کراچی ایئرپورٹ حملہ
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
8جون کو رات گئے کراچی ایئر پورٹ
پر دہشت گردانہ حملہ ہوا، اس میں 30کے قریب قیمتی جانیں جام شہادت نوش
کرگئیں ، حملہ آور بھی سب ہی مارے گئے ،املاک کا بے انتہانقصان بھی ہوا،
نیشنل وانٹر نیشنل فلائٹوں کے مسافر ین اور ان کے متعلقین کو بہت بڑی کر
بناک صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا ،ایئرپورٹ میں انتظامی ،حفاظتی اور دیگر
شعبوں سے منسلک افراد پر بھی ایک قیامت گزری ، شہرکراچی اور ملک بھر کے
عوام وخواص سب ہی میڈیا پر اسکے دل خراش مناظر دیکھ دیکھ کرخون کے آنسو
رورہے تھے ، عالمی سطح پر امت مسلمہ اور پاکستان کے دوست ممالک کے لوگ بھی
غمزدہ تھے ،لیکن سیکورٹی فورسز کے تمام شعبوں کے جوانوں نے بڑی پُھر تی سے
دیوانہ وار مقابلہ کرکے جس بہت بڑے نقصان سے ملک وملت کو بچایا، اس پر
انہیں داد ِتحسین اور سلامِ عقیدت ہر محب وطن شہری پیش کرتاہے ۔
البتہ شام کے وقت جب دوبارہ سے وہی ایئرپورٹ پھر سے مختلف ٹی وی چینلزکا
موضوع ِسخن بنا، اور پتہ چلا کہ وہاں کسی کولڈسٹوریج میں آگ اور بارود کے
شعلوں میں محصور تقریباآٹھ اشخاص اب بھی موت وحیات کے کشمکش میں ہیں، اور
مددکے لئے پکار رہے ہیں ،اس موقع پر جس بے حسی ،سستی ، مجرمانہ غفلت
اورشرمناک لا اُبالی پن کا مظاہرہ فائربریگیڈوالوں ،ایئرپورٹ انتظامیہ ،
سوی ایوی ایشن ،ریسکیو، سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے ذمہ داروں کی طرف سے
سامنے آیا ،اس پر جتنا بھی افسوس کیاجائے ،وہ بھی کم ہے،کیونکہ اندر محصور
لوگوں کی مائیں ، بہنیں ،بھائی اورعزیزو اقارب باہر جس بے کسی ،ناپرسان
حالی ، بے چارگی اور غم اضطراب کے شکا ر تھے ان مناظر کو دیکھنا، اوران کی
دُہائیاں اور ان کی گریہ وزاری سنناہی ہم جیسے کمزور دل والوں کے لئے
ناقابل برداشت تھا ۔ وہ تواﷲ بھلاکرے میڈیا کے نوجوان رپورٹروں اور کچھ
اینکر پرسنوں کا ،کہ وہ وہاں خم ٹھونک کر کھڑے رہے ، اور لمحہ بہ لمحہ صورتِ
حال سے آگاہی دیتے رہے ، ٹی وی چینلز نے بھی عام تجارتی مقاصد سے ہٹ کر
اشتہارات کوچھوڑکر مسلسل کوریج کا اہتمام کیا، جس پر مختلف سیاسی جماعتوں
کے رہنما، حکومتی اہل کار ،فائربریگیڈ کے منتظمین وکارکنان،گورنر سندھ ،وزیر
اعلی سندھ ،وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اس فلیش پوئنٹ کا فوری فوری نوٹس لیا،
اس کے بعد پھر کام تو ہوا، لیکن دیر کی وجہ سے جو اصل کام تھا، وہ نہیں
ہوسکا،یعنی ان محصورین کی بحفاظت خلاصی ،بلکہ ان کی سوختہ لاشیں ہی ملیں۔
اب کس کس بات پر رویا جائے ، دہشت گردوں کے حملوں پر ، یاہماری نااہلی کی
وجہ سے ان دہشت گردوں کی وہاں تک رسائی پر ۔اندر کے محصورین کی چیخ وپکار
پر،یاانہیں بحفاظت نہ نکال سکنے پر ۔ حکومت کی نالائقی پر ،یا اداروں میں
باہمی عدم تعاون پر ۔آئے روز اس قسم کی تباہ کن کا رروائیوں پر ، یا پھر ان
کارروائیوں کے علل واسباب پر۔
کراچی عالم اسلام کا سب سے بڑاشہرہے ،اس کا ایئرپورٹ پاکستان کا سب سے
مصروف ہوائی اڈہ ہے ،پاکستان ایک نیوکلیئر ملک ہے۔ اس کے باوجود یہاں عدم
تحفظ کا یہ حال ، خدانخواستہ اگر یہ حملہ آور کراچی ایئر پورٹ میں موجود
امریکن اسلحہ ڈپوتک پہنچتے،اور اوجھڑی کیمپ کی طرح یہ خوفناک میزائیل ،بم
اور بارود پھٹنے لگتے، تو آج اس شہر کی کیا کیفیت ہوتی ، کتنا بڑا جانی
ومالی نقصان ہوتا، دنیا بالخصوص افغان وہند کے سامنے ہماری دفاعی صلاحیتوں
کاکیا امیج ہوتا۔ آج کے زمانے میں جنگ سے زیادہ جنگ زدہ علاقے میں ریسکیو
انتظامات کی اہمیت بہت ہے ،اس حوالے سے ہمارا کیا کردار سامنے آتا، اور پھر
مغربی دنیا وطاغوتی قوتیں ہماری ایٹمی صلاحیت کے پیچھے ہاتھ دھوکر لگ جاتے
،تو ہم اپنا سا منہ لیکر کھڑے ہی رہتے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اگلے دن 9جون کو دنیا کی’’ عظیم ترکرکٹ ٹیموں‘‘ ،نواز
الیون اور حمزہ الیون کے مابین وہ تاریخ ساز میچ تھا ، جو ان حالات میں
ملتوی نہیں کیا جاسکتاتھا، چنانچہ ہمارے باہمت اور حوصلہ مند وزیر اعظم اور
پرنس حمزہ شہباز نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے شیڈول کے مطابق کرکٹ میچ کو مقررہ
تاریخ اور وقت میں منعقد کیا، خود بھی کھیلے ، کھلاڑیوں کوبھی کھلایا، اور
بالآخر نواز الیون ’’ورلڈ کپ‘‘ جیتنے میں کامیاب ہوگئی ۔ایک طرف ملک وقوم
کے ساتھ حکمرانی کی چوٹیوں پر فائز حضرات کا یہ مذاق دیکھیں ،دوسری طرف
وزیر اعلی سندھ کی مغرب تک ریسکیو کے حوالے سے نااہلی ملاحظہ ہو، کہ وہ
فرمارہے تھے کہ ہمیں تو کولڈ سٹوریج میں پھنسے لوگوں کا پتہ ہی نہیں تھا،
اب جاکر پتہ چلا ، فرمانے لگے ،کہ ہم یہاں اب جو آئے ہیں ’’مدد کرنے آئے
ہیں کوئی مذاق کرنے تو نہیں آئے‘‘ ، حالانکہ ان کی تاخیر اور مذکورہ باتیں
تومذاق ہی کے زمرے میں آتی ہیں ،قول وفعل میں تضاد کے اس عالم پر کیا کہا
جائے ۔
مزید برآں 10 جون کواسی ایئر پورٹ پر دوبارہ حملہ ہوتاہے ،اور دہشت گردوں
کی طرف سے یہ اعلانات بھی سامنے ہیں کہ یہ ابتداء ہے ،ایسے میں اگر سیکورٹی
فورسز کی بروقت کاروائی نہ ہوتی ، تو ایک دوسری قیامت کا کیسا نیاعالم
ہوتا۔
نیز پچھلے چھ سات ماہ سے ایئر پورٹ سیکورٹی چیف کو برخاست کیاگیا،دوسرا
لگایا گیا ،پسند نہ آیا تو صرف تین دن میں اسے بھی سبکدوش کیاگیا، اس کے
بعد یہ خانہ تاحال خالی ہے ، جبکہ انٹیلی جینس اداروں نے بہت پہلے خبر دار
کیا ہواہے ،کہ حساس مقامات اور تنصیبات پر حملوں کے خدشات ہیں ،کیااس
لاپرواہی پرسپریم کورٹ کا سوموٹوایکشن لیناضروری معلوم نہیں ہوتا۔ـ
حقیقت یہ ہے کہ ملک میں لیڈرشپ اور قیادت کا بحران ہے ،ملک کا کوئی نظر
یاتی اساس نہیں ہے ، کوئی وژن نہیں ہے ، ملک برائے ملک،ادارہ برائے ادارہ
،یافرد برائے فرد ، تو کوئی معنی نہیں رکھتا،ان سب کے پشت پر روح کے طورپر
اس کی نظریاتی اساس ہوتی ہے،جواندر کے حوصلوں اور عزموں کو جلابخشتی ہے
،مجھے تعجب ہے کہ ہمارا دشمن لوگوں کو ترغیب دے کر خودکش بمبار بناسکتے ہیں
،اور زہر پلاسکتے ہیں،جس میں ان کے اجسام ورابدان کے پرخچے اڑجاتے ہیں اور
وہ یکدم اس دنیا سے راہیٔ ملک عدم ہوجاتے ہیں ،توپھر ہماری لیڈرشپ ، وزراء
، ایجنسیز اور مقتدر ادارے ایسی حکمت عملی اور پالیسی کیوں نہیں بناسکتے
،کہ جس سے وہ ترغیب وترھیب سے لوگوں کو ہلاکت کے راستوں سے بچائیں ،انہیں
روح افزا پلاسکیں، امن وسلامتی کی راہوں پر گامزن کرسکیں ، آخر وجہ کیا ہے
،یاوہ خودکش بمبار بنانے والے ہم سے زیادہ پڑھے لکھے اور تجربہ کارہیں ۔
انفرادی واجتماعی اور ادارہ جاتی طورپر سب کو سوچنے کی ضرورت ہے ۔ |
|