند جدا جدا ہے۔ متعدد آئما و محدثین نے احادیث کو بیشمار اسناد کے ساتھ بیان کیا ہے اور کثیر محدثین نے لکھا ہے کہ پندرھویں شعبان کی فضیلت میں وارد تمام احادیث کی اسناد صحیح ہیں۔ چند احادیث کے ساتھ ساتھ ایک حوالہ انکے اپنے گھر سے بیان کرکے مضمون ختم کرتا ہوں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتی ہوکہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آپ فرمائیے۔ارشادہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دیئے جاتے ہیں اورجتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیئے جاتے ہیں اوراس رات میں لوگوں کے(سال بھرکے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اوراس میں لوگوں کامقررہ رزق اتاراجاتاہے۔ (مشکوۃ‘جلد 1صفحہ277)۔۔ 2حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقامولیٰ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا’’شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتا ہے اوراس شب میں ہرکسی کی مغفرت فرمادیتا ہے سوائے مشرک اوربغض رکھنے والے کے‘‘(شعب الایمان للبیہقی‘جلد3صفحہ380)۔۔ 4حضرت ابوہریرہ ‘حضرت معاذ بن جبل‘ حضرت ابوثعلبتہ اورحضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی ایساہی مضمون مروی ہے(مجمع الزوائد‘جلد8 صفحہ65) ۔۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتو رات کوقیام کرواوردن کوروزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پرنازل ہوجاتی ہے اوراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ‘ہے کوئی مغفرت کاطلب کرنے والاکہ میں اسے بخش دوں‘ ہے کوئی رزاق مانگنے والاکہ میں اس کورزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں‘یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتارہتاہے۔ (ابن ماجہ صفحہ100‘شعب الایمان للبیہقی‘جلد3‘صفحہ378‘مشکوۃ جلد1صفحہ278)۔ غامدی اینڈ کمپنی کو ایک حدیث نظر نہیں آتی والله کتب احادیث بھری پڑی ہیں مگر مضمون طویل ہو چکا ہے لہذا ایک حوالہ انکے گھر سے درج کرکے اجازت چاہتا ہوں ، دیوبندی اہلحدیث کے مشترکہ شیخ الاسلام، محدث امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں شعبان کی ١٥ویں رات کی فضیلت میں بہت سی احادیث آئی ہیں ، آثار صحابہ سے ، تابعین تبع تابعین ، سلف صالحین کے اقوال آئے ہیں جس سے ثابت ہے کہ وہ اس رات خصوصی نمازیں پڑھتے اور عبادت کرتے تھے ( فتاوی ابن تیمیہ جلد ٢٣ ص ١٣٢ ) ۔ بات میری کتاب تمہارے گھر کی، جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ سعودی اور اہلحدیث اور جماعتیے جو کسی کو امام نہیں مانتے وہ بھی ابن تیمیہ کو اپنا امام مانتے ہیں لہذا مندرجہ بالا حوالہ کی اہمیت کا آپکو اندازہ ہو گیا ہوگا۔ الله دین کی صحیح سمجھ عطا کرے۔ آخر میں دعا ہے کہ یاالله ہم سب کے گناہ معاف فرما سب پر خاص فضل وکرم فرما ہمارے مرحومین کی مغفرت فرما، یا الله تو علیم و خبیر ہے جس جس نے دعا کا کہا تھا سب کی دعائیں قبول فرما آمین۔۔
 
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 172141 views System analyst, writer. .. View More