ضربِ عضب

مجھے یاد ہے لال مسجد کا وہ منظر۔ایک ٹی وی چینل کا کافی منجھا ہوا بیورو چیف ایک چھت پہ نصب پانی کی ٹینکی کی اوٹ سے لائیو تھا۔مسجد کے گرد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حصار باندھ رکھا تھا۔بیورو چیف حکومت کی رٹ کے لتے لے رہا تھا۔حکومت کی نا اہلی کا رونا رو رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ کیسی حکومت ہے جو مسجد میں چھپے چند دہشت گردوں کو کنٹرول نہیں کرسکتی۔ ملک بھر کی ساری فوج مسجد کے گرد اکٹھی ہے اور تماشہ لگایا ہوا ہے۔دنیا بھر میں ہماری بد نامی ہو رہی ہے۔وہ اپنی لائیو رپورٹنگ میں یہ تاثر دے رہا تھا کہ اس حکومت میں کو ئی صائب الرائے اور صاحب ارداہ آدمی ہی نہیں۔پھر اچانک گولی چلنے کی آواز آئی۔ بیورو چیف کی باچھیں کھل گئیں اور اس نے حلق کا سارا زور لگا کے چیخ ماری اور اپنے قارئین کو لمحہ بہ لمحہ خبر دینے لگا۔اگلے پانچ منٹ میں اس کے خیالات بھی بدل چکے تھے اور الفاظ بھی۔ تھوڑی دیر پہلے حکومتی رٹ کی دہائی دینے والا اور مسجد کے اندر چھپے لوگوں کو دہشت گرد قرار دینے والا اب انہی لوگوں کو معصوم قرار دے رہا تھا۔اسے قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت اور بر بریت کی علامت نظر آ رہے تھے۔اس کے بعد جب تک معاملہ حل نہیں ہوا اس شخص کا واویلا ختم نہیں ہوا۔

میڈیا اب زیادہ ہوشمند بھی ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ بھی۔مجھے امید ہے مشکل اور مصیبت کی اس گھڑی میں میڈیا نہ صرف اپنے وطن کا حق نمک ادا کرے گا بلکہ ماضی کی ان غلطیوں اور کوتاہیوں کا بھی ازالہ کرے گا جو کم عمر ہونے کی وجہ سے اس سے سرزڈ ہوئیں۔ہم مدت سے دہشت اور دہشت گردی کا شکار ہیں۔عوام تو یوں بھی کہ ان کے پاس سوائے اپنی رائے کے اور کچھ ہے نہیں ۔دہشت گرد لیکن خود کش بمباروں سے لے کے دنیا کے جدید ترین اسلحہ سے لیس ہیں۔ان سے حکومت ہی لڑ سکتی تھی۔حکومت نے مذاکرات کا ضرورت سے زیادہ وقت دیا۔حکومت کو لوگوں نے طالبان کے ترلے کرنے کے طعنے دئیے۔اس کے باوجود حکومت آخری حد تک گئی۔دنیا نے دیکھا کہ نام نہاد جنگ بندی کے اعلان کے باوجود دہشت کا اذیتناک اور المناک سفر جاری رہا۔ فوجی قافلوں پہ حملے ہوتے رہے۔عام عوام مارے جاتے رہے لیکن حکومت نے انتہائی صبر اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔اتمامِ حجت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ عوام تو پہلے ہی یکسو تھے لیکن اب ریاستی ادارے بھی یکسو ہونے لگے کہ مذاکرات بس وقت کا ضیاع ہے۔کراچی ایئر پورٹ کی حفاظت پہ مامور ائیر پورٹ سیکیورٹی فورس کے جوانوں نے مادرِ وطن کی حفاظت کے لئے سینے پہ شہادت کے تمغے سجائے اور ان تمغوں کی چکا چوند نے ان لوگوں کو بھی سوچنے پہ مجبور کر دیا جو اس سے پہلے مذاکرات کے حامی تھے۔

اب کائنات کی سب سے یکسو اور عظیم ہستی کی تلوار بروئے کار ہے۔کائنات کے سب سے زیادہ عادل اور منصف۔قہر جبر اور غضب جن کی زندگی میں صرف اﷲ کے دشمنوں کے لئے ہی خاص تھا۔آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔مجھے یقین ہے کہ اﷲ قہار وجبار کے غضب سے اب دہشت گردوں اور شر پسندوں کو کوئی نہیں بچا سکتا۔فوج کو ٹاسک دے دیا گیا ہے اور ان شاٗ اﷲ وہ اپنی ذمہ داریاں ضرور پوری کرے گی۔قوم بھی اب پہلے سے زیادہ یکسو ہے۔ طالبان کی سب سے زیادہ حامی سمجھی جانے والی تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے بھی حالات و واقعات کا بغور جائزہ لینے کے بعد طالبان کی حمایت سے ہاتھ کھینچنے اور آپریشن کی مکمل حمایت کیا فیصلہ کیا ہے جو قابلِ تحسین ہے۔جماعت اسلامی اورجمیعت کے علاوہ سبھی لوگ اس شدت پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے حامی ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کی اپنی مسلکی اور سیاسی مجبوریاں ہیں۔مجھے امید ہے کہ اندر خانے یہ جماعتیں بھی اس بات پہ قائل ہیں کہ اب اس عفریت سے جان چھڑانا بہت ضروری ہو گیا ہے۔

ہم حالتِ جنگ میں ہیں۔ جنگل کا بگل بج چکا۔ جنگ میں چلنے والا گولہ دوست اور دشمن کی پہچان سے عارہ ہوتا ہے۔ آتے کے ساتھ گھن نہیں پسنا چاہئیے لیکن پستا ہے کہ یہی قانونِ قدرت ہے۔ جنگ کو اب جنگ ہی کی طرح لڑنا ہے۔ اس جنگ میں جہاں دشمن کا نقصان ہو گا وہیں کچھ شعلے ہماری طرف بھی لپکیں گے لیکن انہیں برداشت کرنا ہے۔اس کے لئے اپنے عوام کو تیار کرنا ہے ۔جنگ کے ہنگام لاشیں نہیں گنیں جاتیں مقصد پہ نظر ہوتی ہے۔عزیزوں دوستوں اور ساتھیوں کی لاشوں سے گذر کے دشمن کے گلے تک ہاتھ پہنچتے ہیں۔ اس خوفناک حقیقت کو مدنظر رکھنا ہے۔ ہم پچھلے کئی سالوں سے آہستہ آہستہ مر رہے ہیں۔بے بسی میں لاشے اٹھاتے اٹھاتے ہمارے ہاتھ شل ہو چکے۔ ہمیں کچھ اور قربانیاں دینی پڑیں گی لیکن صبح طلوع ہونے کو ہے۔شہیدوں کے خون کی لالی اب کے صبحِ نو کی نوید لائے گی۔مجھے اس کا پورا یقین ہے۔

جنگ قوم کی مکمل مدد کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔ہمیں اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنا ہوں گے۔ دشمن کی ہر حرکت پہ نظر۔ارد گرد پہ دھیان۔فوج ضرور کامیاب ہو گی اگر ہم نے اپنا کردار بخوبی نبھایا۔آپریشن ضربِ عضب کا فیصلہ کر کے حکومت نے پاکستان بچانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کی تحسین کرتے ہوئے میں چند باتیں اربابِ حل وعقد کے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں کہ اس علاقے سے نقل مکانی کرنے والوں کی نگہداشت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرے۔ان کی آباد کاری اور دلجوئی کا پورا بندو بست ہو۔قوم کے مخیر حضرات بھی آگے بڑھیں۔ وہ جماعتیں جو فوج کی حمایت میں ریلیاں نکالنا چاہتی ہیں۔یہ کام چھوڑ کے ان لوگوں کو سنبھالیں یہی ملک اور فوج کی بڑی حمایت ہو گی۔عوام کو منظم کریں کہ وہ لوکل ڈیفنس کا شعور حاصل کر سکیں۔ہم سب ہی یہ بات جانتے ہیں کہ ہمارے اندر اور ارد گرد ان کے حامی موجود ہیں اور ان کے جنگجو بھی۔ جوں جوں جنگ بڑھے گی یہ لوگ اندر سے وار کریں گے۔ حکومت سے درخواست صرف یہ ہے کہ ان اندر کے حامیوں کو عین شہر کے چوراہوں میں لٹکایا جائے تا کہ باقی لوگوں کو کان ہو جائیں۔طالبان سے زیادہ ان لوگوں کو آہنی شکنجے کی ضرورت ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی تشکیل کے لئے بعض اوقات لاکھوں کی قربانی دینا پڑتی ہے۔اگر ہم اس کے لئے تیار ہیں تو پھر وہ وقت قریب ہے جب پاکستان کی ہاں اور ناں میں اقوام کی تقدیر کے فیصلے ہوں گے۔بس اک ذرا انتظارکامیابی ان شاء اﷲ پاکستانی قوم کا مقدر ہے۔حق اور باطل میں تفریق ہو چکی۔جمیعت اور جماعت اسلامی کی فکر نہ کریں فیصلے کی گھڑی میں ان جماعتوں سے اکثرغلطیاں ہوتی رہی ہیں لیکن بہرحال یہ بھی اپنی غلطیاں تسلیم کرتے رہے ہیں۔یہ تاریخی حقیقت ہے۔کامیابی کے بعد نکلنے والے جلوس میں یہی دو جماعتیں سب سے آگے ہوں گی۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291965 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More