سترہ جون کو لاہور میں منہاج القرآن کے کارکنوں کے ساتھ
جو کچھ ہوا وہ نہ صرف باعث افسوس ہے بلکہ ہر محب وطن پاکستانی کا سر شرم سے
جھکا ہواہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پولیس کو جو ٹریننگ دی جاتی ہے اسکا
پہلا سبق یہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں کے تلوئے چاٹنا تمارا اولین فرض ہے،
دوسرئےحکمرانوں کے مخالفین یا عام لوگوں کے ساتھ بدترین سلوک کرنا بھی
پولیس کے فرائض کا حصہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باوردی سرکاری ملازم
جنہیں عام زبان میں پولیس کہا جاتا ہے یوں تو پورئے پاکستان میں ہی بدنام
ہیں لیکن صوبہ پنجاب کی پولیس کرپشن اور ظلم و زیادتی میں باقی صوبوں سے
آگے ہے۔کسی بھی حکومت کے بارئے میں اگر آپ کو یہ جانچنا ہوکہ وہاں کے
حکمراں کیسے ہیں تو سرکاری ملازمین کے زریعے اور خاصکر پولیس کے زریعے یہ
جانچا جاسکتا ہے کہ اُس ملک یا اُس صوبہ کے حکمران کیسے ہیں کیونکہ سرکاری
مشنری اور پولیس اپنے ملک یا صوبہ کے سربراہ کے مطابق بہت جلد اپنے آپ کو
ڈھال لیتے ہیں۔ کہنے کا مطلب سیدھا سیدھا یہ ہے کہ لاہور میں جو آٹھ افراد
جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں زندگی کی بازی ہار گئےاُن کی موت کی زمیداری
کسی عام پولیس والے یا کسی ایس ایچ او پرنہیں ڈالی جاسکتی ہے، سیدھی سی بات
ہے کہ ان آٹھ اموات اور 90 زخمی افراد کے علاوہ املاک کی بربادی
کےذمیدارصوبہ کے سربراہ شہباز شریف ہیں۔
پاکستان دوہری شہریت کو تسلیم کرتا ہے اور ہر اُس شخص کو پاکستان کی سیاست
میں حصہ لینے کا حق دیتا ہے جو دوسرئے کسی بھی ملک کے ساتھ پاکستان کا شہری
بھی ہو۔ پاکستان کی دو شخصیات ایسی ہیں جو دہری شہریت کی حامل ہیں اور
پاکستان کی سیاست میں بھرپور حصہ لیتی ہیں، اُن میں ایک تو ایم کیو ایم کے
سربراہ الطاف حسین ہیں جبکہ دوسری شخصیت ادارہ منہاج القرآن کے سربراہ
علامہ طاہرالقادری کی ہے جو اپنی سیاسی جماعت "پاکستان عوامی تحریک" کےبھی
سربراہ ہیں۔ علامہ طاہر القادری کی سیاست سے ضروری نہیں کہ میں اور آپ متفق
ہوں، گیارہ مئی کے راولپنڈی کے جلسے میں اعلان کردہ اُنکے دس نکات سے بھی
متفق ہونا ضروری نہیں، لیکن اس بات سے یقینا میں اور آپ دونوں لازمی متفق
ہونگے کہ گذشتہ سال علامہ طاہرالقادری نے لاہورسے اسلام آباد تک جو 38
گھنٹے کا لانگ مارچ کیا تھا وہ پرامن تھا، اس بات سے بھی کسی کو اختلاف
نہیں کہ اگلے چار روز اسلام آباد کے ڈی چوک میں جو دھرنا دیا گیا وہ بھی
پرامن تھا۔ میں نے طاہرالقادری کے اسلام آباد دھرنے کے خاتمے کے بعد ایک
مضمون "دو پرامن دھرنے مگرسبق ایک" کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جس کا
کچھ حصہ یوں تھا "تیرہ جنوری کوعلامہ طاہر القادری اپنے اعلان کردہ لانگ
مارچ پر لوگوں کی ایک کثیرتعداد اور سینکڑوں بسوں ، ٹرکوں، کاروں اور موٹر
سایکلوں کے ساتھ لاہور سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے۔ روانگی سے قبل
علامہ طاہر القادری نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ انکے لانگ مارچ کے
شرکا ایک پتہ بھی نہیں توڑینگے۔ لاہور اور اسلام آباد کے درمیان جی ٹی روڈ
پر آنے والے شہروں سے گذرتا ہوا یہ لانگ مارچ 38 گھنٹے میں پرامن طریقے سے
اسلام آبادپہنچا جہاں اُسے دھرنا دینا تھا۔ جمرات سترہ جنوری کو ساڑھے چار
بجے حکومت کا دس رکنی اتحادی جماعتوں کا وفد آیا اور ساڑھے دس بجے رات کو
ایک معاہدہ کے بعد علامہ طاہر القادری نے دھرنے کے ختم ہونے کا اعلان کیا۔
تھوڑی دیر بعد دھرنے کے شرکا کی اسلام آباد سے روانگی شروع ہوچکی تھی۔ چھ
ڈگری کی شدید سردی اور بارش کے باوجود لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ
اور پھر چار دن تک اپنے پر امن دھرنے کی بدولت ایک پتہ توڑے بغیر دھرنے کے
شرکا نےملک کے صدر اوروزیر اعظم کو مجبور کیا اور اپنے تمام مطالبات منظور
کروالیے"۔ سیاسی طور پر کسے فاہدہ ہوا یا کسے نقصان یہ تعین کیے بغیرمیں
سلام کرتا ہوں اسلام آباد کے پرامن دھرنے میں شامل لوگوں کو کیونکہ اس
دھرنے نے پاکستان کی سیاست پر ایک تاریخی اورسبق آموزاثرچھوڑا تھا کہ تشدد
کیئے بغیر بھی سیاست کی جاسکتی ہے۔
دسمبر 2012ء میں علامہ طاہر القادری پاکستان آئے اورپاکستانی سیاست پر
چھاگئے اورجب جنوری 2013ء میں علامہ نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو
پاکستان کی سیاست میں ایک بھونچال آگیا۔سچی بات یہ ہے کہ سابق صدر آصف
زرداری نے اس سیاسی بھونچال کو بہت ہی آسان لیا جبکہ نوازشریف کو اپنی آتی
ہوئی باری دور جاتی نظر آرہی تھی لہذا انہوں نے ایک کانفرنس میں ان جماعتوں
کو بلالیاجو یا تو حکومت مخالف تھیں یا پھر وہ علامہ طاہر القادری کے دھرنے
کے خلاف تھیں ۔ جبکہ علامہ نے اُس وقت مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ پنجاب کی
مسلم لیگ ن کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس وقت صورتحال یہ
ہے کہ تیرہ سال بعد نواز شریف کو حکومت ملی ہے اور اس مرتبہ وہ اپنے پانچ
سال مکمل کرنا چاہ رہے ہیں لیکن اُن کی ایک سال کی حکومت کے بعد پاکستان کے
عوام جو پہلے ہی پریشان تھےمزید پریشان ہوچکے ہیں، اُنکے لیے ضروریات زندگی
کا حصول مشکل ہوگیا ہے، بجلی کا بل اُنکے اوپر بجلی بنکرگرتا ہے، امن و
امان کی صورتحال مزید خراب ہوچکی ہے، اسٹریٹ کرائم، بھتہ خوری، اغواء برائے
تاوان ، دہشت گردی اور ڈرون حملوں نے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے،
نواز شریف تیسری مرتبہ حکومت میں آئےہیں لیکن اُن کو کوئی کامیابی نہیں ملی
ہے۔ طالبانی دہشتگردوں سے نام نہاد مذاکرات ختم ہوچکے ہیں اور فوجی آپریشن
شروع ہوچکا ہے لیکن شاید مسلم لیگ ن کی یہ پالیسی کےخلاف ہےلیکن عوام اور
فوج کو ایک ساتھ دیکھ کرنواز شریف کو بھی آپریشن کے فیصلے کو تسلیم کرنا
پڑا۔ نواز شریف کی یہ خواہش تو پوری ہوگی کہ اُنکی اکیلی پارٹی حکومت بنائے
لیکن ایک سال میں وہ کوئی کامیابی حاصل نہ کرپائے۔
نواز شریف اور اُنکے بھائی شہباز شریف نے کچھ نورتن پالے ہوئے ہیں جو شاہ
سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں، مثال کے طور پر عمران خان کوئی جلسہ کریں یا
حکومت کے خلاف کوئی بیان دیں تو یہ نورتن فورا حرکت میں آجاتے ہیں اور شاہ
سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں لگ جاتے ہیں، یہ ہی سلوک یہ ہراُس لیڈر
یاسیاسی جماعت کے ساتھ کرتے ہیں جو دونوں بھائیوں یا انکی حکومت کے خلاف
کچھ بولے، ان نورتن میں سے ایک پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء ہیں۔ علامہ
طاہر القادری کا پاکستان آنے کا پروگرام سب کو پتہ ہے اور اگر رانا ثناء کو
ایک عرصے سے لگے ہوئے حفاظتی بیرئیرز پر اعتراض نہیں تھا تو پھر ڈھائی بجے
رات کو پولیس ادارہ منہاج القرآن کے باہر کیا کررہی تھی، بقول رانا ثنا ء
قانون کے مطابق حفاظت کے لئے حفاظتی بیریئر لگائے جا سکتے ہیں اور وہاں
حفاظتی بیریئر کئی سال سے موجود تھے اور پولیس پہرا بھی دے رہی تھی، رانا
ثناء کو اعتراض اس بات پر تھاکہ علامہ طاہرالقادری کی واپسی کےاعلان کے بعد
پولیس کا پہرا ہٹا کر نجی سیکوریٹی کو لگا دیا گیا۔ جس پولیس پر رانا ثناء
کے آقا بھروسہ نہیں کرتے اگر اُس کو ہٹاکر ادارہ منہاج القرآن نے اپنی نجی
سیکوریٹی لگالی تو اس میں قانون کی ایسی کیا خلاف ورزی ہوگئی کہ آٹھ
انسانوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا اور نوئے زخمی ہوکر ہسپتال پہنچ گے۔
آنے والے چند دنوں میں نواز شریف اور طاہرالقادری آمنے سامنے ہونگے، انتظار
کریں اور دیکھیں کہ نواز شریف کیا وہی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں جو آصف
زرداری نے اختیار کی تھی یا کچھ اور۔شاید اس مرتبہ نواز شریف اور انکی
حکومت کا اپنے مخالفین کو ڈنڈئے کے زور پر دبانے کا پروگرام ہے جسکا مظاہرہ
17 جون کو منہاج القرآن کے کارکنوں پر کیا گیا۔ علامہ طاہرالقادری کے ادارہ
منہاج القرآن کی عام پہچان ہے اور اس کے ہزاروں منظم کارکن ہیں، یہ طاہر
القادری کی ہر بات کو لبیک کہتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ اتنے بڑئے سانحے کے
باوجود علامہ طاہر القادری کے کہنے پر اگلے دن سکون ہوگیا۔علامہ طاہر
القادری کی سیاست کو عوام قبول کرتے یا مسترد کرتے ہیں یہ آنے والا وقت
بتائے گا لیکن لاہور میں ہونے والے اس سانحہ کی جسقدر مذمت کی جائے وہ کم
ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سرکاری وردی پہنےپولیس نے جس بربریت کا
مظاہرہ کیا ہے اور بغیر وردی کے گلو بٹ نے پولیس سرپرستی میں جو املاک کو
نقصان پہنچا یا اسکے بعد اگر شہباز شریف میں تھوڑی بھی شرم ہوتی تو وہ
استعفی دئے چکے ہوتے۔ |