داعش

الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام کو مُخفَّف بناکر ’’داعش ‘‘ بولاجاتاہے ، یہ القاعدہ اور حزب التحریر دونوں کی فکر ِجہاد وسیاست کی حامل تنظیم ہے ، اس کے حالیہ امیر یا امیر المؤمنین ابوبکر البغدادی ہے ، داعش 2004میں ابو مصعب الزرقاوی کی قائم کردہ تنظیم ’’جماعۃ التوحید والجہاد ‘‘ کا تسلسل ہے ، زرقاوی نے اپنی جماعت کی شوری سے گفت و شنیدکے بعد القاعدہ کے امیر شیخ اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ، اور اپنی پوری جماعت کا ایک شاخ کے طورپر القاعدہ سے الحاق کردیاتھا،زرقاوی نے اس دوران عراق میں برٹش اینڈامریکن فورسز کو ناکوں چنے چبھوادیئے تھے ، وہ آسمانی بجلی کی کڑک ’’صاعقہ ‘‘ کی طرح نمودار ہوتا، حملہ کرتا اور غائب ہوجاتا، اپنی جرأت ،شجاعت اور گوریلاجنگ کی نہایت کامیاب تکنیک پر وہ عراقی اور باہر سے آئے ہوئے حملہ آور فورسز کیلئے تاحیات دردِ سر بنے ہوئے تھے ، ان کی زندگی میں اسامہ بن لادن کے بعدکسی القاعدہ کمانڈر کا نام اگر سب سے زیادہ میڈیا میں زیرگردش رہا، تو وہ ابومصعب الزرقاوی ہی تھے، ان کی جماعۃ التوحید والجہاد کی ’’مجلس شوری المجاھدین ‘‘ بطور ہائی کمان کام کرتی تھی ، جس کے سربراہ عبداﷲ رشید البغدادی ہواکرتے تھے ، یہ مجلس شوری خود زرقاوی ہی نے 2006میں قائم کی تھی ، عراق کا فلوجہ شہران کا مرکز تھااور پورے عراق میں ان کی تباہ کن کارروائیوں کا ایک ایسا طوفان آتاتھاکہ فورسز ان کے سامنے خس وخاشاک کی طرح بہہ جاتیں ، 2006 کے اواخر میں زرقاوی کی شہادت کے بعد ابوحمزہ المہاجر امیرمنتخب ہوئے ، جنہوں نے کچھ ہی دنوں بعد تنظیم کا نام ’’دولۃ العراق الاسلامیۃ ‘‘ رکھ دیا ،جس کے نئے امیر ابو عمر البغدادی کو شوری نے منتخب کیا، 19جون 2010 کو ابوعمر البغدادی اور ابوحمزہ المہاجر ایک ہی ساتھ مارے گئے ،اس کے دوہفتے بعد تنظیم نے اپنے قائدین کی ہلاکت کا اعلان کرکے نئے امیر ابوبکر البغدادی کو منتخب کیا،جو تا حال امیر ہے،جبکہ سلیمان الناصرلدین اﷲ کو وزارت جہادسونپی گئی ،2006تک یہ تنظیم عراق میں علاقائی اور بیرونی فورسز کے ساتھ بڑی شدت سے برسرپیکار رہی ، دھماکے ، خودکش حملے اور دیگر حربی عملیات ان کا وطیرہ رہا، اہل تشیع اور ایرانیوں کے پاسداران ِانقلاب چونکہ عراق میں عمل دخل زیادہ رکھنے لگے تھے ،اس لئے ان کو بھی جابجا اور گاہ بگاہ اپنا ہدف وٹارگٹ بنایا ، نیز اس کی ایک بڑی وجہ عراق کے کٹھ پتلی وزیر اعظم نوری مالکی کے احمقانہ انداز میں فرقہ پرستانہ اقدامات اور نجف وکربلا سے ان کی ان حرکتوں کی بھی تائید تھی۔

بہرحال 2011میں تیونس ، مصر ،لیبیا اور یمن کے بعدعرب بہار کی تازہ دم ہوائیں شام میں چلنے لگیں ، یہاں کے نُصیری صدر، بشار الاسد نے سیاسی تدبر کا مظاہرہ نہ کیا، بلکہ ان انقلابیوں سے توپ وتفنگ کی زبان میں بات کی ، انہیں قتل کیا، جیلوں میں ڈالا، اذیتیں دیں ، خواتین کے ساتھ ہر قسم کی زیادتیاں کیں اور ظلم وبربریت کی وہ تاریخ رقم کرنے لگا،جس کے سامنے حسن بن صباح ،ہٹلر اور رمسولینی کی روحیں بھی دم بخودرہ گئیں ، اسی لئے اس عراقی تنظیم نے اپنی شاخ ’’جبھۃ النصرۃ ‘‘ کے نام سے شامی عوام کی مدد ونصرت کے لئے شام میں قائم کی ، اس تنظیم کے میدان میں آتے ہی شام کی سرزمین پر جنگ کا پانسہ پلٹنے لگا، جبھۃ النصرۃ ، کے قائد ابو محمد الجولانی گوریلا جنگوں اور حملوں کیلئے کے لئے عراق میں بڑی شہرت رکھتے تھے ، 9 اپریل 2013میں جبھۃ النصرۃ کے ساتھ ایک معاہدے کو تشکیل دیاگیا، جس کے رو سے دولۃ العراق الاسلامیۃ کو ’’الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام(داعش) ‘‘ کے نام سے موسوم کیاگیا ، بعد میں جبھۃ النصرۃ کے کچھ شامی ارکان نے اس فیصلے کو مسترد کیا اور اپنی مستقل حیثیت میں رہنے کو ترجیح دی ،لیکن وہ اتنے مؤثر نہیں تھے ، بشارالاسد کی فورسز اور شامی انقلابی فورسز (الجیش الحر) دونوں ہی داعش سے اس لئے نالاں ہوئے کہ وہ یہاں جغرافیاتبدیل کرکے منطقے میں ایک نیا رنگ بھرنے والے تھے ، چنانچہ داعش بیک وقت سب سے لڑنی لگی ، تعجب کی بات یہ ہے کہ اس تنظیم کی پشت پر دنیاکی کوئی حکومت نہیں ہے ، یہ افغان مجاہدین کی طرح زیادہ تردشمن سے اسلحہ وسامان چھین چھین کر اسی دشمن سے لڑتے ہیں ، یہی شام میں ہوا اور یہی عراق میں ہورہاہے ،ان کے پاس عراق وشام دونوں ملکوں کے درمیان کے علاقے ہیں ، دونوں جگہ ان کے پاس چھوٹے ہتھیاروں سے لے کر بکتربند گاڑیاں، ٹینک ،میزائیل اور فائٹرطیارے ہیں ، شام میں ان کے پاس رقہ ، حلب ، لاذقیہ ، دیر الزور ، حماۃ ،حسکہ اور دمشق کے کچھ علاقے ہیں ، عراق میں اس وقت نینوی ،موصل ،تکریت،سامراء انباراور صلاح الدین نامی صوبوں کے علاوہ جگہ جگہ اہم مراکز پریہ تنظیم قابض ہوچکی ہے اور وہاں زیر اثر صوبوں وعلاقوں میں اپنا نظام نافذکرچکی ہے،اُدہر مغربِ عربی(مراکش، تیونس، لیبیا،الجزائر،مالی اور بعض کے بقول مصر و سوڈان) میں داعش جیسی ایک نئی تنظیم (الدولۃ الاسلامیۃ فی المغرب الاسلامی یا فی مصر وسودان’’دامس‘‘) ظہور پذیر ہورہی ہے، جبکہ عراق میں ’’سوات‘‘ نامی ایک لڑاکا گروپ بھی موجود ہے۔

حقیقت تو یہ ہے ، کہ عراق وشام میں موجودہ صورتِ حال کے ذمہ دار بشارالأسد اور نوری مالکی ہیں، جنہوں نے ہمیشہ آمریت ،ڈکٹیٹرشپ اور تنگ نظری کا سہارا لیکر حکومتیں چلانے کی ناکام کوششیں کیں ، مخالفین کا قلع قمع کیا، شخصی اوامر نافذ کئے ،دیو مالائی بننے کی پرخطر اور پر پیچ راہوں کے راہی ہوئے ، دونوں نے اپنے اپنے یہاں حزب اختلاف کو دبانے کیلئے داعش کو شہ دی ،چنانچہ اب اپنے ہی دام میں یہ دونوں صیاد آگئے ۔

نوری مالکی اور بشار کو لبنان ،شام اور عراق کے جن معتدل اہل تشیع بزرگوں نے بھی سمجھانے کی مساعی کیں ، ان دونوں نے ان کا مذاق ببانگ دھل اڑایا، مسخرہ کیا اور تحمیق کی ،اب نتائج ان کے سامنے ہیں ،جن کیلئے اب یہ دونوں ہی روس، ایران ،ترکی ،امریکہ، نیٹو اور سلامتی کونسل سے مددکی اپیلیں کررہے ہیں ،نوری مالکی نے تو مارشلاء اور ایمرجنسی نافذکرنے کا بھی کہا، حالانکہ خود مالکی طرز حکومت کے سامنے کسی مارشلاء یا ایمرجنسی کی کوئی ضروت نہیں ہے ، خلیج کے تمام ممالک میں بادشاہتیں ہیں ، اسپین ،برطانیا اور ملائشیا جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی شاہ ہوتے ہیں ، لیکن ان تمام میں مجالس شوری ہیں ،بشار ،قذافی ،نوری مالکی بزعم خویش ملانصیرالدین کی طرح بلا کسی مشاورت کے خواب وخیال میں بادشاہ بنے ہوئے ہیں ،خود بھی ڈوب رہے ہیں اور اپنی اپنی قوموں کو بھی غرق کررہے ہیں،بھلا اس سٹرانگ میڈیائی دور میں اب ایسا کہاں، کیوں اور کیسے ممکن ہے ؟ لہذا پاکستان میں بادشاہ بننے والوں! اور افغانستان میں امریکن فورسز کے کاندھوں پر سوارحکمرانوں وسیاستدانوں،! اَلحذر ،اَلحذر۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 878000 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More