پتا نہیں میاں صاحب کو کیا ہوگیا
ہے؟ قوم نے بڑی امیدوں سے ان کی جھولی کو ووٹوں سے بھرا تھا، مگر ان کا
معاملہ اس بکری کی طرح ہوگیا ہے جو کسی شخص کے ہاتھ لگ گئی تھی، وہ اسے ذبح
کرنے کے لیے چھری کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھر رہا تھا، اسی اثنامیں بکری
نے زمین پر زور سے کھر مارا تو مٹی میں دبی ہوئی چھری نکل آئی۔ میاں صاحب
بھی خود کھر مارمارکر اپنے لیے چھریاں نکال رہے ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر
اداروں سے لڑائی مول لی ہے، عوامی مسائل بھی اس تیزی سے حل نہیں ہورہے جس
کے وہ دعوے دار تھے، سیاسی فضا بھی ان کے خلاف ہوتی جارہی ہے۔ حکومت، حکومت
کا شور تو بہت مچا ہوا ہے مگر عملاً کہیں بھی حکومت نظر نہیں آرہی۔ ہوسکتا
ہے میری نظر کمزور ہو لیکن کئی جاننے والوں سے بھی حکومت کے بارے میں پوچھا،
سب نے ناں میں گردن ہلادی۔ اگر آپ کو کہیں حکومت نامی کوئی شے نظر آرہی ہے
تو برائے مہربانی ضرور اطلاع دیجیے گا تاکہ دوست احباب اس کی زیارت کرسکیں۔
میاں صاحب کی فوج، عدلیہ اور دیگر اداروں سے لڑائیاں مشہور ہیں۔ اس چکر میں
وہ حکومتیں گنوانے، جیل یاترا اور ملک بدری کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ لوگوں کا
خیال تھاکہ میاں صاحبان نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ یہ خیال سو فیصد غلط
نکلا۔ میاں صاحب کا انداز حکومت آج بھی وہی ہے جو برسوں پہلے ہوا کرتا تھا۔
اس وقت حکومت اور فوج کے تعلقات انتہائی نازک مرحلے سے گزررہے ہیں، جس کی
وجہ سے ملک افواہوں کی زد میں ہے۔ مشرف کا معاملہ اس کھچاؤ کا نقطۂ آغاز
تھا، لیکن جیو ٹی وی پر فوج کے خلاف مہم کے بعد حکومت کا سیکورٹی ادارے کی
بجائے ٹی وی چینل کے ساتھ کھڑے ہونے کے فیصلے نے آگ پر مزید تیل چھڑکنے کا
کام کیا۔ کہتے ہیں ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اس
لڑائی پر پانی ڈالتی، فریقین کو قریب لاتی مگر وہ تو خود فریق بن گئی۔ یہ
بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت کسی چینل پر پابندی لگاکر اپنا امیج خراب
نہیں کرسکتی، مگر اس کا یہ مقصد تو نہیں کہ وہ کسی ایک فریق کی پشت پر ہاتھ
رکھ دے۔ شاید حکومت کا خیال تھا کہ میڈیا اور فوج آپس میں لڑتے رہیں گے اور
وہ تماشا دیکھتی رہے گی، دونوں اداروں کی کمزوری سے فائدہ حکومت کو ہی ہوگا
مگر معاملہ الٹ ہوگیا، حکومت تماشائی نہیں بلکہ اس تماشے کا بندر بن چکی ہے۔
میاں صاحب کی پوری انتخابی مہم امن وامان، لوڈشیڈنگ اور خودکفالت کے نعروں
کے گرد گھومتی تھی۔ ان تینوں محاذوں پر بھی حکومت کی کارکردگی انتہائی
مایوس کن ہے۔ امن وامان کے معاملے کو دیکھ لیں، قوم طالبان ایشو کو مذاکرات
کے ذریعے حل کرنے کی حامی ہے، اس بنیاد پر میاں صاحب کو ووٹ دیے تھے۔
نوازشریف نے حکومت سنبھالتے ہی اس جانب مثبت پیش رفت کی، مذاکراتی کمیٹیاں
بنیں، ملاقاتیں ہوئیں اور پھر جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔ چند ایک مشکوک
واقعات کو چھوڑکر حکومت، عوام اور فورسز نے جنگ بندی کو بھرپور انجوائے کیا۔
امن سے سب سے زیادہ فائدہ حکومت کو ہوا، کیونکہ کوئی بھی حکومت بم دھماکوں
کی گونج میں ترقی اور خوشحالی کا سوچ نہیں سکتی۔ اچانک غیراعلانیہ طور پر
مذاکرات کی میز کو الٹ دیا گیا، جس کے بعد سے پھر وہی مارا ماری شروع ہوگئی
ہے۔ کراچی حملہ جیسے واقعے کے بعد قوم شدید خوف وہراس میں مبتلا ہے، بظاہر
ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو اب عوام کی کوئی پروا نہیں رہی، وہ کسی کو خوش
کرنے کے لیے سابقہ حکومتوں کی طرح معاملے کو بمباری کے ذریعے حل کرنے کا
فیصلہ کرچکی ہے۔ حکمرانوں کے بچے اور کاروبار تو باہر ہیں، بمباری اور بم
دھماکوں کے نتائج تو ہمیں ہی بھگتنے پڑیں گے۔
آپ کو یاد ہوگا، ن لیگ نے لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر پیپلزپارٹی کو ناکوں چنے
چبوادیے تھے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے
مینار پاکستان پر بطور احتجاج کیمپ لگالیا تھا۔ لیگی کارکنان صوبائی حکومت
کے تعاون سے روزانہ جلوس نکالتے تھے۔ بلاشبہ لوڈشیڈنگ بڑا عوامی ایشو تھا
جسے ن لیگ نے بڑی مہارت سے کیش کرایا، اپنی انتخابی مہم کے دوران ن لیگ نے
سارا فوکس لوڈشیڈنگ کے خاتمے پر رکھا، آپ کو شہبازشریف کی وہ جوشیلی تقاریر
تو ضرور یاد ہوں گی جن میں وہ لوڈشیڈنگ ختم نہ کرنے پر نام بدلنے کی باتیں
کیا کرتے تھے۔ بہرحال عوام کو امید تھی میاں صاحبان ضرور اندھیروں سے نجات
دلائیں گے، مگر یہ کیا ہوا؟ لوڈشیڈنگ تو آج بھی زرداری دور کی طرح عذاب بنی
ہوئی ہے۔ سارے دعوے ہوا ہوگئے، لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گھروں میں سکون ہے اور
نہ بازاروں میں کاروبار ہے۔
حکومت کہتی ہے کہ وہ توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے دن رات محنت کررہی
ہے، ڈیم بن رہے ہیں، پاور پلانٹ لگائے جارہے ہیں، بس ہزاروں میگاواٹ بجلی
آنے ہی والی ہے۔ اسی طرح کی باتیں پی پی حکومت بھی کیا کرتی تھی۔ پتا نہیں
انہوں نے بھی کتنے منصوبوں کے سنگ بنیاد رکھے مگر لوڈشیڈنگ میں ایک منٹ کی
بھی کمی نہیں آئی۔ ایک بات اور ہے، حکومت نے جو نئی بجلی پالیسی بنائی ہے
جس کے تحت بجلی صرف ان کو ملے گی جو بل دیتے ہیں، جن علاقوں میں بجلی چوری
زیادہ ہے، وہاں لوڈشیڈنگ بھی زیادہ ہوگی۔دیکھنے میں یہ بہت خوبصورت بات ہے،
ہونا بھی ایسا ہی چاہیے مگر پالیسی ساز ایک چیز بھول گئے، ہمارے علاقے میں
10 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، واپڈا حکام کا کہنا ہے کہ تمہارے علاقے میں
بجلی چوری زیادہ ہے، اس لیے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی زیادہ ہے۔واقعی ہمارے
علاقے میں بجلی چوری ہوتی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ بجلی چوری نہیں
کرتے، انہیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے؟ کیا بجلی چوری روکنا ان کی ذمہ
داری ہے؟ کیا وہ ہاتھوں میں لٹھ لے کر محلے میں نکل پڑیں اور جو بجلی چور
نظر آئے اس کی ٹھکائی لگادیں؟
خودکفالت کے معاملے پر بھی نظر ڈالتے جائیں۔ نوازشریف صاحب انتخابی جلسوں
میں یہ شعر ’’اے طائر لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی، جس رزق سے آتی ہو پرواز
میں کوتاہی‘‘ خود بھی پڑھتے اور عوام سے بھی پڑھوایا کرتے تھے۔ آج حال یہ
ہے کہ حکومت ایک سال میں 30 ارب ڈالر کا قرضہ لے چکی ہے یعنی ماہانہ اڑھائی
ارب ڈالر قرضہ لیا جارہا ہے۔ یہ قرضے اور ان پر چڑھا ہوا سود اتارتے اتارتے
ہماری نسلیں گزر جائیں گی۔ میاں صاحبان کشکول توڑنے کے نعرے لگایا کرتے
تھے، واقعتا ان بھائیوں نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا، انہوں نے کشکول توڑ کر
دیگ اٹھالی ہے!! |