شہرِ کراچی کے عوام کا پُرسانِ حال کون؟

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب ہے، اس حساب سے یہ پاکستان کا دل کہلاتا ہے، اور یہ بات ہر ذی شعور جانتا ہے کہ دل کی دھڑکنیں رُک جائیں تو کیا ہوتا ہے ،یہ صوبہ سندھ کا صدر مقام بھی ہے جبکہ پرانے وقتوں میں کراچی ہی پاکستان کا دارالخلافہ تھا۔ مگر آ ج کراچی کے عوام کا پُرسانِ حال کوئی نہیں۔ جو یہاں کی نمائندہ جماعت ہے وہ اپنی بساط کے مطابق آوازِ حق بلند کرتی رہتی ہے۔ اور جہاں تک ممکن ہو سکتا ہے شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق کا مقدمہ سرکاری سطح پر لڑتے ہی رہتے ہیں۔ گذشتہ دو ماہ سے شہرِ کراچی برقی اور پانی کی شدید قلت سے دو چار ہے۔ موسمِ گرما نے ویسے ہی کراچی کے عوام کو حال سے بے حال کر رکھا ہے۔ پارہ کی سطح 42ڈگری کو پار کر رہی ہے اور اس قدر شدید موسم میں برقی کٹوتی نے عوام کے اوسان ہی خطا کر دیئے ہیں۔ کراچی میں ایسا لگتا ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ایسے میں عوام مطالبہ کریں تو کس سے؟ رابطہ کمیٹی اور ایم کیو ایم ہی شہری نمائندگی رکھتی ہے اور اُن ہی کی کوششوں سے ابھی تک پانی و بجلی کا بچا کھچا حصہ مل رہا ہے ورنہ تو نہ جانے اس شہر کا کیا حال ہو۔ کہا یہی جاتا ہے کہ کراچی میں برقی قلت کا سامنا واپڈا کی جانب سے مناسب بجلی نہ دینے کی وجہ سے ہے۔ اور دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تقسیم اور ترسیل میں ناکامی کے باعث عوام کو موسمِ گرما میں مزید بد حال ہونا پڑ سکتا ہے۔ آج جو برقی اور پانی کی وجہ سے عوام کا حال ہے اس سے زیادہ اور کیا ہوگا۔ لوگ بجلی کے ستائے ہوئے تو تھے ہی اب پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ حکومت کیا کر رہی ہے ؟ اگر کچھ نہیں کر رہی تو کب کرے گی؟ اصولی طور پر دیکھا جائے تو کراچی کی اس وقت ذمہ داری صوبائی اور مرکزی حکومت کی ہی بنتی ہے کیونکہ وہی لوگ حکومت میں ہیں۔ لیکن وہ بھی اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا رہی ہے۔ ہمارے مرکزی وزیر بجلی ہر روز اجلاس منعقد کرتے ہیں مگر صرف چوری کا رونا رو کر اجلاس برخاست کر دیتے ہیں اور پھر ایک پریس کانفرنس ، باقی اﷲ اﷲ خیر صلّہ۔کراچی الیکٹرک کو مناسب بجلی فراہم کیا جائے تاکہ وہ لازمی اداروں کو بلا تعطل بجلی فراہم کر سکے۔ اگر ان کے معاہدے میں یہ ذکر ہے کہ وہ شہر کے لئے خود بھی بجلی پیدا کریں گے تو انہیں اس پر مائل کیا جائے تاکہ عوام کو ریلیف ملے۔ آج کل گرمی کا یہ حال ہے کہ جیسے سورج سوا نیزے پر آگیا ہے ایسے میں غریب عوام تو بے حال ہی ہونگے۔ حالات و واقعات پر نظر دوڑایا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے برقی تقسیم و ترسیل کا نظام بالکل ٹھپ ہو چکا ہے اور اس کی درستگی اور مرمت کے لئے عملہ بھی وقت پر نہیں آتا۔ کئی کئی دن حواس باختہ کر دینے والی غائب بجلی علاقوں سے غائب رہتی ہے۔کیا ایسے میں مرکزی حکومت کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ جنگی پیمانہ پر اقدامات کے ذریعہ عوام کو راحت پہنچائے جبکہ شریف حکومت نے اقتدار ہی اس وعدے کے ساتھ حاصل کیا کہ اچھے دن ضرور آئیں گے۔ عوام کا یہی سوال ہے کہ کیا اچھے دن یہی ہیں کہ اقتدار حاصل کرتے ہی پورے ملک سمیت میگا سٹی کو اندھیرے میں غرق کر دیا گیا اور عوامی مسئلے کی حل کے بجائے اس پر سیاست کی جائے۔ برقی قلت یوں تو ملک گیر سطح پر ایک بڑا مسئلہ ہے، لیکن اس وقت کراچی کی حالت انتہائی دگرگوں ہے اور شدید گرمی کے عالم میں اہلیانِ کراچی کو برقی کٹوتی کے باعث سخت مصائب کا سامنا ہے۔ ضعیف و معصوم بچوں کا تو گرمی کے مارے بُرا حال ہے اور اس پر پانی کی قلت نے ستم بالائے ستم کے مترادف زندگی کو اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔ مسلسل بجلی کے غائب رہنے سے پانی کی سپلائی میں بھی رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے اور اطلاعات کے مطابق کراچی کے تمام ہی علاقوں میں پانی کا حصول سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے اور عوام کی اس مجبوری کا فائدہ واٹر مافیا اٹھا رہا ہے۔ چودہ سو تا سولہ سو میں ٹینکر مل رہا ہے اور اس پر بھی شفاف پانی ملنے کا کوئی بھروسہ نہیں۔

کراچی کے موجودہ حالات کے لیے ہر پارٹی بیانات ضرور داغتی ہے مگر عملی طور پر کوئی میدانِ عمل میں آکر ان مسائل کو حل نہیں کرتا۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاستدان سوئے ہوئے ہیں اور عوام کی پریشانیوں کو دور کرنے کی مثبت کوشش کسی بھی جانب سے نہیں کی جا رہی ہے۔ صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت کا بس یہی رونا ہے کہ تمام مسائل ورثے میں ملے ہیں اور یہ بیان ہر دور میں سننے کو ملتا ہے۔ بھائی یہ ورثے اور وراثت کا دور کب ختم ہوگا ؟اور عوام کی داد رسی کون کرے گا؟ یہ سوال ہے جسے سوچ کر عوام بھی حواس باختہ ہوئے جاتے ہیں۔ مرکزی قائدین کا کہنا یہی ہوتا ہے کہ ابھی ہمیں اقتدار سنبھالے ہوئے ایک سال ہی تو ہوا ہے اور گنے چنے ہوئے دنوں میں اس گمبھیر مسئلے کو حل کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین کو اپنے بچاؤ کا ایک نیا ہتھیار ’’ جادو کی چھڑی ‘‘ ہاتھ لگ گیا ہے۔ اور پھر صوبائی حکومت بھی یہی راگ الاپ رہی ہے۔ اس جادو کی چھڑی نے تو شہرِ قائد کا بیڑہ غرق کیا ہی ہے۔ اور اگر ایسا ہے تو پھر مسائل میں گھرے ملک کا تو اﷲ ہی حافظ ہوگا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وقتِ واحد میں کراچی میں برقی اور پانی کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے، لیکن وقتی طور پر کچھ ایسے اقدام ضرور کئے جا سکتے ہیں کہ عوام کو کچھ حد تک راحت مل سکے اور بتدریج مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں ایک راستہ تو یہ ہے کہ جب تک ہمارے پلانٹ بن رہے ہیں اُس وقت تک بجلی کسی اور ملک سے خرید کر خسارے کو پورا کیا جائے تاکہ عوام کو مشکلات سے بچا لیا جائے۔ویسے بھی حکمران ترقیاتی اقدامات کے بلند بانگ دعوؤں میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عوامی مسائل کی یکسوئی سے حل کیلئے فوری و عاجلانہ فیصلے کیئے جائیں گے۔ کیا یہ سب صرف حسین دعوے ہی ہیں یا پھر عمل آوری بھی ممکن ہے، مانا کہ حکومت کو ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے بہت زیادہ نہیں تو بہت کم وقت بھی نہیں گزرا ہے اور جن فاسٹ ٹریک کاموں کا وہ دعویٰ کرتے رہے ہیں اس لحاظ سے اقتدار کے ایک سال کم نہیں ہوتے۔ لیکن اس عرصے میں سوائے بیانات ، الزامات اور افتتاحی پروگراموں کے کوئی عملی کارکردگی نظر نہیں آئی۔

ملک کے عوام کو توقع تھا کہ نئی حکومت عوامی مسائل پر پارلیمنٹ میں بحث کرتے ہوئے نئے رواج کو شروع کریں گے۔ انتخابات کے دوران کی گئی تقاریر اور وعدوں اور حکومت کی کارکردگی کے درمیان فرق نظر آ رہا ہے اس لئے عوام برہم ہیں۔ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی بھی اُن تمام وعدوں میں سے ایک ہے جو الیکشن کے زمانے میں کیئے گئے۔ غرض کہ انتخاب کے دوران بے شمار وعدے ہر جماعت کی طرف سے کیئے گئے لیکن جو جماعت مرکزی حکومت میں ہے وہ اپنے وعدوں اور تقریروں کی ویڈیو لگا کر دیکھیں تاکہ انہیں اپنے وعدے یاد آ جائیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا بجلی اور پانی کے علاوہ ایسے بے شمار مسائل کا حل دریافت کیا جائے گا یا نہیں۔اور کیا جائے گا تو کب تک؟ کیونکہ عوام کو اب گرمی اور بجلی نے ستایا ہوا ہے۔ اور اس کے بعد اب پانی بھی ناپید ہو چکا ہے۔موجودہ حکمرانوں کے لیئے اپنے دعوؤں کو ثابت کرنے کا ایک بہترین موقع اس وقت ان کے پاس ہے۔ وہ مؤثر اقدامات کے ذریعہ عوام کو پریشانیوں سے نجات دلا سکتے ہیں اور ان کے دل بھی جیت سکتے ہیں۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 339136 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.