دیوانے کا گریبان

ایک دھماکے کی آواز سُنائی دیتی ہے،اور ٹیلیفون کے تاروں کا کیبن اُڑ جاتا ہے۔
علاقہ کے تحصیلدار کی گاڑی گاؤں آجاتی ہے ۔
گاؤں کے ملک کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔
ملک صاحب نکلتا ہے ،تو سرکاری پیغام رساں سامنے کھڑا ہے۔
مجھے تحصیلدار صاحب نے بھیجا ہے اور آپ کیلئے ایک پیغام ہے۔
کیا پیغام ہے بھئی!!!
پیغام یہ ہے کہ کل آپ نے اور اس گاؤں کے تمام رؤساء نے تحصیلدار کے دفتر میں جمع ہونا ہے۔وہ آپ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
یہ کہہ کر سرکاری ہرکارہ چلا جاتا ہے اور ملک صاحب گاؤں کے دوسرے رؤساء کو بلا کر تحصیلدار کا پیغام پہنچادے دیتے ہیں۔

کل جب سب رؤساء تحصیلدار کے دفتر میں جمع ہوتے ہیں
تو صاحب ایک تیز نظر ان لوگوں پر ڈال دیتا ہے اور پھر انکو بیٹھنے کا کہا جاتا ہے۔
جب سب بیٹھ جاتے ہیں تو تحصیلدار صاحب بول پڑتے ہیں ۔۔۔
کل آپکے گاؤں کے حدود میں ایک سرکاری ملکیت یعنی ٹیلیفون کے تاروں والے کیبن کو کسی شرپسند نے بم دھماکے سے اُڑا یا ہے۔اور 40 ایف سی آر اور علاقائی قانون کے تحت ان املاک کی حفاظت کی ذمہ داری آپ گاؤں والوں کے ذمے ہے۔

لیکن گاؤں والے چونکہ اس سرکاری ملکیت کی حفاظت سےغفلت کے مرتکب ہوئے ہیں ۔اسلئے آپکے گاؤں پر حکومت کی طرف سے 60 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔اور اس جرمانے کی ادائیگی کی مدت صرف ایک ہفتہ ہے ،ورنہ قانون درشتی کے ساتھ آپ لوگوں کے خلاف حرکت میں آئے گا۔

بیچارے ملک صاحب اور گاؤں کے دوسرے رؤساء سہمے سہمے دفتر سے باہر نکل کر آپس میں چہ میگویاں کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔

عصر کا وقت جب ہوجاتا ہے تو گاؤں کا ملک صاحب اعلان کردیتا ہے کہ حکومت نے ہمیں بُلایا تھا ،اور کل کے کیبن کی حفاظت سے غفلت برتنے پر ہم پر 60 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے ،اور ساتھ ہی ادائیگی کیلئے ایک ہفتے کا ڈیڈ لائن دیا گیا ہے۔

بات گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے،اور ہر محفل اور ہر بیٹھک میں اسی موضوع پر بحث مباحثے شروع ہوجاتے ہیں۔

اسی اثناء میں لوگ کیا دیکھتے ہیں کہ دو لڑکے اور ایک بوڑھی عورت ملک صاحب کے گھر کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔بوڑھی عورت عمر کی اکثر بہاریں گذر جانے پر ایک خزاں کی ماری ہوئی شجر کا منظر پیش کر رہی ہے،اسلئے وہ آہستہ آہستہ لاٹھی ٹیک کر جا رہی ہے۔

یہ لوگ جب ملک صاحب کے ہاں پہنچ جاتے ہیں ۔دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو ملک صاحب اندر سے نکل آتے ہیں۔

ان لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ملک صاحب انکو بھی تحصیلدار کے دفتر کی روؤداد سنائے۔

جب انکی خواہش پوری کردی جاتی ہے تو ایک لڑکابول پڑتا ہے کہ انکل میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے جو کیبن کو تباہ کرنے آئے تھے۔

جی وہ تو ایک مٹی جیسی رنگ کی گاڑی تھی ،اور جو لوگ اس گاڑی سے اترے ،وہ ٹیلیفون کے کیبن تک آئے اور پھر چلے گئے ۔

دوسرا بچہ بولا ہاں انکل اس گاڑی میں سے تین بندے اترے تھے،اور میں نے خود دیکھا تھا۔
بوڑھی عورت بھی بول اٹھتی ہے کہ ملک صاحب میں قریبی کھیت میں کام کر رہی تھی تو یہ گاڑی آئی ،بالکل سرکاری گاڑی جیسی ڈبل کیبن پک اپ،
پھر اسمیں سے بندے اترے اور جب گاڑی چلی گئی تو چند منٹ بعد دھماکہ ہوا۔

ملک صاحب کو پہلے تو حیرت کے جھٹکے لگے ،لیکن پھر مسکرائے اور ان لوگوں کو رخصت کردیا۔

دو دن بعد چپڑاسی کمرے میں جا کر بولتا ہے: صاحب وہ گاؤں کے رؤساء آئے ہیں۔
تحصیلدار صاحب حیرت سے: اچھا اتنی جلدی انہوں نے جرمانہ اکھٹا کرلیا۔چلو انکو اندر بھیجو ۔

گاؤں کے ملک صاحب اور دیگر رؤساء جب اندر چلے جاتے ہیں تو تحصیلدار صاحب بولے
ہاں ملک صاحب فرمائیے
گاؤں کے رؤساء آپس میں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں اور ملک صاحب کو بولنے کیلئے اشارہ کرتے ہیں
ملک صاحب بول اٹھتا ہے کہ جناب (اشاروں کنائیوں میں مجرم کی نشاندہی کی جاتی ہے،اور گول مول انداز اختیار کیا جاتا ہے)
تحصیلدار صاحب کا ماتا پسینے سے شرابور
چلیں ہم نے قوم کی وسیع تر مفاد میں یہ جرمانہ کم کرکے 2 لاکھ کردیا ہے۔ بس اسکے آگے کوئی نہیں سنی جائے گی۔

ملک صاحب بخوشی گاؤں کے فنڈ سے وہ جرمانہ جمع کرادیتے ہیں کہ مبادا پھر 60 لاکھ کی ضد نہ پکڑلے۔

اندر کی بات:
ایک (ضروری )کام کیلئے پیسے کی اشد ضرورت تھی،لیکن صاحب پورا نہیں کر پا رہے تھے۔دوسرے طرف یہ طعنہ بھی کہ شمالی وزیرستان کے تحصیل میرعلی کے ذمہ دار ہو ،اور معموی سی رقم کیلئے اتنی پریشانی!!!
چنانچہ کھیل کھیلا گیا
اب یہ انکی بدقسمتی کہ مناسب پلاننگ نہ ہونے کے سبب سارا کھیل بگڑ گیا۔

دوستوں یہ کھیل پاکستان میں ہر جگہ کھیلا جاتا ہے بلکہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں یہ ٹورنمنٹیں ہو رہی ہیں۔اور اس مشن میں فوج اور سول ادارے دونوں برابر کی شریک ہیں۔یقین نہیں تو اپنے ہی ملک کے ماضی و حال پر ذرا نظر دوڑائیں،سب کچھ سامنے آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ماضی میں پاکستان کیلئے ایٹمی ابدوز بنانے والےفرانسیسی سائنسدانوں کو کراچی میں ایک بم دھماکے میں مار کر اپنا غصہ ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔وجہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب سودے بازی کے بعد کمیشن کی لین دین ہو رہی تھی تو اس دوران نئے منتخب ہونے والے فرانسسی صدر نے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش کی۔جس کو سبق سکھانے کیلئے کراچی میں فرانسسی ٹیکنیشنز کو عالم ارواح میں بھیجنا ضروری ٹھہرا۔ اس واقعے کو کراچی آفیرز بھی کہا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسی تاریخ رکھنے والی قوم نیول بیس پر حملے یا جون 2014 کے کراچی ائرپورٹ حملے میں اس قسم کے واقعات نہیں دھرا سکتی۔جبکہ یہ یقین بھی ہو کہ کوئی پوچھنے والال یا تحقیقات کرنے والا بھی نہیں ہے۔
۔اگر ان حادثات کی شفاف تحقیقات ہوجائیں، تو شائد لرزادینے والے انکشافات سامنے آجائیں۔
صحافتی تنظیموں کی احتجاجی جلوسوں میں یہ بات کثرت سے سنی جاتی ہے کہ سلیم شھزاد کو اسی طرح کے انکشافات کرنے کے جرم میں لاپتہ کرکے قتل کرنے کے بعد پھینک دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شائد آپکو یاد ہو کہ افغانستان پاکستان کے طورخم بارڈر پر اکثر تینوں افواج(پاکستانی،افغانی ،نیٹو) کے معلومات کے مشترکہ تبادلے کیلئے مخصوص ٹیمیں منتخب کی گئی ہیں۔اسی ٹیم میں سے ایک پاکستانی کرنل رات دس بجے پشاور میں اپنے دیرینہ دوست سے ملنے آئے تھے۔دوست نے کرنل صاحب کی میزبانی بھی کی،اسی دوران گپ شپ بھی چلتی رہی۔
باتوں باتوں میں دوست نے کرنل سے پوچھ لیا کہ سر جی کیا فرماتے ہیں آپکے اندرونی ذرائع موجودہ اپریشنوں کے بارے میں۔
اور یہ شمالی وزیرستان حملوں کا کیا ماجرا ہے!


تو کرنل صاحب نے کہا کہ بعض باتیں اتنی بڑی بڑی ہیں کہ وہ ہمارےہاتھ سے نکل چکی ہیں۔
دوست کی طرف سے کہا گیا کہ سرجی کچھ تشریح درکار ہے۔
تو کرنل صاحب نے بتایا کہ پاکستان کو مختلف ٹکروں میں بانٹنے کا مکمل پلان بن چکا ہے۔ یہ ٹکڑا یہاں سے یہاں تک ہوگا اور یہ تقسیم یہاں سے یہاں تک۔
مزید پوچھا گیا کہ سر جی پھر پاکستانی (پُر وقار ) فوج کیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے گی۔
تو جواب ملا کہ فوج دیکھتی رہ جائے گی،لیکن فوج کا اس تقسیم کو روکنے میں کوئی بس نہیں چلے گا۔
وجہ پوچھی گئی تو کرنل صاحب کی طرف سے صاف جواب دیا گیا کہ خرچہ بہت زیادہ ہے ،کہیں اور سے پورا کیا جاتا ہے۔اسلئے فوج کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں۔
حیران نہیں ہونا،اب تو فیس بک پر بھی ملک کی تقسیم کے خواہشات ظاہر کی جارہی ہیں،اور اسمیں جاہل و اعلیٰ تعلیم یافتہ برابر کے شریک ہیں۔

گفتگو مزید بھی چلتی رہی چنانچہ دوران گفتگو یہ انکشاف کیا گیا کہ امریکہ کہتی ہے کہ حقانی نیٹ ورک ہر حال میں زندہ اور ایک حد تک فعال رہنا ضروری ہے۔اور پاکستان پر اس سلسلے میں باقاعدہ دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ
خبردار جو حقانی نیٹ ورک کو جڑ سے ختم کیا ،ورنہ تو افغانستان میں ہمارے قیام کیلئے نیا جواز ڈھونڈنا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مئی 2014 میں میرعلی پر کی جانے والی بمباری کے نتیجے میں گاؤں موسکی کے شریف اللہ کا پورا خاندان صفحہ ہستی سے ختم کیا گیا،جس میں اخباری اطلاعات کے مطابق شریف اللہ کے ایک بھائی بھی قتل ہوئے،جو کہ شائد دیر سکاوٹس (یا اس جیسی کوئی دوسری سکاوٹس) میں صوبیدار میجر تھے۔یہ صوبیدار میجر صاحب چھٹی لے کر چند دن گھر میں گذارنے کیلئے آئے ہوئے تھے کہ بمباری کا نشانہ بن گئے۔
آرمی والے کہتے ہیں کہ اس خاندان کو اسلئے نشانہ بنایا گیا کہ انہوں نے غیر ملکی جنگجوؤں کو پناہ دی تھی۔

سوال یہ ہے کہ جب صوبیدار میجر صاحب ڈیوٹی پر تھے ،تو انکو وہاں کیوں گرفتار نہیں کیا گیا کہ آپ نے کیوں غیر ملکیوں کو پناہ دی ہے۔کیا جیٹ طیاروں سے بم مار کر ہی انصاف کے تقاضے پورے کئے جانے کا آپشن رہ گیا تھا؟

دوسری بات یہ کہ ان ازبک و تاجک جنگجوؤں کو باقاعدہ حقانی نیٹ ورک کی طرف سے ماہانہ تنخواہیں و فنڈ مہیا کیا جاتا ہے۔
کیا پاکستانی حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ حقانی نیت ورک کو پاکستان سے ختم کردے،تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جون 2014 کے ابتدائی دنوں میں شمالی وزیرستان کے ایک قبائیلی جرگہ کے اراکین شیر محمد صاحب کی قیادت میں گورنر خیبر پختون خواہ سردار مہتاب خان عباسی اور موجودہ کور کمانڈر پشاور سے ملاقات کیلئے گورنر ہاؤس تشریف لائے۔
قبائلی جرگہ کی سرپرستی کرنے والے شیرمحمد صاحب فقیر ایپی مرحوم کے نواسے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جرگہ اراکین کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کور کمانڈر کا لہجہ انتہائی جابرانہ اور متکبرانہ تھا۔جس کو محسوس کرتے ہوئے شمالی وزیرستان ایجنسی کے جرگہ اراکین نےکچھ کہے بغیر خاموش احتجاج کے طور پر گورنر کی طرف سے اعزازیے کا بائیکاٹ کیا۔

جرگہ اراکین کو یوں ہال سے نکلتا دیکھ کر حکومت کو کچھ احساس ہواچنانچہ فورا ہال کے دروازے بند کرائے گئے اور جرگہ اراکین کوہال میں محصور کیا گیا،اور بعد میں انکو چائے پینے کیلئے راضی کیا گیا۔

اسی سے قبل اسی طرح کے ایک ملاقات میں جب ایک ملک صاحب نے جرنیل کے کو آئینہ دکھایا تھا ،تو فوجی آفسر کی طرف سے جواب یہ دیا گیا کہ باقی عمائدین کے ساتھ آئے ہو، ورنہ تم یہاں سے ایسے نہ جاتے۔

اسی طرح شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاء میں ایک پروگرام میں جرنیل نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں میرے بندے مر رہے ہیں،اور پشتونوں کی روایت ہے کہ وہ اپنے بندے کا بدلہ ضرور لیتا ہے،اس لئے میں شمالی وزیرستان کے اہلیان سے اپنے بندے کے خون کا حساب ضرور پوچھونگا۔

تو جواب میں مولانا عبدالرحمٰن وزیر نے اٹھ کر کہا
جرنیل صاحب مجھے بڑا افسوس ہے کہ آپ نے فوجی سپاہی کو تو اپنا بندہ کہا ،جبکہ میرے قبائلی کو دشمن کی جگہ پر رکھا۔حالانکہ میں فوجی سپاہی کو بھی اپنا کہتا ہوں اور ایک قبائلی کو بھی اپنا کہتا ہوں۔

مولانا صاحب کے بھتیجے کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد ہمارے چچا کو کسی بھی ایسے مجلس میں نہ تو بُلایا جاتا ہے اور اگر بُلایا بھی جائے تو قطعابولنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔
ساری باتوں کا مقصد یہ کہ اندرونی صورت حال کس حد تک بگڑی ہوئی ہے۔سول وفوجی اداروں کا رویہ کس حد تک تبدیل ہوا ہے یا ہو رہا ہے،عوام کو کتنے اندھیرے میں رکھا جاتا ہے۔
صرف اپنے ذاتی مفاد کیلئے ملک و ملت کے ساتھ کتنی زیادتی ہو رہی ہے۔

بقول پشتون شاعر:
تار تار پروت دے چا راٹول نہ کہ سائلہ
زما خوگ وطن گریوان دہ لیونی دے

(اے سائل تار تار پڑا ہے،کسی نے اسکو برابر نہیں کیا
میرا پیارا وطن دیوانے کا گریبان ہے)
Mansoor Mukarram
About the Author: Mansoor Mukarram Read More Articles by Mansoor Mukarram: 21 Articles with 68108 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.