کہتے ہیں کہ ایک جنگل ہوا کرتا تھا، یوں تو اٌس جنگل میں
وہ تمام مخلوقات پائی جاتی تھی جو کسی بھی جنگل کا لازمی جٌز ہوتی ہے لیکن
اٌس کی وجہ شہرت اس میں رہنے والے "شیر" تھے جو آبادی کے لحاظ سے جنگل کا
اکثریتی طبقہ تھے اور یہی اکثریت اس جنگل کو دوسرے جنگلوں سے ممتاز کرتی
تھی، پر یہ کہنا بھی مناسب نا ہوگا کہ صرف شیروں کی اکثریت ہی جنگل کی
امتیازی حیثیت کی وجہ تھی کیو نکہ ایسی بہت سی خصوصیات اور بھی تھی جن کی
وجہ سے اس جنگل کو دوسرے جنگلوں کے مقابلے میں جداگانہ حیثیت حاصل تھی۔
جیسے کہ عام طور شیر کو جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے اور یہ کچھ غلط بھی
نہیں لیکن اس انوکھے جنگل میں، باوجود اکثریت میں ہونے کے ، شیروں نے کبھی
اعلانیہ اور کلّی طور پر اقتدار کی باگ دوڑ نہیں سنبھالی ، جنگل کا اقتدار
کبھی لومڑیوں کے اختیار میں رہا تو کبھی ہاتھیوں نے طاقت کے زور پر اقتدار
پر قبضہ کیئے رکھا۔ طاقت اور حکومت کے ایوانوں کے مستقل مکین نہ ہونے کے
باوجود شیروں کا رعب و دبدبہ قائم تھا اور چاہتے ہوۓ بھی لومڑیوں اور
ہاتھیوں کی یہ جرات نا ہو سکی کہ جنگل میں کوئی ایسا قانون یا نظام بنا سکے
جو شیروں کے لیئے ناقابل قبول ہو کیونکہ شیروں کی اکثریت، ان کا رعب و جلال
اور عالمی جنگلوں میں ان کا اثرو رسوخ ہی لومڑیوں اور ہاتھیوں کو ان کی
حدود میں رکھنے کے لیے کافی تھا ۔
جیسا کہ قانون قدرت ہے کہ کوئی شے بے عیب نہیں سواۓ ذاتِ رب ذولجلال کے اور
اس کے محبوب (ﷺ) کے، شیروں میں بھی ایک عیب تھا اور وہ عیب ان کی "میں" تھی
یعنی ان کی انا۔شیروں نے بھائی چارے اور اتحاد و اتفاق کا ایک تاثر تو قائم
کیا ہوا تھا اور وہ ایسا باور کرواتے تھے جیسے کے ہر مشکل گھڑی میں تمام
شیر ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں اور اگر کسی نے کسی بھی
شیر کی طرف میلی نظر سے دیکھا تو وہ بد نظر تمام شیروں کا مشترکہ دشمن
سمجھا جاۓ گا لیکن حقیقت میں یہ صرف ایک تاثر ہی تھا کیوں کے ہر شیر اپنی
انا کا غلام تھا اور اندرونی طور پر شیر کئی حصّوں میں تقسیم تھے اور ہر
حصّہ اپنے آپ کو شیروں کی برادری کی قیادت کا اہل سمجھتا تھا اور اس قیادت
کے حصول کے لیئے وہ اپنے آپ کو شیروں کا مسیحا اور مخالف حصّوں کو برادری
کا دشمن ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ شیروں کی
قیادت کے دعویدار نااہل اور بدکردار تھےلیکن قیادت کے سنگھاسن پر تو کوئی
ایک ہی جلوہ افروز ہو سکتا تھا اور مسئلہ یہی تھا کے وہ ایک ہوگا کون؟
شیروں کی "میں" اور انا کسی ایک کی قیادت پر متفق ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ
تھی اور کسی ایک کی حاکمیت کا تصّور ہی اْن کی انا مجروح کرنے کے لیے کافی
تھا۔
عالمی جنگلوں کے بدلتے حالات و واقعات جہاں خون آشام بھیڑیوں کو مستحکم اور
طاقتور کر رہے تھے وہی شیروں کی برادری میں سے ایک ایسا شیر نمودار ہوا جو
اپنی علمیت اور کرشماتی شخصیت کی وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے عالمی جنگلوں کے
منظر نامے پر چھا گیا، غیر جانبدار شیر جوق در جوق اس کی طرف بڑھنے لگے اور
اس کے ارد گرد اکھٹّا ہونے لگے ، جیسے جیسے بھیڑیوں کی کاروائیاں بڑھتی گئی
اس شیر کی بھیڑیوں کے خلاف مزاحمت بھی بڑھتی گئ اور وہ اکیلا ہی بھیڑیوں کے
خلاف سینہ سپر ہوگیا۔ اب ضرورت اس بات کی تھی اورعقلمندی کا تقاضا بھی یہی
تھا کہ تمام شیر اٌس جرّی اور بہادر شیر کی قیادت پر متفق ہوجاتے لیکن
شیروں کی روائتی انا پرستی اور ہٹ دھرمی اس بات کو کیسے گوارہ کرتی بلکہ
الٹا شیروں کے مختلف گروہوں نے اٌس قابل ترین شیر کے خلاف محاذ بنا لیا اور
پھر تو جیسے الزام تراشی اور کردار کشی کی فیکٹریاں وجود میں آگئ۔ بھیڑیوں
کی ہمت بڑھتی گئ اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے جہاں معصوم شیر کھلے عام
بھیڑیوں کی بربریت کا نشانہ بننے لگے، بلاتفریق نر و مادہ ، بزرگ و کمسن ،
شیروں کے خون سے ہولی کھیلی جانے لگی لیکن شیروں کی قیادت کے دعویدار اپنی
"میں" کے حصّار سے باہر نا آسکے۔
شیروں کی تقسیم واضح ہوگئی اور نام نہاد اتحاد و اتفاق کا بھرم اٌس دن ٹوٹ
گیا جس دن لومڑیوں نے بھی اپنی اوقات سے بڑھ کر کچھ کرنے کا فیصلہ کیا ، وہ
چالاک لومڑیاں جو شیروں کے سامنے تھر تھر کانپا کرتی تھی اور اپنے اقتدار
کو طول دینے کی خاطر ہر اس عمل سے بچنے کی کوششیں کرتی تھی جس سے انھیں
شیروں کی ناراضگی کا ڈر ہو، انھی کم ظرف لومڑیوں نے شیروں کی تقسیم کا
فائدہ اٹھانے کا ناپاک منصوبہ بنایا اور پھر اٌس جنگل نے ایک ایسے یوم سیاہ
کا سامنا کیا جس دن اٌس بہادر اور قابل ترین شیر کے مرکز پر حاکم لومڑی کے
حکم پرظالمانہ اور وحشیانہ ریاستی دہشت گردی کا ایسا مظاہرہ کیا گیا جس پر
پورا جنگل انگشت بدنداں تھا اور انسانیت ماتم کناں تھی۔ معصوم شیروں کو
بلاتفریق جنس و عمر ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا اور لومڑیوں کی حکومت
بلا جھجک شیروں کے خون سے اپنی پیاس بجھاتی رہی اور اپنی "میں" کے غلام
شیروں کے مختلف گروہوں نے مجرمانہ خاموشی کا اختیار کئے رکھی، کہیں سے کوئی
صداۓ احتجاج بلند نہ ہوئی ، خود پرست و انا پرست شیروں کی بربادی کا تماشہ
دیکھتے رہے اور پھر شیروں کی تذلیل و رسوائی عام ہوگئ ، جنگل کی فضا شیروں
کے خون سے مہکنے لگی ، بھیڑیوں اور لومڑیوں نے ہر شیر کو نشانہ ستم بنانا
شروع کیا ، کون شیر کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے اور کس کا حمائیتی ہے یہ بے
معنی ہوگیا، اس کا شیر ہونا ہی اس کی وجہ قتل قرار پایا، لاشیں گرتی رہی
اور خون بہتا رہا ، عزتیں پامال ہوتی رہی اور جنگل تو جیسے شیروں کے لیے
ایک قبرستان بنا دیا گیا او ر بیوقوف شیر ہونّقوں کی سی شکلیں بناۓ ایک
دوسرے سے پوچھنے لگے کہ آخر ہم سے کیا غلطی ہوئی؟ ہماری بربادی کی بھلا وجہ
کیا ہے ؟ ہم تو امن پسند تھے ، ہم تو مرنے مارنے سے کوسوں دور تھے، پھر ہم
نشانہ ستم کیوں؟ شیروں کے اس تجاہل عارفانہ کے ردعمل میں قریب پڑے ہوۓ
ننّھے شیر کی لاش کو نوچتا بھنبوڑتا گدھ بولا، تم تقسیم تھے، تم اپنی "میں"
کے غلام تھے، تم اپنے سے بہتر و برتر کی حاکمیت تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے،
تم مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوۓ تھے ، تم اس وقت سجدے میں چلے گئے جب
قیام کا وقت آیا، تمھارے دشمن باطل پر متحد تھے اور تم حق پر بکھرے ہوۓ
تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جہاں عدم اتفاق اور اناپرستی اکھٹّی ہوجاۓ وہاں
تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں بچتا اور اگر تم نے بھی اپنی روش نہ بدلی
تو تم بھی یقیناً تاریخ کی ایک دردناک و المناک داستان بن کر رہ جاؤ گے۔
سید قمقام علی زیدی
ریاض، سعودیہ عربیہ |