پاکستان کی سیاسی تاریخ اس حوالے سے باقی دنیا سے منفرد
ہے کہ یہاں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن کی سیاست کا مرکز و محور عوام ہوتے
ہیں اور جو لوگ اقتدار کی نہیں بلکہ اقدار کی سیاست کرنے کے قائل ہوتے ہیں
ہمارے سامنے بہت سے لوگوں کی مثالیں ہیں جو پہلے پہل عوام کی خدمت کے جزبے
سے سیاسی میدان میں اترتے ہیں اگر کہیں ان کا رابطہ عوام سے کمزور ہوا تو
ناکامی ان کا مقد ربن جاتی ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت سی سیاسی قد
آور شخصیات آئیں اور بعض تو ایسی بھی ہیں کہ جنھوں نے جب سے سیاست میں قدم
رکھا ناکامی تو جیسے ان کے مقدر میں نہ لکھی گئی ہوایسے لوگ پاکستان کی
تمام سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں ان شخصیات کا اگر باریک بینی سے جائزہ
لیا جائے اور ان کے سیاسی امور اور عوام سے رابطے اور ان علاقائی مسائل کے
حل کرنے پر نظر ڈالی جائے تو ایسے لوگ کچھ خاص خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں جن
کی وجہ ہر بار کامیابی ان کا مقدر بنتی ہے آج میری اس تحریر کا موضوع یہی
صدا بہار سیاست دان ہیں ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت سے ایسے نام ہیں جنھوں نے اپنی زندگی میں
آنے والے تمام الیکشنوں کو جیت کر ایک منفرد ریکارڈ قائم کیا انھی ناموں
میں ایک نام چوہدری نثار علی خان کا بھی ہے ایک ایسی شخصیت کہ جس کا نہ تو
کوئی بڑا سیاسی گھرانہ ہے اور نہ ہی کوئی بڑا بیک اپ مگر اس کے باوجود اس
شخص نے اپنی زندگی میں لڑے جانے والے تمام الیکشنوں میں کامیابی حاصل کی
اور ایسے تمام تجزیہ کاروں کو جو کہ پاکستان کے پولیٹکل ہسٹری پر اپنی
مضامین لکھتے رہتے ہیں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ایسی کون سے جادوائی
چھڑی چوہدری نثارعلی خان کے پاس کہ ہر بار کامیابی ان کا مقدر بن جاتی ہے
اور دوسرے لوگ جن کے پیچھے کئی خفیہ ہاتھ اور بڑی سرمایہ کا ری ہونے کے
باوجود بھی وہ ناکام ٹھرتے ہیں اس کی پہلی سب سے بڑی وجہ چوہدری نثار علی
خان کا گراس روٹ لیول کے ورکر سے رابطہ ہے جس کی مثال ایسے دی جا سکتی ہے
کہ آپ کو اگر کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو آپ چوہدری نثار علی خان کو خط لکھیں
خط لکھنے کے ٹھیک سات یا آٹھ دن بعد آپ کو اس کا جواب ملے گا اور جو بھی آپ
کے مسئلے کا حل ہو گا اور جو بھی کاروائی ممکن ہو سکے گی وہ اس میں تحریر
ہو گی دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب سے انھوں نے سیاست میں قدم رکھا ہے کسی
بھی دور میں چاہیے وہ ان کی اپنی حکومت ہو یا پھر مخلاف جماعت کی ان پر کسی
قسم کے کرپشن کا نہ تو کوئی الزام لگا ہے اور نہ ہی کہیں سے ان کے خلاف
کوئی ایسی آواز اٹھی ہو جس میں ان پر کرپشن یا اقربا پروری یا پھر اختیارات
سے تجاوز کرنے کی کوئی شکایت ہو یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ
سابق دور حکومت میں ان کی فیملی پر اور تھوڑا بہت ان پر بھی دہری شہریت کا
الزام لگا تھا جس کو انھوں نے دوسرے دن ہی اپنی پریس کانفرنس میں کلئیر کر
دیا تھا جس کے بعد الزام لگانے والوں کو جیسے چپ لگ گئی ہو یہ بھی ایک بہت
بڑی خوبی ہے ان میں کہ انھوں نے اس سیاسی ماحول میں جہاں وزیروں مشیروں کو
عوام کی فکر سے زیادہ اپنے اثاثے بنانے کی فکر رہتی ہے اپنے آپ کو بلکل صاف
شفاف رکھا اور کسی کو بھی شکایت کا موقع نہیں دیااور ان کے انتخابی علاقوں
میں تعمیر وترقی کا جو گراف ہمارے سامنے ہے وہ تمام علاقوں سے زیادہ ہے اس
کی بڑی وجہ ان کی علاقائی تعمیر و ترقی میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے
کے مسائل پر گہری نظر کی عکاسی بھی کرتی ہے اور ان کے دیے گئے منصوبے علاقے
کی بنیادی ضرورت سمجھے جاتے ہیں اور ان کا فائدہ روایتی منصوبوں سے کہیں
زیادہ ہوتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے دیے گے منصوبے کامیاب ترین منصوبے
تصور کیے جاتے ہیں اگر دیکھا جائے تو یہ ان کی بہت بڑی خوبی ہے جس کا کسی
بھی اور سیاسی لیڈر کی زندگی میں نظر آنا کافی مشکل ہے تیسری اہم بات کہ وہ
اپنے آپ کو عوام کے بہت قریب رکھتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ وزیروں والا
روایتی پروٹوکول اور نمائش کرنے کی ضروت محسوس نہیں کرتے اسلام آباد کی
سڑکوں پر دہشت گردی کے شکار ملک کا وزیر اخلہ بہت معمولی سے پروٹوکول میں
محو سفر ہوتا ہے جس کا مشاہدہ عام عوام سفر کے دوران کرتے رہتے ہیں اور جب
سے ان کو وزیر داخلہ کا قلمدان دیا گیا ہے انھوں نے سے سب سے اہم اقدام یہ
کیا کہ پولیس فورس کو از سر نو منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا اور تمام اہم
شخصیات سے اضافی سیکیورٹی کو واپس لے کر عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے
وقف کر دیا گیا اور بہت سے ارب پتی اور کروڑ پتی لوگوں سے پولیس اور سرکاری
گارڈز واپس لے لئے جو خو د اپنے لئے ایسے کئی گارڈز بھرتی کر سکتے تھے جن
کو سابقہ حکومت نے بلا وجہ سیکیورٹی مہیا کی ہوئی تھی وہ واپس لینے کے
احکامات جاری کیے جس کا عوامی حلقوں کی جانب سے خیر مقدم کیا گیاان کے اس
اقدام کی وجہ سے مختلف پولیس اسٹیشنوں میں جہاں نفری کی کمی تھی وہ ناصرف
پوری ہو گئی بلکہ علاقائی امن وا مان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں مدد
ملی ہے چوہدری نثار علی خان کے سیاسی مخالفین کی بھی کوئی کمی نہیں ہے لیکن
آج تک ان میں سے کسی نے بھی ان کی سیاسی زندگی میں ان پر کرپشن یا اختیارات
کے ناجائز استعمال کو سچ ثابت نہیں کیا ہاں البتہ ان کے مخالفین ان کے اپنے
ورکروں پر برسنے اور اپنی بنائی گئی ترقیاتی کمیٹیوں کی کارکردگی پر ان کے
غصے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے نظر آتے ہیں لیکن ان کی جماعت کے نظریاتی
کارکن جانتے ہیں ان کی طرف سے کیا جانے ردعمل ان کی کارکردگی کی وجہ سے ہے
جس کو چوہدری نثارعلی خان کسی بھی طور پر کم نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ اپنے
ورکروں کو وہ ہمیشہ عوام کے دکھ درد میں شامل ہونے کی تلقین کرتے نظر آتے
ہیں ان تمام خوبیوں کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص پاکستان
کی سیاسی تاریخ میں اتنا کامیاب ہے تو اس کی جوہات بھی ہیں جو کہ بلا شبہ
چوہدری نثار علی خان میں موجود ہیں اس کے برعکس بہت سے ایسے لیڈر بھی آئے
جو کہ اپنے آپ کو تاریخ کا کامیاب ترین سیاست دان تصور کرتے تھے مگرجیسے ہی
ان کااقتدار ختم ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن گئے لیکن چوہدری نثارعلی خان اچھی
طرح جانتے ہیں کہ اگر اپنے آپ کو عوام میں ہمیشہ مقبول رکھنا ہے تو اس کے
کیا اصول ہیں اور ان تمام اصولوں پر کاربند رہنے ہی کی وجہ سے وہ آج بھی
صدا بہار سیاست دان کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ |