کسی بھی فردیاجماعت کے اصل
نظریات اورمقاصد کیاہیں اسے بہت دنوں تک چھپاکر نہیں رکھا جا سکتا ۔ بی جے
پی اور اس کے قائدین کا کچھ یہی حال ہے۔ پارٹی کی پالیسی پر آر ایس ایس کے
اثرات اور قائدین کے ذریعہ سنگھ پریوار کیلئے ذہن سازی کسی نہ کسی دن تو بے
نقاب ہونی ہی تھی لیکن اقتدار ملتے ہی چند دنوں کے اندرہی یہ ذہنیت آشکار
ہوجائے گی، کسی کواس کا اندازہ نہیں تھا۔ دراصل گزشتہ 10 برسوں کی محرومی
کے بعد اقتدار کے حصول نے بی جے پی قائدین کو بے قابو کردیا ہے۔ ترقی اور
بہتر حکمرانی کے نعرے کے ساتھ انتخابی مہم چلانے والی بی جے پی اور اس کے
قائدین حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی اپنی اوقات پر اتر آئے ہیں۔ بی جے پی کا
خفیہ ایجنڈہ اور حساس موضوعات پر دوہرا معیار ان رائے دہندوں کیلئے باعث
حیرت ہے جنہوں نے ترقی کے نعرے پر بھروسہ کرتے ہوئے 30 برس بعد بی جے پی کو
اقتدار کیلئے درکار اکثریت سے نوازاہے۔یہاں ہم یہ واضح کردینامناسب سمجھتے
ہیں کہ برسراقتداربی جے پی کے خلاف گلے شکوے کرنے مقصودنہیں ہیں۔اس کی وجہ
یہ ہے کہ 1952سے ہی جن سنگھ کے نام سے وجودمیں آنے والی اس پارٹی نے ہمیشہ
اپنے نظریات اور ایجنڈے کوواضح رکھاہے،جس سے مسلمان ہی نہیں خودہندومذہب سے
وابستہ کئی پسماندہ براد ر یو ں کو شدیداختلاف رہاہے۔اس کی بنیادی وجہ
بھارتیہ جن سنگھ کے پارٹی منشورمیں برہمنزم کاغلبہ تھا،یہ ایک الگ المیہ ہے
کہ بعدکے دورمیں انہیں پسماندہ برادریوں نے اس جماعت کوطاقت فراہم کرنے میں
سب سے زیادہ کرداراداکیاہے۔قارئین شایدبی جے پی کی تاریخ سے ناواقف نہ ہوں
کہ اس جما عت کی داغ بیل ماہ اکتوبر1951میں سرگرم آرایس ایس
رہنماشیاماپرشادمکھرجی نے بھارتیہ جن سنگھ کے نام سے ڈالی تھی،جس نے 1952کے
عام انتخابات میں کانگریس کے خلاف ایک قومی سیاسی جماعت کی حیثیت سرگرم حصہ
لیاتھا۔مگرجس تنظیم یاجماعت کے مقاصدہی قوم وطن کومختلف خانوں اورطبقوں میں
بانٹ کراقتدارحاصل کرناہوں وہ کبھی بھی کامیابی سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتی۔
ویسے بھی ہندوستانی سماج کی رگ رگ میں سیکولرزم اورمل جل کرزندگی گذارنے
کامزاج اتنا رچا بسا رہا ہے کہ دنیاکی کوئی بھی طاقت اسے ذات پات ،مذہب
اوررنگ ونسل کے نام پرتقسیم کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔حالاں کہ ملک
کی تاریخ بتاتی ہے کہ انگریزبہادروں نے بھی اسی طرزپرملک کے باشندوں کوبانٹ
کراقتدارکی گدی پربراجمان رہنے کی سازش رچی تھی۔ مگردنیاجانتی ہے کہ
برطانیہ جیسی شاطرطاقت بھی اس راہ سے ملک کا اقتداراپنے پاس بہت دنوں تک
رکھنے میں کامیاب نہیں رہ سکی ۔پھراسی کے چیلے چپاٹے اورکاسہ لیس لوگ کسی
مخصوص نظریہ کی بنیادپراقتدارکیسے پاسکتے تھے۔ جب انہیں یقین ہوگیاکہ ہماری
اصلیت ملک کے سامنے آچکی ہے اورجمہوریت کوسرجھکا کرسلام کرنے والی ہندوستان
کی جمہوریت پسند قوم کسی مخصوص نظریہ کواقتداربخشنے والی نہیں ہے توپھر1977
آتے آتے چولابدل لیاگیااورجنتاپارٹی کامکھوٹاپہن کراس کے سربراہوں
کوچنددنوں کیلئے دلی پر راج کرنے کاموقع ضرورمل گیا۔مگرایک بارپھرسچ منہ
پھاڑکرسامنے آگیااورجنتاپارٹی کے آگے بھارتیہ کاپھندنا لگاکر 1980 میں
بھارتیہ جنتاپارٹی کے نام سے ملک کے سیکولرزم کوچیلنج دینے کی کوشش کی گئی۔
مگروقت نے بتادیاکہ ہندوستانی سماج میں سیکولرزم کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ
ساری دنیاکی فسطائی طاقتیں جمع ہوکربھی اس کابال بیکانہیں کرسکتیں۔ لہذاان
تمام وطن پرست دوستوں کویہ جان لیناچاہئے کہ اگرحالیہ عام الیکشن2014 میں
ملک کی مٹھی بھرفرقہ پرست قوتوں کوکامیابی ملی ہے تواس کی وجہ یہ نہیں ہے
کہ یہاں سیکولرزم نے اپنا اعتبار کھودیاہے یااس کی بقااورسلامتی میں
ہندوستان کے عوام کی کوئی دل چسپی نہیں رہی ،بلکہ اس بار اگر فسطائی طاقتوں
نے سیکولرزم کومات دی ہے تواس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سنگھی پالیسی سازوں نے
اپنی سابقہ پسپائی اورناکامیوں سے سبق حاصل کیا،انہوں نے یقین کرلیاکہ وطن
عزیزمیں ذات، برادری، مذہب اوررنگ ونسل کی بنیاد پر کا میابی کاتصورنہیں
کیا جا سکتا ۔اس سبق کوگرہ میں باندھ کرایک ایسا ایجنڈہ مرتب کیاگیاجس میں
نظر یا تی ،طبقاتی یاعلاقائی تفریق کاکوئی پہلوسامنے نہ آسکے اورآسانی کے
ساتھ 80فیصدسیکولرہندوستان کوفریب دیاجاسکے۔
اس پالیسی کے تحت ماضی کے انتخابی نعروں،سلوگنوں اورجذباتی تقریروں سے
گریزکرنے کا منصوبہ بنایاگیا۔مہنگائی کے عذاب میں مبتلاملک کے 90فیصدلوگوں
کی تھالی میں بغیرمحنت کئے بھوجن پروسنے کی خوش خبری سنائی گئی۔کرپشن سے
تباہ ملک بھرکے غریبوں،مزدوروں اورانتہائی خستہ حال ہندوستانیوں کوایک صاف
شفاف نظام حکومت فراہم کرنے کاوعدہ کیاگیا۔سوئس بنک سمیت دیگر مما لک کے
بنکوں میں جمع کالی دولت واپس لاکرہرشہری اوردیہی باشندے کوسرچھپانے کیلئے
آشیانہ اوربیت الخلادستیاب کرانے کاپرچارکیاگیا۔
یہی وہ منصوبہ بندحکمت عملی تھی جس نے ملک کی سیکولرفورس کوووٹ ڈالنے سے
قبل کنفیوژن کی کیفیت میں ڈال دیا۔نتیجہ یہ ہواکہ الیکشن کے آخری دن تک
سیکولررائے دہنگان ٹوٹ پھوٹ اور بکھراؤ کا شکا ر ہوگئے اگرچہ اس بکھراؤمیں
نام نہادسیکولرلیڈروں،لوہیاکے شاگردوں اور جے پرکاش نارائن کے چیلوں چپاٹوں
نے بھی آپسی اناپسندی اوربرتری قائم رکھنے کیلئے کوئی کم رول ادا نہیں کیا
ہے۔اس طرح بی جے پی نے محض31فیصدووٹ پاکررائے سیناہل پرحکمرانی کرنے کی
آروزوپوری کرلی۔نتیجہ کار جب16مئی کونتائج سامنے آئے تووہ فرقہ پرست طاقتوں
کے خوابوں کوتعبیردینے کی مسرت سنارہے تھے۔اس طرح26مئی کوگجرات کے سابق
وزیراعلی نریندرمودی دنیابھرمیں فسطا ئیت کیلئے مشہورہونے کے باوجوددلی کے
راج سنگھاسن پرقابض ہوگئے۔قارئین میں کہنایہ چاہ رہاہوں کہ ملک
تمام125کروڑشہریوں کواپنانظریہ تھوپنے اوراقتدارپرقبضہ کرنے کی تگ ودو میں
لگے فسطائی عناصرنے اس بار اگر اقتدار حاصل کیاہے تواس کیلئے انہوں اپنے
نظریات ،پالیسی اورمنصوبوں کی بلی دی ہے ۔سیکولر ہندو ستا نیوں
کویادرہناچاہئے کہ اس کے بعد بھی ملک کے69فیصد سیکولر نو ا ز وں نے ان
پریقین نہیں کیا ،بلکہ حالات کے الٹ پھیرنے انہیں ٹکڑوں تقسیم ہونے پرمجبور
کردیا۔ گو مگو کی کیفیت نے انہیں ذہنی طورسے مفلوج بناکررکھ دیا۔اس بے
قراری سے نجات دلانے کیلئے سیکولرجماعتوں نے بھی غفلت کی چادراوڑھ لی ،کسی
نے بھی ان کی بیتابی کی خبرلینے کی زحمت نہیں کی۔
لہذاہمارے عظیم جمہوری ملک کے سیکولرباشندوں کومایوسی ،اضطراب اوربے چینی
کی کیفیت سے باہر نکلنا ہوگا۔بی جی جے پی کی طرح اپنی سابقہ غلطیوں
کااحتساب کرناہوگا۔بندکمروں سے باہرنکل کر ہمار ے دانشوروں کوعملی
طورپرعوام کی بے چینی کاحل تلاش کرنے کیلئے متحدہ لائحہ عمل مرتب
کرناہوگا۔حالیہ انتخابات کے نتائج نے سب سے زیادہ نقصان ملک کی اقلیتوں
کوپہنچایاہے۔اب فرقہ پرستوں نے فتح کے غرور میں بدمست ہوکریہ واضح کردیاہے
کہ ان کاآگے کامنصوبہ کیاہے۔آپ ممبئی کی مسجدوں میں اذانو ں کے خلاف اٹھائی
جانے آوازوں پرمرکزکی مجرمانہ خاموشی سے بآسانی اس کااندازہ لگاسکتے
ہیں۔پونے میں ایک دین دارمسلم انجینئرمحسن صادق شیخ کی شہادت کوبھی اسی
تناظرمیں آپ کو دیکھنا چا ہئے۔علاوہ ازیں اترپردیش کے متعدداضلاع میں ہونے
والی فرقہ وارانہ کارراوائیوں کوبھی تجربہ کے طورپرسمجھناہوگا۔
اس وقت بھگواخیمے میں جنگی پیمانے پریہ حکمت عملی تیارکی جارہی ہے کہ اب
ملک عزیزکے صاحبان جبہ ودستارکوبھی اپنی شاکھاؤں میں بٹھایاجائے،بلکہ خود
ضمیرفروش ملی دکانداروں کے ایک بڑے ٹولے نے مودی سے قربت بڑھانے اورشاکھاؤں
میں اپنی جگہ محفوظ کرانے کیلئے درپردہ کوششیں تیزکردی ہیں۔گزشتہ 8جون
اتوارکی شام معروف نیوزچینل’’انڈیاٹی وی‘‘پر’کیاملک کے مسلمان مودی پر بھرو
سہ کریں گے‘ کے موضوع پرمباحثہ میں شامل علماء اوردانشوروں کی زبان سے
جوباتیں نکل رہی تھیں اس سے تویہی اندازہ ہوتاہے کہ اب مسلمانوں
کواپناسیاسی مستقبل خودطے کرناہوگا۔اگرانہوں نے دوبارہ غلطی کی اورغفلت میں
پڑے رہے توآنے والی نسلیں انہیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ہمارے لئے پریشانی
یہ ہے کہ ان ملی ٹھیکیداروں کے خلاف لب کھولنے کوبھی جرم سمجھاجاتاہے۔جبکہ
انہیں صاحبان جبہ ودستارکے ذریعہ مسلمانوں کی ٹوپی اچھالنے والے مودی جی کی
قصیدہ خوانی کی جارہی ہے اورمودی جی کے قدموں میں اپنی ٹوپیاں ڈال دینے میں
بھی ذرہ برابرشرم محسوس نہیں کی جارہی ہے۔اب یہ ملک کے عام مسلمانوں کی ذمہ
داری ہے اپنے سیاسی مستقبل پرازسرنو غورکریں اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یہ
’’ اپنے ہاتھوں اپنا خون کرنے‘‘ جیسی کارکردگی ہوگی۔دراصل انہیں مولوی
نماملی بیوپاریوں نے کل کانگریس میں اپنی مضبوط گرفت بنارکھی تھی،مگراس کے
زوال کے ساتھ ہی انہوں نے اپناراستہ الگ کرلیاہے۔ یو ں کہنا زیادہ مناسب
ہوگاکہ انہوں نے’چڑھتے سورج کوسلام کرنے کاپلان بنالیاہے۔ آزادی کے بعدسے
کانگریس پارٹی اقلیتوں کی بہبودکے نام پر خصوصاًانہیں مولویوں کی جیبیں گرم
کیں اور انہیں زمین سے اٹھاکرآسمان پر پہنچادیا۔مگرملک کے عام مسلمانوں کو
تباہی ،بے وقعتی،اقتصادی بدحالی، تنگدستی کے علاوہ تعلیمی پسماندگی کے جہنم
میں دھکیل دیاگیا،جب کہ کانگریس نے انہیں مٹھی بھرمولویوں کو نوازاان کیلئے
ذاتی ترقی کے تمام دروازے کھول دئے ،جس کااحساس انتخابی مہم کے دوران عام
مسلمانوں کودوسری جماعتوں نے کرادیا۔اس کے بعددنیاپریہ رازکھل گیاکہ اب
ہندوستان کے عام مسلمانوں نے ان بیوپاری مولویوں کودھتکاردیاہے۔آج
اگرمسلمانوں کایہی طبقہ بی جے پی میں گھس پیٹھ بنانے کے جتن کررہاہے تواس
کی وجہ عام مسلمانوں کی فلاح وبہبودترقی اورخوشحالی کی نیک فکرنہیں ہے
،بلکہ اس کے پیچھے ان کی ذاتی فائدے حاصل کرنے والی سوچ کام کررہی ہے اوراس
کیلئے یہ گروہ مذہب اورمسلمانوں کاکسی بھی آستانے پرسوداکرسکتا ہے چاہے وہ
آرایس ایس ہویاکوئی یہودی مشنری ہی کیوں نہ ہو۔آج کے بدلے ہوئے ہندوستان
میں ان بکاؤرہنماؤں کے خلاف احتجاج کرنے اوران کابائیکاٹ کرنے کی سخت ضرورت
ہے۔
(مضمون نگاروشوشانتی پریشدکے چیئرمین ہیں) |